اسلام آباد (نمائندہ خصوصی +خبر نگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ میثاق معیشت کے بغیر مسائل حل نہیں ہوں گے۔ عوامی مفاد کیلئے اپوزیشن ہمارے ساتھ بیٹھے۔ معیشت اور نیب ساتھ نہیں چل سکتے۔ نیب کو ختم کرنا ہوگا۔ قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عوام کو ہمارے سیاسی اختلافات سے غرض نہیں۔ اصل مسائل، معاشی بحران، غربت اور بڑھتی ہوئی مہنگائی ہیں۔ صوبے غریبوں کو مفت سولر پینل دیں۔ ملک کے ہر ڈویژن میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت آئی ٹی پارکس قائم کئے جائیں اور اس کیلئے گلگت کے پہاڑوں سے لیکر ملک کے گوشے گوشے تک براڈ بینڈ تیز ترین انٹرنیٹ کی سروس فراہم کی جائے، توانائی کا بحران مقامی ذرائع سے پورا کیا جائے، شمسی اور قابل تجدید توانائی کو فروغ دینے کیلئے وزیراعظم بڑی بڑی لابیز کو روکنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اس معاملے پر ایک ایسا اتفاق رائے بنائیں جس سے عوام اور بزنس کمیونٹی اور عالمی سطح پر ایسا پیغام جائے کہ پاکستان نے اپنے بنیادی مسائل کا حل نکالنے کے لیے 10 ،20 سال کی منصوبہ بندی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان کی معیشت کی بحالی کیلئے پہلا قدم ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ آٹے، پیٹرول اور دیگر اجناس کی قیمتیں پانچ چھ سال پہلے کم تھی جن میں اب اضافہ ہو گیا ہے۔ پہلے جس شخص کا 35 ہزار روپے میں گزارا ہو جاتا تھا اب اسے 70 ہزار روپے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم میں اضافہ کرنے پر حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہیں، عالمی سطح پر اس پروگرام کو سراہا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ایک ایسا ٹول ہے جس میں ملک کے عوام کی مدد کی جا سکتی ہے اور قدرتی آفات کے دوران بھی اس ٹول کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی پروگریسو ٹیکسیشن پر یقین رکھتی ہے۔ ہم نے وزیر خزانہ سے ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے بارے بات کی ہے۔ ٹیکس کی بنیاد کو وسعت دینے کے لئے ہمیں ڈائریکٹ ٹیکسیشن کی طرف جانا ہوگا۔ بجٹ میں ان ڈائریکٹ ٹیکسوں سے عام آدمی متاثر ہوگا۔ ہم نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ خدمات پر سیلز ٹیکس میں تمام صوبوں کو شامل کیا گیا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ سیلز ٹیکس جمع کرنے کا اختیار صوبوں کو دیا جائے تو ہم وفاق کے لیے اپنے اپنے ٹارگٹس پورے کریں گے۔ اگر کوئی صوبہ اس کو دیے گئے ہدف سے زیادہ رقم اکٹھی کرتا ہے تو وہ رقم اس کو دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد 17 ،18وفاقی وزارتیں صوبوں کو منتقل ہونی چاہئیں تھیں۔ مجھے یقین ہے کہ حکومت اس حوالے سے اپنے وعدوں پر عمل درآمد کرے گی۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرے کو ہمیں سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ ہمیں اس شعبے میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گے۔ ہمیں شمسی توانائی اور قابل تجدید توانائی کو سپورٹ کرنی چاہیے اور اس کے خلاف سرگرم لابیز کا راستہ بند کرنا چاہئے۔ درآمدی توانائی کی بجائے ہمیں اپنی مقامی توانائی پر توجہ دینا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ 50 ڈگری سینٹی گریڈ کی گرمی میں میرے حلقے میں بھی 20، 20 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم شمسی توانائی، ونڈ ملز اور پن بجلی کے ذرائع بڑھا کر نہ صرف ملکی معیشت کو مضبوط کر سکتے ہیں بلکہ اس سے ماحول پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ امپورٹ بل کم کرنے کے لیے درآمدی کوئلہ استعمال کرنے کے بجائے تھر کے کوئلے کو استعمال کیا جائے۔ ملکی معیشت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے گرد گھوم رہی ہے۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو اس کی ترقی کے لیے بنیادی انفراسٹرکچر فرام کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں پانچ سال سے کم عمر کے 40 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں اس لیے دودھ پر 18 فیصد ٹیکس نہ لگایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ دل کے سٹنٹس سمیت انسانی صحت کی دیگر اشیاء پر ٹیکس میں اضافہ واپس لیا جائے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جب پیپلز پارٹی نے حکومت کی حمایت کی تو ایک معاہدہ کیا جس کے تحت حکومت کو بجٹ اور پی ایس ڈی پی ہمارے ساتھ ملکر بنانا تھا مگر اس پر عمل نہیں کیا گیا۔ مل کر بحٹ بناتے تو اچھا ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو بجٹ پر اپوزیشن سے بھی بات کرکے ان کی تجاویز لینی چاہئے تھی اس سے اچھا تاثر جاتا۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو نیب سے ایس آئی ایف سی کی طرح مستثنیٰ کرا دیں۔ نیب کے سب سے بڑے حامی بھی شاید آج کل نیب کے خاتمے کی حمایت کریں۔