غزہ میں دو ہزار بچے ٹانگوں سے محروم، 21 ہزار سے زائد لاپتا: انروا چیف

اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی 'انروا' کے سربراہ نے انتہائی افسوسناک انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی پر ہر روز دس بچے ایک یا دونوں ٹانگوں سے محروم ہوتے ہیں۔ گویا ایک ماہ کے دوران صرف ٹانگوں سے معذور ہونے والے بچوں کی تعداد 300 کو پہنچ گئی ہے۔'انروا' چیف فلپ لازارینی نے یہ انکشاف اس جنگ زدہ غزہ کی پٹی کے حوالے سے کیا ہے جہاں اب تک لگ بھگ 10 ہزار سے زائد بچے اسرائیلی بمباری اور گولہ باری کے نتیجے میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ جبکہ اقوام متحدہ ہی کی رپورٹ کے مطابق قحط زدگی کے باعث بہت سے بچے بھوک کی وجہ سے ہلاکتوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ جن میں وہ بچے بھی شامل ہیں جو ماؤں کا دودھ نہ ملنے کی وجہ سے ہلاک ہو رہے ہیں۔'انروا' سربراہ نے یہ انکشاف جنیوا میں رپورٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا 'ٹانگوں سے معذور ہونے والے ان بچوں میں دوسری معذوریوں کا شکار ہونے والے بچے شامل نہیں ہیں۔ حتیٰ کہ وہ بچے بھی شامل نہیں ہیں جو ہاتھوں یا بازوؤں سے محروم ہو رہے ہیں۔' البتہ انہوں نے ضرور کہا کہ اب تک کی 260 دنوں پر مشتمل جنگ کے حوالے سے ٹانگوں سے معذور ہونے والے ان بچوں کی تعداد دو ہزار کے قریب ہے۔'انروا' سربراہ نے کہا 'بعض اوقات بچوں کے علاج کے دوران ان کی سرجری 'انیستھیزیا' دیے بغیر کی جاتی ہے۔ جس سے ہر ذی روح اندازہ کر سکتا ہے کہ وہ بچے کس تکلیف سے گزرتے ہیں۔' انہوں نے کہا 'یہ وہ خوفناک صورتحال ہے جس کا فلسطین میں بچوں کو سامنا ہے۔'اسی دوران بچوں کے حوالے سے سرگرم 'سیو دی چلڈرن' نے کہا ہے 'اب تک 21 ہزار بچے لاپتا ہو چکے ہیں۔ ان کے بارے میں کچھ اندازہ نہیں ہے کہ وہ زندہ ہیں یا مر چکے ہیں۔'غزہ کی وزارت صحت نے تازہ اعداد وشمار میں بتایا ہے کہ سات اکتوبر سے اب تک کی جنگ کے دوران 37658 فلسطینی انتقال کر گئے ہیں۔ ان میں وزارت کے اندازے کے مطابق دو تہائی تعداد خؤاتین اور بچوں کی ہے۔'انروا' چیف نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ 'انروا' کے لیے ایک بڑا چیلنج یہ بھی ہے کہ اسے فنڈنگ کے ایک خوفناک بحران کے ساتھ ساتھ بار بار حملوں کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور خود اس کے اپنے کارکنوں کی بڑی تعداد بمباری میں ہلاکت کا شکار ہو چکی ہے۔فلپ لازارینی نے کہا 'ہم فنڈنگ کی کمی کی صورتحال کی وجہ سے مشکل سے اگست کے اختتام تک اپنی ضروریات پوری کر سکیں گے۔ اس کے بعد ہمارے پاس اپنا انتظام چلانے اور غزہ کے لاکھوں لوگوں کی مدد کرنے کے لیے وسائل دستیاب نہیں ہوں گے۔ جس کا مطلب ہے کہ ہمارا امدادی کام ٹھپ ہو کر رہ جائے گا۔'انہوں نے مزید بتایا 'اس وقت بھی 'انروا' کے جو کارکن کام کر رہے ہیں اور ادارہ خدمات انجام دے رہا ہے وہ 140 ملین ڈالر کے خسارے کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ لوگوں کو غزہ میں قحط سے بچانے کے لیے ان تک انسانی بنیادوں پر خوراک اور امداد پہنچانا ایک جانگسل کام ہے۔ '

ای پیپر دی نیشن