کراچی (رپورٹ: یوسف خان) دو فوجی ڈکٹیٹروں جنرل ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف کے نافذ کردہ آئینی ترامیم ختم کرنے کا معاملہ عملی طور پر سبوتاژ ہوگیا ہے اور ”خفیہ ہاتھ“ نے کام دکھا دیا۔ رضا ربانی کمیٹی کو نئی صورتحال میں نئے سرے سے نئے چیلنج سے نمٹنا ہوگا۔ سیاسی ذرائع نے مسلم لیگ (نواز) اور اے این پی کو پختون خواہ کے ایشو پر بحران کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ نواز لیگ سرحد کی لیڈر شپ اور تنظیمی کمیٹی نے پختون خواہ نام قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔ جس پر اے این پی پی نے مﺅقف تبدیل کرنے سے انکار کر دیا۔ آئین میں ایک سو سے زائد ترامیم کی تجاویز ربانی کمیٹی نے وضع کی ہیں۔ ذرائع کے مطابق ”انڈے کہیں کڑکڑکہیں“ والا معاملہ ہے۔ آئینی ترامیم کے پیکج کی منظوری کی صورت میں وزیراعظم کو وہی اختیارات حاصل ہو جائیں گے جو12 اکتوبر1999 ءکو اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو حاصل تھے۔ ذرائع کے مطابق متعلقہ ادارے آصف زرداری کو کمزور دیکھنا چاہتے ہیں۔ صدر کے عہدہ کو کمزور دیکھنے کے حق میں نہیں ہیں۔ صدر پاکستان کی سیاست میں ایک پاور فل حیثیت ہے۔ پاکستان میں جن صدور نے پارلیمنٹ کے خلاف اختیار استعمال کیا ان میں غلام اسحاق خان‘ فاروق لغاری شامل تھے۔ دو آرمی چیف جنرل ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف نے منتخب حکومتوں کو برطرف کیا۔ ربانی کمیٹی کی سفارشات سے پارلیمانی جمہوریت بحال ہو جاتی مگر ان کوششوں کو سبوتاژ کر دیا گیا۔ سارے عمل کو سنبھلنے میں کئی ماہ اور سال لگ جائیں گے۔1973 ءکا آئین اس وقت کی حکومت اور اپوزیشن کی جماع90توں نے بڑی محنت سے مل کر وضع کیا۔ اس آئین کے خالق ذوالفقار علی بھٹو کو ہٹا دیا گیا۔ آئین اپنے خالق کو نہ بچا سکا۔ جنرل ضیاءالحق نے1973 ءکے آئین میں پے در پے ترامیم کرکے اس کا حلیہ بگاڑ دیا۔ بے نظیر بھٹو ان ترامیم کو جنرل ضیاءالحق کی وفات کے بعد ختم نہ کرسکیں۔ نواز شریف نے دوتہائی مینڈیٹ کے ذریعے وزیراعظم کا اختیار بحال کیا۔ جب صدر بھٹو دور کے فضل الہیٰ کی طرح اختیارات سے محروم ہوگیا۔ یہ سارا عمل پرویز مشرف نے ختم کر دیا۔ صدر پھر بااختیار بن گیا اسے اختیارات سے محروم کرنے کی بڑی کوشش9 ماہ بعد ناکام ہوگئی۔