قاف لیگ کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی طے شدہ اصولوں کے باوجود ان کے ارکان ہی توڑ نہیں رہی انہیں ٹکٹیں دینے پر بھی غور کر رہی ہے جس سے اعتماد کو ٹھیس پہنچنے کا احتمال ہے۔ ان حالات میں قاف لیگ نے واضح کر دیا کہ جب تک ان کے تحفظات دور نہیں ہوں گے معاملہ آگے نہیں چلے گا۔ کل کو ”متحدہ“ کی طرح ”قاف لیگ“ پھر دوبارہ ”سیاسی محبت“ میں گرفتار ہو جائے اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ہماری ”جمہوریت“ کے انداز دنیا کی جمہوریتوں سے قطعی مختلف ہیں۔ جو سیاسی پارٹیاں نگران حکومت پر اتفاق نہ کر سکیں ان سے بیچارے عوام کے مسائل حل کرنے کی توقع رکھنا عبث ہے۔ سیاست کی یہ شعبدہ بازیاں آگے چل کر کیا گُل کھلاتی ہیں آئندہ چند ہفتوں میں معلوم ہو جائے گا تاہم یہ بات پُرمسرت ہے کہ انتخابی عمل کا کم از کم آغاز ہو چکا ہے۔ بڑے بڑے سیاسی پہلوان میدان میں اُترنے والے ہیں، جن پہلوانوں کو اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے بعد نئی پارٹیاں جوائن کرنا تھیں یا پھر جن پہلوانوں کو اپنی سیاسی قوت اور سیاسی داﺅ لگا کر اپنی قیمت لگا کر سودا طے کرنا تھا۔ وہ تمام معاملات خاموشی سے طے پائے جا چکے ہیں۔ معاملہ اب اگر کوئی باقی ہے تو وہ ووٹ مانگنے اور ووٹ خریدنے کا ہے۔ الیکشن کمشن کی غیر جانبداری پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے۔ قواعد و ضوابط کی روشنی میں ترسیل ووٹ کو یقینی بنانا --- بدکردار، بددیانت، وراثتی امیدواروں کو انتخابات سے دور رکھنے کے علاوہ صاف و شفاف انتخابات کروانا الیکشن کمشن کی بنیادی ذمہ داری ہو گی مگر ووٹ مانگنے، ووٹ ڈالنے اور ووٹ خریدنے کا معاملہ چونکہ گھمبیر ہو گا اس لئے ٹرانسپرنسی کیلئے یہ بھی ضروری ہو گا کہ ”ووٹرز“ الیکشن کمشن کے ساتھ بھرپور تعاون کریں۔
وہ امیدوار جنہیں رکن اسمبلی بننے کیلئے اس بار 5 سے 10 کروڑ روپے خرچ کرنے ہیں ووٹ مانگنے سے قبل ہی ریہرسل کر رہے ہیں۔ ہر امیدوار کی یہ کوشش ہو گی کہ ووٹ کے حصول کیلئے وہ ایسے حُسین وعدے کرے جس سے ووٹر کو اس کے منہ سے نکلے ایک ایک لفظ پر یقین ہو سکے۔ امیدوار بڑی خوبصورت اور جاندار تقریریں کریں گے، بانگ درا، ارمغان حجاز، جاوید نامہ اور دیوان غالب سے چُن چُن کر شعر منتخب کئے جائیں گے تاکہ مسائل سے پریشان بیچارے عوام کے اعتماد کو اشعار کے مفہوم سے خریدا جا سکے۔ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ گونجے گا ضرور مگر اس نعرے کے مقابلے میں اس بار امریکی ڈرون حملوں کا خاتمہ، دہشت گردی کا مقابلہ، بجلی گیس، مہنگائی، بے روزگاری، تعلیم اور خودکشیوں کے بڑھتے رجحانات کو روکنے کا ردعمل عوام میں زیادہ مقبول ہو گا۔
