عجب خواب مدّت سے ہم دیکھتے ہیں
مکینوں کا بستی سے رم دیکھتے ہیں
عجب کچھ تصوّر میں آتا رہا ہے
شرار اور دریا بہم دیکھتے ہیں
یہ دنیا، عجائب سے معمور دنیا
عجوبے یہاں ہر قدم دیکھتے ہیں
نہ بت خانہ¿ چین ٹھہرا نگہ میں
نہ ہم لعبتانِ عجم دیکھتے ہیں
کوئی کور چشم اس قدر تو نہ ہوگا
ہر اک شئے میں ہم کیف و کم دیکھتے ہیں
وہیں خیمہ کش ہوتے ہیں ہم مسافر
"جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں“
کمر کس لیں یہ شہسواراں جو اک بار
نہ افرنگ اور نے عجم دیکھتے ہیں
یہ ہے شعر ِ ترکے ا±ترنے کی ساعت
قلمکار نوکِ قلم دیکھتے ہیں
ہوئیں شہر ِموجود سے سیر آنکھیں
چلو ،چل کے سوئے عدم دیکھتے ہیں
طرحی غزل .... سیّد اعجاز شاہین
Mar 26, 2013