پنجاب حکومت نے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی قیادت میں اپنے جمہوری دور کے پانچ سال بہ حُسن و خوبی مکمل کر لئے ہیں۔ ان پانچ سالوں میں پنجاب حکومت کی کارکردگی کیسی رہی، کیا صوبے کے عوام شہباز شریف کے طرز حکمرانی سے مطمئن رہے؟ کیا وہ عوام کی توقعات پر پورے اُترے اور ان کی زندگیوں میں کوئی بہترین لا سکے؟ مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینے سے پہلے ہمیں وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کی شخصیت، افتاد طبع اور ذہنی میلان کا علم ہونا چاہئے کیونکہ ہر شخص کا زاویہ نگاہ (وژن) اور انسانی معاملات کے ادراک کی صلاحیت سے ہی اس کی ترجیحات اور اہداف کا تعین ہوتا ہے۔ میاں شہباز شریف ایک وکھری قسم کے انسان ہیں، وہ خوبیوں اور خامیوں سمیت ایک مکمل شخص ہیں تاہم ان کی خوبیاں ان کی خامیوں پر حاوی ہیں۔ وہ تصنع اور بناوٹ سے پاک ایک درویش منش، سادہ، انتھک مگر بے حد سخت گیر اور بااصول انسان ہیں۔ جب کوئی کام کرنے کی دُھن ان کے دل و دماغ میں سما جائے تو وہ اسے ہر حال میں پورا کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کی طرح وہ بھی نیند سے کوسوں دور بھاگتے ہیں اور ہر وقت ان کا دماغ کام کیلئے چلتا رہتا ہے۔ محض دو تین گھنٹے کی نیند لینے کے بعد ان کی کوشش ہوتی ہے کہ روزانہ 18 سے 20 گھنٹے کچھ نہ کچھ کرتے رہیں حالانکہ ڈاکٹرز اور ان کے بڑے بھائی میاں نواز شریف کو ان کی بے تحاشا بھاگ دوڑ اور کام کرنے پر شدید اعتراض ہے مگر وہ سیماب صفت ہیں اور انہیں نہ خود ایک پَل چین نصیب ہے اور نہ ہی وہ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو چین اور سُکھ سے رہنے دیتے ہیں۔ ان کی زندگی شاہین کی مانند ہے جو ہر دم اور ہر گھڑی
پلٹنا جھپٹنا اور پلٹ کر جھپٹنا
ہے لہو گرم رکھنے کا اِک بہانہ
میں لگا رہتا ہے۔ ان کی صبح چھ بجے سرکاری کاموں کے آغاز سے ہوتی ہے اور وہ انہیں جلد از جلد نمٹانے میں لگے رہتے ہیں اور پنجاب حکومت کے تمام سرکاری محکموں کے معاملات کو اپنی جونیئر بیورو کریسی کی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر توقیر شاہ کے ذریعے نبھانے میں مصروف ہو جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انکے پانچ سالہ دورِ حکومت میں تمام صوبائی وزراءسوائے رانا ثنااللہ کے مکمل بے اختیار رہے اور اختیارات کا تمام ارتکاز اُنکے پرنسپل سیکرٹری اور وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ کے چند مخصوص بیورو کریٹس کے پاس رہا، حتیٰ کہ چیف سیکرٹری کا بھی پنجاب حکومت کی انتظامیہ کے معاملات کے ساتھ کوئی تعلق خاص نظر نہیں آتا تھا۔ تاہم سینیٹر پرویز رشید، سینیٹر اسحاق ڈار، خواجہ حسان اور ایم این اے خواجہ سعد رفیق کو ان معاملات کو درست کرنے کیلئے طلب کر لیا جاتا تھا جو وزیر اعلیٰ کی چہیتی بیورو کریسی ڈاکٹروں، اساتذہ، نرسوں، کلرکوں کے ساتھ پھڈوں کی وجہ سے پیدا کر دیتے تھے، اس سلسلے میں فواد احمد فواد، احد چیمہ جیسے بیورو کریٹس نے ڈاکٹروں اور اساتذہ کے ساتھ معاملات کو بگاڑنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ احد چیمہ نے سیکرٹری تعلیم کی حیثیت سے پنجاب کے بورڈز میں آن لائن سسٹم کے ناقص نظام سے طلبہ و طالبات کے مستقبل کو تباہ و برباد کیا۔ فواد احمد فواد اور موجودہ سیکرٹری صحت کی مہربانی سے پنجاب کے ینگ ڈاکٹرز کے ساتھ ابھی بھی جنگ و جدل جاری ہے حالانکہ سینیٹر پرویز رشید اور اسحاق ڈار نے ڈاکٹرز کے سروس سٹرکچر کے معاملات طے کرا دئیے تھے مگر موجودہ سیکرٹری صحت ان کو عمل پذیر بنانے میں مانع ہیں۔
