مکرمی! ایک رواج سا بن گیا ہے کہ ساری حماقتیں تو بااختیار طبقات کریں لیکن بالآخر برے نتائج پر عوام کو مورد الزام ٹھہرا دیا جائے اس لئے کہ وہ درست ”نمائندوں“ کا چنا¶ نہیں کرتے۔ اس معاملے میں ”انتخابات“ قریب آتے ہی عوام کیلئے نصیحتوں کے انبار لگائے جا رہے ہیںکہ خبردار‘ اچھے کردار کے ”نمائندے“ آگے لائیں۔ ہم صرف ایک پہلو ہی لے لیتے ہیں۔ کسی ایسے ”نمائندے“ سے متعلق جو پہلے ”اسمبلی“ میں منتخب ہو کر جا چکا ہے یا آئندہ ”انتخاب“ میں حصہ لے رہا ہے ”جمہوریت“ کے معماروں نے اسکی عوام اور ملک سے خیر خواہی ماپنے کا کونسا پیمانہ واضح کیا ہے۔ 5 سال تک بااختیار رہنے والے ’نمائندے‘ کی کارکردگی کا حقیقی گراف کیسے سامنے آئے گا۔ اسی طرح جو ”امیدوار“ منتخب ہونے جا رہا ہے اسکی نیت‘ صلاحیت اور عوام دوستی کو جاننے کا کیا فارمولا ہے۔ عوام کا فطری سوال ہے کہ وہ ”پیمانہ اور فارمولا“ سامنے لایا جائے جس پر عوام کسی کی جانچ پڑتال کر سکیں۔ یہ کام ”الیکشن کمیشن“ اور ”اسمبلی سیکرٹریٹ“ کا ہے کہ وہ 5 سال نمائندگی کرنے والوں کا سیاہ و سفید شفاف طریقے سے عوام کے سامنے لائیں اور آئندہ نمائندگی کے دعوے دار امیدواروں کو ایسی تفصیلات عوام کے سامنے لانے کا پابند کریں جس سے اندازہ ہو سکے کہ وہ معاشرے کے ”حقیقی مسائل“ کا نہ صرف علم رکھتے ہیں بلکہ ماضی میں ان مسائل کے حل کیلئے عملی خدمات کا ریکارڈ بھی رکھتے ہیں۔(خالد محمود ہجویری ٹا¶ن ملتان روڈ لاہور)