بجلی کے بحران پر بحث کرتے ہوئے ایک تجزیہ کار نے ایوان صدر کی جانب کھُرا نکال دیا تو ٹی وی ٹاک شو میں موجود پیپلز پارٹی کے ایک سابق ایم این اے کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ ”ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ایوان صدر واپڈا کا نادہندہ ہو۔ یہ محض تنقید برائے تنقید ہے میں خود واپڈا سے معلومات حاصل کرکے آپ کے اگلے پروگرام میں ان صاحب کے الزام کا جواب دوں گا۔“
حکمران طبقے کے کسی رکن کو اگر یہ باور کرایا جائے کہ ملک کے عوام تو بجلی کی اذیت ناک لوڈ شیڈنگ اور تھوڑی بہت دستیاب بجلی کے نرخوں میں بھی ہر مہینے کئے جانے والے اضافے سے نکّونک آئے ہوئے ہیں مگر اقتدار کے ایوانوں کی جگ مگ میں کبھی کمی نہیں ہوتی ،تو یہ بات بھی انہیں ناگوار گزرے گی اور اسے تنقید برائے تنقید کے کھاتے میں ہی ڈال دیا جائے گا مگر حقیقت یہی ہے کہ حکمران طبقہ کبھی ایک لمحہ کیلئے بھی بجلی کی سہولت سے محروم نہیں ہوتا۔ انہیں جاڑوں میں ہمہ وقت بجلی کے ہیٹروں کی حدت ہوا کے یخ تھپیڑوں سے محفوظ رکھتی ہے اور گرمیوں میں ان کے گھروں، دفاتر اور گاڑیوں میں لگے ائرکنڈیشنز انہیں حبس اور گھٹن سے بچائے رکھتے ہیں اس لئے انہیں کبھی یہ احساس تک نہیں ہوسکتا کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے عوام کی کیا حالت بنا رکھی ہے۔ جس اذیت سے وہ کبھی دوچار ہی نہ ہوئے ہوں، اس کا کرب وہ محسوس بھی کیسے کرسکتے ہیں کیونکہ ”جس تن لاگے، وہ ہی جانے۔“
بے شک پانی کی قلت سے بجلی کی پیداوار میں بھی کمی ہوتی ہے مگر بجلی کے اس بحران میں اضافہ تو حکومتوں اور حکومتی محکموں کی بے تدبیریوں سے ہی ہوتا ہے ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ اس بحران پر قابو نہ پایا جاسکے۔ اگر دستیاب بجلی کو عام شہری دیہی آبادیوں اور خواص طبقات اشرافیہ کے محلوںماڑیوں میں مساوی تقسیم کیا جائے تو بجلی کے بحران کے باوجود لوڈ شیڈنگ کے دورانیے میں نمایاں کمی کی جاسکتی ہے، لیکن عیش و طرب کا عادی حکمران طبقہ تو اپنے لئے گھٹن کا ایک لمحہ بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ اس لئے سارے حکومتی، قومی وسائل کا رخ اپنی جانب رکھنا انہوں نے اپنا استحقاق بنا لیا ہے۔ کبھی انہیں بے وسیلہ انسانوں کی اندھیروں میں ڈوبی آبادیوں میں گندے پانی کے جوہڑوں اور متعفن فضا کے درمیان کسی خستہ مکان میں رات کے وقت چند لمحے گزارنے کا اتفاق ہو اور مچھروں مکھیوں کی بھنبھناہٹ ان کی نیند اڑائے تو انہیں خبر ہو کہ خلق خدا تنگ آمد بجنگ آمد پر کیوں مجبور ہو چکی ہے۔ اگر کبھی بجلی کی لوڈ شیڈنگ اقتدار کے ایوانوں کا رخ کرے گی تو ان میں آباد ہر قسم کی نعمتوں سے مالا مال خواص کو انسانی کرب کا احساس ہوگا اور وہ بجلی کے بحران کے پس منظر کا کھوج لگانے کی کوشش کریں گے۔
میرے خیال میں اگر صرف ضائع ہونے والی بجلی پر ہی قابو پا لیا جائے تو بجلی کے بحران پر قابو پانے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ مگر یہاں تو چوری سینہ زوری کی عملداری ہے۔ اشرافیہ طبقات اور مراعات یافتہ سرکاری شخصیات اور محکمے خود کو ایک لمحہ کیلئے بجلی کی سہولت سے محروم بھی نہیں رکھنا چاہتے اور ہمہ وقت دستیاب رہنے والی اس بجلی کے بلوں کی ادائیگی سے بھی بری الذمہ رہتے ہیں۔ اگر دستیاب بجلی کا کم و بیش ایک تہائی حصہ صرف طبقہ اشرافیہ کے مصرف میں آرہا ہو اور انہوں نے اس کی قیمت ادا کرنے سے بھی ہاتھ کھینچ رکھا ہو تو پھر بجلی کے بحران پر قابو کیسے پایا جاسکتا ہے۔ واپڈا کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں، صرف ایوان صدر نہیں، اقتدار کے ایوانوں کا ہر کل پرزہ اور کم و بیش ہر سرکاری محکمہ واپڈا کا نادہندہ نکلے گا۔ ابھی گزشتہ روز ہی واسا کے بارے میں ایک خبر پڑھنے کو ملی کہ اس نے اپنے ذمہ واجب الادا لیسکو کے ایک ارب روپے سے زائد کے بل کی ادائیگی کیلئے حکومت سے امداد طلب کرلی ہے۔ حیرت ہے کہ گزشتہ آٹھ ماہ سے واسا نے بجلی کے بل ادا ہی نہیں کئے، پھر بھی اسے بجلی کی فراہمی جاری ہے۔ یہ صرف ایک محکمے کا معاملہ نہیں، مراعات کے اس سمندر میں جس کا بس چلتا ہے، ڈبکیاں لگائے چلا جاتا ہے اور یہ احساس تک نہیں کرتا کہ اپنے اس عمل سے وہ دوسرے کتنے انسانوں کو وسائل سے محروم کر رہا ہے۔ کھاتے بھی ہیں، گھورتے بھی ہیں اور اگر کوئی نشاندہی کردے کہ فلاں مسئلہ تو آپ کی بدنظمی اور بے تدبیری کی وجہ سے پیدا ہوا ہے تو اسے تنقید برائے تنقید کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔
حکمران طبقے کے کسی رکن کو اگر یہ باور کرایا جائے کہ ملک کے عوام تو بجلی کی اذیت ناک لوڈ شیڈنگ اور تھوڑی بہت دستیاب بجلی کے نرخوں میں بھی ہر مہینے کئے جانے والے اضافے سے نکّونک آئے ہوئے ہیں مگر اقتدار کے ایوانوں کی جگ مگ میں کبھی کمی نہیں ہوتی ،تو یہ بات بھی انہیں ناگوار گزرے گی اور اسے تنقید برائے تنقید کے کھاتے میں ہی ڈال دیا جائے گا مگر حقیقت یہی ہے کہ حکمران طبقہ کبھی ایک لمحہ کیلئے بھی بجلی کی سہولت سے محروم نہیں ہوتا۔ انہیں جاڑوں میں ہمہ وقت بجلی کے ہیٹروں کی حدت ہوا کے یخ تھپیڑوں سے محفوظ رکھتی ہے اور گرمیوں میں ان کے گھروں، دفاتر اور گاڑیوں میں لگے ائرکنڈیشنز انہیں حبس اور گھٹن سے بچائے رکھتے ہیں اس لئے انہیں کبھی یہ احساس تک نہیں ہوسکتا کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے عوام کی کیا حالت بنا رکھی ہے۔ جس اذیت سے وہ کبھی دوچار ہی نہ ہوئے ہوں، اس کا کرب وہ محسوس بھی کیسے کرسکتے ہیں کیونکہ ”جس تن لاگے، وہ ہی جانے۔“
