سٹیٹ بنک کے گورنر سید سلیم رضا نے سٹینڈرڈ بنک کی طرف سے ملینیم ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت دو روزہ ورکشاپ کا افتتاح کرتے ہوئے کہا SME کی ترقی کے بغیر پاکستان ترقی نہیں کر سکتا کیونکہ اس شعبہ میں بے پناہ صلاحیت ہے کہ نیا روزگار پیدا کرے‘ عام آدمی کے منافع میں اضافہ کرے اور مجموعی طور پر ملکی معیشت کا گراف بلندی کی طرف لے جائے۔ دیکھنے میں یہ ایک معمول کی بزنس ڈویلپمنٹ ورکشاپ لگتی ہے لیکن جب گہرائی میں جائیں تو اس کی اہمیت عیاں ہوتی ہے کیونکہ اس ورکشاپ کے انعقاد میں ورلڈ بنک کے ذیلی ادارے انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن کا بھی بہت ہاتھ ہے۔
سٹینڈرڈ بنک نے 70 ممالک میں سے پاکستان کا انتخاب کیوں کیا؟ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے بنک کے ہیڈ آف کارپوریٹ افیئرز علی حبیب نے پس منظر بیان کرتے ہوئے نوائے وقت کو بتایا ’’2000ء کے آغاز ہی میں برطانیہ کے وزیراعظم نے ملینیم ڈویلپمنٹ پروگرام کا اعلان کر دیا تھا کیونکہ اقوام متحدہ نے اس سال کو ملینیم ائر قرار دیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ نئی صدی میں دنیا سے بھوک ننگ‘ غربت‘ بے روزگاری کے خاتمہ کے لئے ایک جامع اور مربوط پروگرام تشکیل دیا جائے۔ 2008ء میں ڈیووس (سوئٹزرلینڈ) میں منعقدہ ورلڈ اکنامک فورم میں ایک MOU سائن کیا گیا جو سٹینڈرڈ چارٹرڈ بنک کے سربراہ میپئر سینڈز اور انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن کے سربراہ کے درمیان تھا اور پاکستان کی طرف سے حنا ربانی کھر بھی اس موقع پر موجود تھیں۔ سٹینڈرڈ بنک نے 70 ممالک میں سے صرف ایک ملک کو بطور ماڈل لینا تھا تاکہ SME کی بہتری کے لئے پروگرام کا آغاز کیا جا سکے۔ متفقہ طور پر پاکستان کا انتخاب کیا گیا‘ اس ورکشاپ کے لئے IFC نے کریکلم اردو زبان میں تیار کیا ہے جو نہایت آسان اور قابل فہم ہے لاہور کے بعد اس نوعیت کی ورکشاپ فیصل آباد‘ گوجرانوالہ اور سیالکوٹ میں بھی ہوں گی۔
سٹینڈرڈ بنک کے جنرل منیجر (سنٹر اور نارتھ) عامر حسین نے ایک دلچسپ تجزیہ شیئر کرتے ہوئے بتایا ’’ہمارے بنک نے کسانوں کو بغیر کسی ضمانت کے کسان کارڈ جاری کیا جس کے تحت مختلف دیہات میں جا کر زمینداروں کو بیس بیس ہزار کے قرضے فراہم کئے گئے۔ جب فصل کٹ گئی اور فروخت ہو گئی تو ہم صرف قسط وصول کرنے گئے تو ہر کسان نے عذر گناہ بد تر از گناہ پیش کرنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے ہم نے آئندہ اس سکیم کو ٹھپ کر دیا۔ اگر کسان تھوڑی تھوڑی رقم واپس کر دیتے تو نئی فصل پر انہیں مزید رقم فراہم کر دینی تھی‘‘ سٹیٹ بنک کے گورنر سید سلیم رضا نے نوائے وقت کو بتایا ’’دس ہزار سے کم اکائونٹ والے کھاتوں سے پچاس روپے ماہانہ کٹوتی کو روکنے کا جائزہ لیا جائے گا اور پانچ ہزار کے نوٹوں کا ایک سائز ختم کرنے کی تجویز کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔‘‘
سٹینڈرڈ بنک نے 70 ممالک میں سے پاکستان کا انتخاب کیوں کیا؟ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے بنک کے ہیڈ آف کارپوریٹ افیئرز علی حبیب نے پس منظر بیان کرتے ہوئے نوائے وقت کو بتایا ’’2000ء کے آغاز ہی میں برطانیہ کے وزیراعظم نے ملینیم ڈویلپمنٹ پروگرام کا اعلان کر دیا تھا کیونکہ اقوام متحدہ نے اس سال کو ملینیم ائر قرار دیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ نئی صدی میں دنیا سے بھوک ننگ‘ غربت‘ بے روزگاری کے خاتمہ کے لئے ایک جامع اور مربوط پروگرام تشکیل دیا جائے۔ 2008ء میں ڈیووس (سوئٹزرلینڈ) میں منعقدہ ورلڈ اکنامک فورم میں ایک MOU سائن کیا گیا جو سٹینڈرڈ چارٹرڈ بنک کے سربراہ میپئر سینڈز اور انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن کے سربراہ کے درمیان تھا اور پاکستان کی طرف سے حنا ربانی کھر بھی اس موقع پر موجود تھیں۔ سٹینڈرڈ بنک نے 70 ممالک میں سے صرف ایک ملک کو بطور ماڈل لینا تھا تاکہ SME کی بہتری کے لئے پروگرام کا آغاز کیا جا سکے۔ متفقہ طور پر پاکستان کا انتخاب کیا گیا‘ اس ورکشاپ کے لئے IFC نے کریکلم اردو زبان میں تیار کیا ہے جو نہایت آسان اور قابل فہم ہے لاہور کے بعد اس نوعیت کی ورکشاپ فیصل آباد‘ گوجرانوالہ اور سیالکوٹ میں بھی ہوں گی۔
سٹینڈرڈ بنک کے جنرل منیجر (سنٹر اور نارتھ) عامر حسین نے ایک دلچسپ تجزیہ شیئر کرتے ہوئے بتایا ’’ہمارے بنک نے کسانوں کو بغیر کسی ضمانت کے کسان کارڈ جاری کیا جس کے تحت مختلف دیہات میں جا کر زمینداروں کو بیس بیس ہزار کے قرضے فراہم کئے گئے۔ جب فصل کٹ گئی اور فروخت ہو گئی تو ہم صرف قسط وصول کرنے گئے تو ہر کسان نے عذر گناہ بد تر از گناہ پیش کرنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے ہم نے آئندہ اس سکیم کو ٹھپ کر دیا۔ اگر کسان تھوڑی تھوڑی رقم واپس کر دیتے تو نئی فصل پر انہیں مزید رقم فراہم کر دینی تھی‘‘ سٹیٹ بنک کے گورنر سید سلیم رضا نے نوائے وقت کو بتایا ’’دس ہزار سے کم اکائونٹ والے کھاتوں سے پچاس روپے ماہانہ کٹوتی کو روکنے کا جائزہ لیا جائے گا اور پانچ ہزار کے نوٹوں کا ایک سائز ختم کرنے کی تجویز کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔‘‘