پنجاب میں بی اے ختم کر کے چار سالہ گریجویشن پروگرامز بڑے بڑے شہروں کے ڈگری کالجز میں شروع کئے گئے مگر یہ بُری طرح ناکام ہو گئے، ان میں داخلہ لینے والے بچوں کے مستقبل تاریک ہو گئے۔ محکمہ تعلیم کی بیورو کریسی میں ایسے منفی ذہن کے لوگوں کو تعینات کیا گیا جو مجال ہے کسی کام کو مقررہ وقت میں کر دیں۔ نخرے سب کے وزیر اعلیٰ کی طرح مگر خلوص اور جلد کام نمٹانے میں انتہائی سست۔ اس کی واضح مثال ڈی پی آئی محکمہ تعلیم لاہور میں جنہیں کبھی بھی وزیر تعلیم مجتبیٰ شجاع الرحمن کے احکامات کی پرواہ نہ رہی۔ پرائمری تعلیم کے سیکرٹری ہر وقت اساتذہ کے ساتھ لڑتے رہے۔ لاہور سالڈ ویسٹ کمپنی اس لئے قائم کی گئی تھی کہ ویسٹ سے بجلی بنائی جائے گی مگر اس کمپنی کے ذریعے لاکھوں کروڑوں کی مراعات جونیئر بیورو کریٹس نے سیمٹیں اور محض کوڑے کرکٹ کا ڈھیر محمود بوٹی بند پر اکٹھا کیا گیا اور بجلی پیدا کرنے کا کوئی منصوبہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا حالانکہ لاہور میں جمع ہونے والے کوڑے کرکٹ سے سارے لاہور شہر کو بجلی کی فراہمی کے ذریعے لوڈشیڈنگ سے نجات دلائی جا سکتی تھی تاہم پنجاب حکومت نے ترقیاتی کاموں، دانش سکولوں، میٹرو بس سروس، ییلو کیب سکیم کے ذریعے عوام کے دل جیتنے میں ضرور کامیابی حاصل کی تاہم سستی روٹی سکیم ناکامی اور کرپشن کی نذر ہو ہو گئی۔ ہر بڑے شہر میں سڑکوں اور پُلوں کی تعمیر، سکولوں ہسپتالوں اور کالجوں کی تعمیر نے بھی شہباز شریف کی حکومت کی کارکردگی کو نمایاں کیا۔
لاہور میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام ایوان قائداعظم کی تعمیر میں بھی شہباز شریف نے بھرپور تعاون کیا۔ شہباز شریف معصوم بچوں اور عورتوں سے زیادتی کے ازالہ کیلئے فوراً مظلوموں کو انصاف دلانے ان کے گھروں میں پہنچ جانا، ان کے دردمند دل کی عکاسی کرتا ہے۔ جس جس گھر میں لیپ ٹاپ پہنچا وہاں شہباز شریف بھی پہنچے۔ چھوٹی کلاسوں میں پڑھنے والے بچے لیپ ٹاپ حاصل کرنے والے اپنے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے بہن بھائیوں سے پوچھتے ہیں کہ یہ انکل ہمیں کب لیپ ٹاپ دیں گے اور چھوٹے بچے انہیں اسی لئے انکل لیپ ٹاپ کہنا شروع ہو گئے ہیں بہرحال ایک بات ہے کہ وزیر اعلیٰ کے دامن پر کرپشن کا ایک بھی داغ ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
سندھ کے صحافی کہتے ہیں کہ کاش سندھ کو بھی کوئی شہباز شریف مل جائے، ویسے انہیں اویس مظفر ٹپی مل گیا اور کیا چاہئے۔ شہباز شریف کے صحت، تعلیم اور سڑکوں کی تعمیر نے مسلم لیگ (ن) کو پنجاب میں بے حد مضبوط اور توانا کر دیا ہے۔ راولپنڈی میں کارڈیالوجی سنٹر کا قیام بھی ان کا منفرد منصوبہ ہے۔ راولپنڈی میں ان کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں ملک ابرار، سردار نسیم اور حنیف عباسی کی کاوشوں کو بے حد سراہا جا رہا ہے مگر بدقسمتی سے شہباز شریف اپنے دورِ حکومت میں پنجاب پولیس کا قبلہ درست نہ کر سکے۔ تنخواہیں دوگنی کرنے کے باوجود جرائم اور امن و امان کی صورتحال کنٹرول کرنے میں پنجاب پولیس مکمل ناکام رہی۔ جوزف کالونی لاہور اور گوجرہ میں عیسائیوں کی بستیوں کو آگ لگانے کے واقعات کے بعد بھی نہ تو وزیر قانون رانا ثنااللہ کے ضمیر پر کوئی دستک ہوئی اور نہ ہی آئی جی پنجاب کے کان پر کوئی جوں رینگی۔ اچھا خاصہ پہلے دور حکومت میں شہباز شریف افسروں کو معطل اور فرائض میں غفلت برتنے پر ذلیل و رسوا کرتے تھے مگر اس دفعہ بیورو کریسی اور ان کے ماتحتوں کو ہر محکمہ میں کھلی چھٹی ملی رہی۔ تھانوں میں بے گناہ لوگوں پر تشدد ہوتا رہا، ان کی جعلی پولیس مقابلوں میں ہلاکتیں ہوتی رہیں۔
ہسپتالوں میں مریض ڈاکٹروں کی بے حسی کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اترتے گئے۔ طالب علم بورڈز کی عمارتوں کے باہر مظاہرے کرتے رہے، غلط رزلٹ پر خودکشیاں کرتے رہے مگر وزیر اعلیٰ نے اپنی چہیتی بیورو کریسی کا مزاج درست نہ کیا۔ چہیتی بیورو کریسی نے اپنے پراجیکٹس کا آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو آڈٹ نہ کرنے دیا اور ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کو بھی اپنی لائن پر لے آئے۔ اس کے علاوہ پٹواریوں، تحصیلداروں اور ٹی ایم اوز کے کمیشن مافیا کو بھی وزیر اعلیٰ ختم نہ کر سکے اور ان کے ذریعے اعلیٰ بیورو کریٹس اور ان کے ترقیاتی کاموں کے انچارج ایم این ایز اور ایم پی ایز اپنی جیبیں بھرتے رہے، وجہ صاف ظاہر ہے کہ بیورو کریسی نے وزیر اعلیٰ کو کوئی سسٹم وضع کرنے نہ دیا اور محض ان کی بھاگ دوڑ سے جو کچھ بہتری ہوئی وہ ہو گئی اور یہ مکمل ایک ہیرو کا ون مین شو تھا۔
پنجاب حکومت کے پانچ سال
Mar 26, 2013