دیہی علاقوں میں انتخابی سیاست کا رجحان بدستور امیدوار کی مالی حیثیت کے گرد گھومے گا۔ گاﺅں محلے کے وہ جمہوری کھڑپینچ جنہیں علاقے کے مجبور لوگوں کو جھوٹی تسلیاں دینے اور ان کے جذبات سے کھیلنے کے تمام گُر آتے ہیں انتخابی امیدواروں کی جانب سے دئیے گئے جمہوری لفافوں کا وزن دیکھ کر ووٹوں کی تقسیم کا فیصلہ کریں گے۔ بعض سیاسی پارٹیوں کے امیدوار پولیس، واپڈا، انکم ٹیکس، کسٹم، محکمہ جیل خانہ جات، محکمہ مال اور کچہریوں میں بیٹھے ڈی ڈی اوز، ڈی آر اوز اور ان کے نیچے جائیدادوں اور اراضی کی رجسٹریاں کرنے والے چھوٹے چھوٹے مگر بڑے بڑے لفافے لینے والے کلرکوں اور ہیڈ کلرکوں کو بھی اپنی انتخابی مہم میں بھرپور استعمال کریں گے اور جن میں اقتدار میں آنے کے بعد ان کی پروموشنز کے وعدے سرفہرست ہوں گے۔ زیادہ تر امیدوار مقامی تھانوں کے تھانیداروں، لوکل پٹواریوں، گرداوروں، قانون گو، نائب تحصیلداروں اور مال افسران کو بھی استعمال کریں گے۔ چھوٹے تھانیدار کو بڑا تھانیدار اور بڑے تھانیدار کو سٹیشن ہاﺅس آفیسر لگوانے کیلئے کمٹمنٹ بھی ہو گی۔ قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنے والے بیشتر ارکان کی عوامی تقریروں کا انداز وزیراعظمی ہو گا --- مثال کے طور پر اپنی رٹی رٹائی تقاریر میں جب وہ پڑھے لکھے نوجوانوں کی بے روزگاری پر روشنی ڈالیں گے تو ہر نوجوان کو وہ گزٹیڈ آفیسر دیکھنے کی نوید سنائیں گے۔ اسی طرح جنہیں صوبائی نشستوں پر اپنے جوہر دکھانے ہیں ان کا لہجہ خادمانہ ہو گا۔ وہ بجلی گیس اور ٹیلی فون کنکشن کے علاوہ گلی، محلوں اور شہروں میں پھیلی گندگی کا خاتمہ، ادھڑی سڑکوں کی تعمیر اور مہنگائی میں کمی کو اپنی تقاریر کا جزو بنائیں گے۔
دوسری جانب مسائل اور مہنگائی سے پسے عوام جنہیں ووٹ دے کر خوشحالی حاصل کرنا ہے سوائے نعروں اور پھولوں کے ہاروں کے اور کچھ حاصل نہیں کر پائیں گے جبکہ جمہوریت بیچاری بے یارو مددگار عوام کے سہانے خوابوں کی محض نمائندگی تک محدود ہو کر رہ جائے گی۔ اسی جمہوریت کیلئے طویل عرصہ تک جیلوں کی سزا کاٹنے والے لندن میں میرے کرم فرما، سیاسی دانشور پی پی پی کے بانی رہنما اور پاکستان میں جمہوریت، آزادی صحافت اور محنت کشوں کے حقوق کے علاوہ ظالمانہ جبر کے خلاف پچھلے 40 برس سے آواز بلند کرنے اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے امان اللہ خان جنہوں نے اپنے آپ کو نگران وزیراعظم کیلئے میدان میں اتار لیا تھا۔اگلے روز یہ اعلان کر دیا ہے کہ پاکستان میں شفاف الیکشن کرا کر وہ ملک کو ایک ناقابل تسخیر قلعہ بنا دیں گے۔ اتنا بڑا کام انتہائی مختصر عرصہ میں وہ کیسے کر پائیں گے، میرے لئے معمہ ضرور بنا ہے مگر ان کے اس نعرہ پر کہ ان کے پاس حرام کی دولت نہیں مگر ان میں کلمہ حق کہنے کی جرا¿ت ضرور موجود ہے --- مجھے اپنا ایک بار پھر گرویدہ بنا لیا ہے --- کہ حرام کی دولت ہی تو جمہوریت کی اصل دشمن ہے۔ ورنہ عوام بیچاروں کو خودکشیاں کرنے کی آخر کیا ضرورت پڑی ہے؟