بے شک پانی کی قلت سے بجلی کی پیداوار میں بھی کمی ہوتی ہے مگر بجلی کے اس بحران میں اضافہ تو حکومتوں اور حکومتی محکموں کی بے تدبیریوں سے ہی ہوتا ہے ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ اس بحران پر قابو نہ پایا جاسکے۔ اگر دستیاب بجلی کو عام شہری دیہی آبادیوں اور خواص طبقات اشرافیہ کے محلوںماڑیوں میں مساوی تقسیم کیا جائے تو بجلی کے بحران کے باوجود لوڈ شیڈنگ کے دورانیے میں نمایاں کمی کی جاسکتی ہے، لیکن عیش و طرب کا عادی حکمران طبقہ تو اپنے لئے گھٹن کا ایک لمحہ بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ اس لئے سارے حکومتی، قومی وسائل کا رخ اپنی جانب رکھنا انہوں نے اپنا استحقاق بنا لیا ہے۔ کبھی انہیں بے وسیلہ انسانوں کی اندھیروں میں ڈوبی آبادیوں میں گندے پانی کے جوہڑوں اور متعفن فضا کے درمیان کسی خستہ مکان میں رات کے وقت چند لمحے گزارنے کا اتفاق ہو اور مچھروں مکھیوں کی بھنبھناہٹ ان کی نیند اڑائے تو انہیں خبر ہو کہ خلق خدا تنگ آمد بجنگ آمد پر کیوں مجبور ہو چکی ہے۔ اگر کبھی بجلی کی لوڈ شیڈنگ اقتدار کے ایوانوں کا رخ کرے گی تو ان میں آباد ہر قسم کی نعمتوں سے مالا مال خواص کو انسانی کرب کا احساس ہوگا اور وہ بجلی کے بحران کے پس منظر کا کھوج لگانے کی کوشش کریں گے۔
میرے خیال میں اگر صرف ضائع ہونے والی بجلی پر ہی قابو پا لیا جائے تو بجلی کے بحران پر قابو پانے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ مگر یہاں تو چوری سینہ زوری کی عملداری ہے۔ اشرافیہ طبقات اور مراعات یافتہ سرکاری شخصیات اور محکمے خود کو ایک لمحہ کیلئے بجلی کی سہولت سے محروم بھی نہیں رکھنا چاہتے اور ہمہ وقت دستیاب رہنے والی اس بجلی کے بلوں کی ادائیگی سے بھی بری الذمہ رہتے ہیں۔ اگر دستیاب بجلی کا کم و بیش ایک تہائی حصہ صرف طبقہ اشرافیہ کے مصرف میں آرہا ہو اور انہوں نے اس کی قیمت ادا کرنے سے بھی ہاتھ کھینچ رکھا ہو تو پھر بجلی کے بحران پر قابو کیسے پایا جاسکتا ہے۔ واپڈا کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں، صرف ایوان صدر نہیں، اقتدار کے ایوانوں کا ہر کل پرزہ اور کم و بیش ہر سرکاری محکمہ واپڈا کا نادہندہ نکلے گا۔ ابھی گزشتہ روز ہی واسا کے بارے میں ایک خبر پڑھنے کو ملی کہ اس نے اپنے ذمہ واجب الادا لیسکو کے ایک ارب روپے سے زائد کے بل کی ادائیگی کیلئے حکومت سے امداد طلب کرلی ہے۔ حیرت ہے کہ گزشتہ آٹھ ماہ سے واسا نے بجلی کے بل ادا ہی نہیں کئے، پھر بھی اسے بجلی کی فراہمی جاری ہے۔ یہ صرف ایک محکمے کا معاملہ نہیں، مراعات کے اس سمندر میں جس کا بس چلتا ہے، ڈبکیاں لگائے چلا جاتا ہے اور یہ احساس تک نہیں کرتا کہ اپنے اس عمل سے وہ دوسرے کتنے انسانوں کو وسائل سے محروم کر رہا ہے۔ کھاتے بھی ہیں، گھورتے بھی ہیں اور اگر کوئی نشاندہی کردے کہ فلاں مسئلہ تو آپ کی بدنظمی اور بے تدبیری کی وجہ سے پیدا ہوا ہے تو اسے تنقید برائے تنقید کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