اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت میں جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ الیکشن کمشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی، نتائج لوگ کیوں بھگتیں۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ جب آمر آئے سب ساتھ مل جاتے ہیں، وزیر اور اٹارنی جنرل بن جاتے ہیں اور جب جمہوریت آئے تو چھریاں نکال کر آجاتے ہیں۔ سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے بتایا صاحبزادہ حامد رضا نے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑا تھا، صاحبزادہ حامد رضا نے کاغذات نامزدگی میں وابستگی سنی اتحاد کونسل سے ظاہر کی تھی، مخصوص نشستیں ملیں تو کنول شوزب سنی اتحاد کونسل کی امیدوار ہوں گی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حیرت کی بات ہے سلمان اکرم راجہ اور فیصل صدیقی نے پشاور ہائیکورٹ کی بات ہی نہیں کی، دونوں وکلا نے صرف الیکشن کمشن کے فیصلے کی بات کی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت کو بتایا گیا ہے کہ کاغذات نامزدگی میں حامد رضا نے سنی اتحاد کونسل سے وابستگی ظاہر کی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ وابستگی کے لیے پارٹی ٹکٹ کا ہونا ضروری ہے۔ ایڈووکیٹ مخدوم علی خان نے بتایا کہ فی الوقت صاحبزادہ حامد رضا کا خط ریکارڈ پر موجود ہے کہ ان کے نشان پر کوئی الیکشن نہیں لڑا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انتخابی نشان کا پارٹی کی جانب سے انتخابات میں حصہ لینے سے تعلق نہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سوال یہ بھی ہے کہ حامد رضا کو پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے سے کیوں روکا گیا، الیکشن کمیشن اس معاملے کی تصدیق کرے تو کیس نیا رخ اختیار کر سکتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان موجود تھا لیکن کسی نے اس پر الیکشن نہیں لڑا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر حامد رضا سنی اتحاد کونسل کے امیدوار ثابت ہوگئے تو مختلف معاملہ ہو جائے گا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر کوئی کسی جماعت کا سرٹیفکیٹ دیتا ہے پھر اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا، ایک پارٹی کا ٹکٹ دیکر دوسری جماعت میں شامل ہوجائے تو یہ منحرف ہونا ہے، میری نظر میں ٹکٹ لے کر پارٹی تبدیل کرنے والے پر آرٹیکل 63 اے لاگو ہوگا، فارم 33 سے واضح ہوگا کہ کون کس جماعت سے ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کے تمام امیدواروں کو آزاد قرار دیا گیا۔ جسٹس شاہد وحید نے سوال کیا کہ کیا کسی امیدوار نے کاغذات جمع کرانے کے بعد پارٹی وابستگی سے علیحدگی کا اظہار کیا ہے؟۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ چار مارچ کو الیکشن کمیشن نے خود کہا کہ تمام امیدوار آزاد ہیں، الیکشن کمیشن نے کس بنیاد پر پارٹی کے لوگوں کو آزاد قرار دیا؟۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جو کچھ ملک میں ہو رہا تھا وہ تلخ حقیقت اور سب کے سامنے ہے۔ جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ اگر کوئی امیدوار پارٹی وابستگی ظاہر کرکے پیچھے نہیں ہٹ سکتا تو الیکشن کمیشن کیسے اسے آزاد قرار دے سکتا ہے؟۔ چیف جسٹس فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی کیس میں فریق ہے نہ کوئی منتخب نمائندہ، جس کیس کے دلائل ہمارے سامنے آئے ہوئے ہیں اسی تک رہیں گے، عدالت کے سامنے مقدمہ سنی اتحاد کونسل کا ہے کہ مخصوص نشستیں دی جائیں، جو مقدمہ ہمارے سامنے ہی نہیں اس حوالے سے بحث کیوں کی جا رہی ہے، الیکشن کمیشن کے فیصلے اچھے بھی ہوں گے برے بھی لیکن جو فیصلہ چیلنج ہی نہیں ہوا اسے اچھا یا برا کیسے کہہ سکتے ہیں؟ کوئی پریشر تھا یا نہیں تھا اس سے ہمارا لینا دینا نہیں، دنیا کو کیا معلوم ہے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں، ججز اس پر فیصلہ کرتے ہیں جو فائل میں موجود ہو نہ کہ دنیا کے علم میں ہو۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اعلیٰ ترین عدالت ہوتے ہوئے سپریم کورٹ کا کام ہے کہ عوام حق رائے ہی کا دفاع کرے، بنیادی سوال یہی ہے کہ الیکشن کمیشن کسی کو ازخود کیسے آزاد قرار دے سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بطور جج میرا حلف ہے کہ آئین اور قانون کے مطابق چلوں گا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئین کا دفاع کرنا ہے تو آئین کے مطابق ہی شفاف انتخابات ضروری ہیں، بنیادی حقوق میں ووٹ کا حق اہم ترین ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اپنے موقف پر قائم ہوں کہ پارٹی وابستگی ظاہر کرکے جماعت تبدیل کرنے والا نااہل تصور ہوگا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سارا معاملہ شروع ہی پارٹی امیدواروں کو آزاد قرار دینے سے ہوا، کیسے ممکن ہے کہ اس بنیادی سوال کو چھوڑ دیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ سنی اتحاد کونسل اپنا کیس جیتے یا ہارے، دوسری جماعتوں کو اس سے کیا فائدہ ہوگا؟ نشستیں متناسب نمائندگی کے اصول پر ہی مل سکتی ہیں، متناسب نمائندگی کے اصول سے ہٹ کر نشستیں نہیں دی جا سکتی، اضافی نشستیں لینے والے بتائیں کہ ان کا موقف کیا ہے دوسری جماعتوں کو چھوڑیں۔ چیف جسٹس فائز عیسی نے سوال اٹھایا کہ کیا ہمیں آئین دوبارہ لکھنا شروع کر دینا چاہیے؟۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آئین میں پہلے سے درج متناسب نمائندگی کا فارمولا سمجھائیں وہ کیا ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ بھی ڈکٹیٹر کے اٹارنی جنرل رہ چکے ہیں، میں نے اس وقت وکالت چھوڑ دی تھی۔ چیف جسٹس نے کسی کا نام لیے بغیر ریمارکس دیئے کہ کوئی ڈکٹیٹر آئے تو سب وزیر اور اٹارنی جنرل بن جاتے ہیں، جمہوریت آتی ہے تو سب لوگ چھریاں نکال لیتے ہیں، آئین میں دیا گیا اصول واضح ہے تو ہم کیوں نئی جہتیں نکال لیتے ہیں؟ آئین مقدس ہے اس پر عمل کرنا لازم ہے آپشن نہیں، تاریخ کی بات کرنی ہے تو پوری طرح سے کریں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آج بھی آئین پر عملدرآمد نہیں ہو رہا، ہمیں حقیقت کا سامنا کرنے کے بجائے اپنا سر ریت میں نہیں دبا لینا چاہیے، سب یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں جیسے ہم ماضی کی بات کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ہمیں ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کرنا چاہیے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایک دن ہمیںکہہ دینا چاہیے کہ بہت ہوچکا، آئین کی خلاف ورزی پر آنکھیں بند نہیں کر سکتے، سپریم کورٹ میں اہم ترین درخواست 8 فروری کے انتخابات کے حوالے سے ہے، لاپتہ افراد کے کیسز اور بنیادی حقوق کی پامالیاں سیاسی مقدمات نہیں۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ متناسب نمائندگی کا اصول سیاسی جماعتوں کے درمیان ہوتا ہے آزاد جیتنے والے شامل نہیں ہوتے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب آپ اصول کی بات کرتے ہیں تو آئین کا حوالہ بھی دیں، آرٹیکل پانچ کے تحت ہر شخص آئین پر عمل درآمد کا پابند ہے۔ مختصر وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ مخدوم صاحب میں نے آپ کے بارے میں جو کہا اس پر معذرت خواہ ہوں، تاریخ استاد ہوتی ہے اور ہمیں تاریخ سے سیکھنا چاہیے۔ ایڈووکیٹ مخدوم علی خان نے کہا کہ کوئی بات نہیں، ویسے بھی یہ معاملہ عدالت میں زیر بحث نہیں ہے، کوئی نہیں کہتا کہ ووٹرز سے ان کا حق چھین لیا جائے گا، آئین میں الیکشن میں منتخب ہونے کا لفظ لکھا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ صدر، سینٹ سب کے انتخابات کے لیے الگ الیکٹوریٹ دیا ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر چھوٹی باتوں میں پھنس گئے تو دیگر کو سن نہیں پائیں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت کے منشور میں اقلیت شامل نہیں تو اقلیتوں کے لسٹ نہیں دی جائے گی، اگر خواتین یا اقلیتوں کی لسٹ نہیں دی گئی تو اثرات تو ہوں گے، اگر پرائز بانڈ خریدا ہی نہیں تو پرائز بانڈ نکل کیسے آئے گا، خریدنا تو ضروری ہے نا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا عوام کے حقوق کو کبھی اہمیت نہیں دی گئی، ہمیں درخواست گزاروں نے بتایا کہ اہم درخواستیں زیر التوا ہیں۔ وکیل مخدوم علی خان نے جسٹس اطہر من اللہ کو جواب دیا کہ درخواستیں کیوں زیر التوا ہیں؟ اس کا جواب عدالت دے، وکیل تو نہیں دے سکتا، وہ معاملہ عدالت میں ہے ہی نہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ سیاسی جماعت کون ہیں؟ وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ مخصوص نشستوں کی لسٹ دینے والی سیاسی جماعت کہلاتی ہے، آزاد امیدوار نے ایسی سیاسی جماعت شامل ہونا ہوتا جس نے کم سے کم ایک سیٹ جیتی ہو۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے الیکشن کمشن کو چھ خطوط لکھے، بتایا گیا اْن کے امیدواروں کی حیثیت آ زاد ہے۔ جسٹس اطہر نے کہا کیا الیکشن کمیشن نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کی، پریس کانفرنسز ہوتی رہیں۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا یہ تھیوریٹکل سوال ہے، میں صرف اس کیس میں الیکشن کمیشن کا وکیل ہوں، ججز میرے سے کیوں الفاظ نکلوانا چاہتے ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا یہ ان فیئر کمنٹ ہے۔ دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے کہا عام انتخابات سے قبل اور بعد میں جو شکایات آئیں، اْن شکایات پر کیا داد رسی ہوئی کی مکمل تفصیلات فراہم کریں۔ الیکشن کمیشن کے وکیل جواب دیا اگر سپریم کورٹ حکم دے تو میں جمع کرا دیتا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا وہ معاملہ ہمارے سامنے ہی نہیں ہے، ہم کیسے تفصیلات منگوا سکتے ہیں، ہم پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل سن رہے ہیں۔ ایک موقع پر جب عام انتخابات میں مبینہ بے ضابطگیوں بارے معاملہ زیر بحث آیا تو جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کیا ہم پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل پر سماعت کرتے ہوئے ازخود نوٹس لے سکتے ہیں۔ ایڈووکیٹ مخدوم علی خان نے جواب دیا اگر ایسا کیا گیا تو یہ بہت خطر ناک ہوگا۔ جسٹس شاہد وحید نے کہا ہمیں پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کی فہرست فراہم کریں۔ بعد ازاں مزید سماعت 27جون جمعرات کو ہوگی۔
خواتین یا اقلیتوں کی لسٹ نہیں دی گئی تو اثرات ہوں گے: چیف جسٹس
Jun 26, 2024