قرار داد پاکستان

23 مارچ 1940ءتحریک پاکستان کا یوم الفرقان ہے یہ دن یک دم نہیں آیا بلکہ ہزار سالہ ہندو، مسلم میل جول کا نچوڑ ہے۔ ہندو مورخ جے ای سنجانا کے مطابق کانگرسی لیڈر، پنڈت سندر لال نے 1941ءمیں بیان دیا کہ دو قوموں کے مابین جو ناقابل عبور رکاوٹیں کھڑی ہیں، آزادی کے سفر میں وہی سدراہ ہیں۔ سچائی تمہیں (ہندو قوم) ناگوار ہی گزرے گی لیکن اس بات کو تسلیم کر لینا چاہئےے کہ ہندو خود اس نعرہ بازی کا سبب ہیں جو مسلمانوں کی طرف سے پاکستان کے حق کی جا رہی ہے۔ یہ خود ہندو ہیں جنہوں نے پاکستان کی بنیاد رکھی۔ تمہارے (ہندو) ہرگھر میں پاکستان موجود ہے۔ کوئی غیر ہندو تمہارے گھر آئے تو تم اسے پانی کےلئے اپنا بہترین برتن نہیں دیتے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پاکستان کے حق میں نعرہ بازی کہیں سنائی نہیں دیتی۔ حقیقت یہ ہے کہ 23 مارچ 1940ءکو برصغیر کو مسلم انڈیا اور ہندو انڈیا میں تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا جس کو ہندو میڈیا نے مطالبہ اور قرار داد پاکستان قرار دیا تھا۔ قائد اعظم نے ہندو اور مسلم تہذیبوں اور رویوں کے پیش نظر فرمایا تھا کہ ”پاکستان کو برصغیر کے اندر موجود تھا‘ فقط تم اس سے آگاہ نہ تھے ہندو اور مسلمان اگرچہ مشترک دیہات اور قصبات میں بستے رہے لیکن وہ کبھی گھل مل کر ایک قوم نہ بنے ‘ وہ ہمیشہ دو جداگانہ تشخص تھے“۔ اسی لئے قائد اعظم نے کہا تھا کہ ”پاکستان اسی لمحے وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلے غیر مسلم نے اسلام قبول کیا تھا“۔ تحریک پاکستان تا حال ختم نہیں ہوئی۔
لالہ ایں چمن آلودہ رنگ است ہنوز
سپراز دست مینداز کہ جنگ است ہنوز
قرار داد پاکستان منزل کی نشانی اور نشاندہی ہے حتمی سفر باقی ہے بھارت کی ہندو قیادت تاحال آکھنڈ بھارت کےلئے کوشاں ہے۔ اسے اسلام‘ پاکستان اور مسلمانوں سے شدید نفرت ہے ہندو مورخ ایم این رائے اپنی کتاب ”اسلام کا تاریخی کردار“ صفحہ 4 میں لکھتا ہے کہ ”دنیا کا کوئی مہذب معاشرہ تاریخ اسلام سے اتنا ناواقف اور دین محمد سے اتنا متنفر نہیں‘ جتنا ہندو معاشرہ ہے۔ ہمارے قومی نقطہ نظر کا نمایاں ترین رویہ دھرمی استعمار ہے اور یہ رویہ جس قدر دین محمد کے ضمن میں گھناﺅنا ہے‘ اس قدر کسی اور دین کے بارے میں نہیں ہے“۔
قرارداد پاکستان کا پس منظر دوستی سے دشمنی کا ہے۔ مسلمان جداگانہ تشخص (دو قومی نظریے) کی بنیاد پر متحدہ ہندوستان کے حامی تھے۔ مسلمان متحدہ ہندوستان میں دینی، تہذیبی، معاشی و معاشرتی آزادی کیلئے آئینی تحفظات چاہتے تھے۔ جو ہندو اور انگریز قوم نے دینے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ شدھی، سنگھٹن نہرو رپورٹ اور کانگرس قیادت نے ”میثاق لکھنو“ میں مسلمانوں کے علیحدہ قومی تشخص اور مسلم لےگ کو نمائندہ مسلمان سیاسی جماعت تسلیم کیا تحریک خلافت موجودہ پاک بھارت، دوستی، تجارت، ترقی اور امن کی ہندو مسلم مشترکہ کاوش تھی جس کے نتیجے میں ہندو اور مسلم تنازع شدید تر بن کر سامنے آیا۔ جس کے ردعمل میں مسلم قیادت نے مسلم انڈیا اور ہندو انڈیا کی تقسیم کا مطالبہ کیا۔ قرارداد پاکستان کے وقت بھی مسلم قوم انتشار اور اختراع کا شکار تھی مگر قائداعظم کی ایمان افروز قیادت اور مسلم لیگ کے فعال اور متحرک کارکنوں نے مسلم قوم کو متحد و متفق کرکے یکسو کر دیا اور پاکستان جیسی ناممکن حقیقت کو ابدی حقیقت بنا دیا۔ پاکستان تاقیامت قائم رہے گا۔ اسے قائداعظم‘ علامہ اقبال‘ سر سید احمد خان، اکبر آلہ آبادی، حفظ جالندھری، ظفر علی خان جیسی قیادت درکار ہے۔ اللہ کی بستی میں دیر ہے، اندھیر نہیں۔ پاکستانی قوم کو نظریاتی محاذ پر ہر دم چوکس، چوکنا‘ متحد‘ چست رہنا چاہئے اور بقول زبیر بن ابی سلمی کہ جو قوم اپنے گھر اور وطن کی حفاظت مسلم ہو کر نہیں کرتی وہ گھر گرا دیا جاتا ہے۔ بھارتی ہندو قوم کی امن‘ دوستی اور تجارت پالیسی کو دانشمندی اور دور اندیشی سے دیکھنا چاہئے، بھارت کی آبی جارحیت‘ کشمیر اور افغانستان میں ظالمانہ اور استعماری کردار کے علاوہ بلوچستان‘ سندھ اور سرحد KPK‘ پنجاب‘ گلگت‘ بلتستان اور قبائلی علاقوں میں بیجا مداخلت‘ دہشت گردی اور تخریب کاری کو بھی قومی سلامتی کے نقطہ نگاہ سے پرکھنا چاہئے۔ بھارت کی دوغلی پالیسی کا حل یہ ہے کہ اس نے پاکستانی سرکار ہمنوا میڈیا کو امن کی آشا کی لوری دے رکھی ہے اور جنگی بجٹ پاکستان بلکہ چین سے بھی کئی گنا زیادہ ہے نیز پاکستان کو دبوچنے کےلئے افغانستان میں اتحادی افواج کے ساتھ اپنی فوجیں بھیج رکھی ہیں اور پاک بھارت اور پاک افغان تجارتی راہداری معاہدے کے ذریعے خوراک اور اسلحہ پاکستان سے جاتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن