مظہر حسین شیخ
کراچی سے تین سو کلومیٹر کے فاصلے پر صوبہ سندھ کا شہر تھرپارکر جہاں موسم گرما میں درجہ حرارت بہت بڑھ جاتا ہے آج کل قحط کا شکار ہے، جہاںکھانے پینے کے لئے کچھ بھی مہیا نہ تھاگوکہ اب خوردو نوش اور دوسری روز مرہ کی اشیا پہنچانے کا سلسلہ جاری ہے لیکن بروقت خوراک نہ ملنے اوربارش نہ ہونے کی وجہ سے وہاں کے مکین اب بھی مہلک بیماریوں میں مبتلا ہیں، ادویات پہنچانے کی وجہ سے اب شرح اموات میںکمی واقع ہو ئی ہے۔ یوں تو پہلے بھی اس علاقہ میں بھوک افلاس نے ڈیرے جمائے ہوئے ہیں۔ لیکن اب گزشتہ کئی سالوں سے بارش نہ ہونے کی وجہ سے اس علاقہ میں مال مویشی اور کئی انسانی قیمتی جانیں موت کے مُنہ میں جاچُکی ہیں۔ پانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے نہانے، کپڑے دھونے، برتن دھونے اور روزمرہ میں استعمال ہونے والا پانی زندگی کی اہم اور بنیادی ضرورت ہے ،انسان حیوان ،چرند ،پر ند،پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے،یہاں تک کہ زمین بھی پانی نہ ملنے کی وجہ سے بنجر ہو جاتی ہے کچھ اس قسم کے حالات تھر کے بھی ہےں،یہاں پانی کی بہت قلت ہے پانی حاصل کرنے کیلئے کئی گھنٹوں کا سفر پیدل طے کرنا پڑتا ہے۔ صرف پانی حاصل کرنے کیلئے کم از کم تین گھنٹے صرف ہو جاتے ہیں بچے اور عورتیں پانی کی تلاش میں رہتے ہیں۔جہاں کئی سالوں سے بارش نہ ہوئی ہووہاں بیماریاں جنم لیتی ہیں،اس سے آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ ان حالات میںاس علاقے کا کیا حال ہو گا۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ وہاں عورتوں کی اکثریت کام کرتی ہیں، گھر کا کام، بچوں کی دیکھ بھال اور مویشیوں کو وقت پر چارا ڈالنا ان عورتوں کا ہی کام ہے وہاں کے مرد حضرات کی اکثریت فارغ ہے۔رواں دور میں اس علاقہ کا یہ حال ہے کہ وہاں کے شیرخوار،بڑے، بچے، بوڑھے اورجوان بھوک اور پیاس سے تڑپ رہے ہیں ان میں درجنوں بچے خوراک نہ ملنے کی وجہ سے دم توڑ چکے ہیں جبکہ دوسرے بچوں کا یہ حال ہے کہ کاٹو توبدن میں خون تک نہیں وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بنے خوراک کے متلاشی ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق تھرپارکر میں345 میں سے 135ڈسپینسریاں اور78ویٹرنری ہسپتال(جہاں جانوروں کا علاج کیا جاتا ہے) بند پڑے ہیں جوڈسپینسریاں کھُلی ہیں ان میں زاہد المیاد ادویات فراہم کی جا رہی تھیں ان کی ایکسپائری تاریخ 2011ءتھی بعض مراکزصحت کا عملہ اپنی ڈیوٹی پر موجود ہی نہ تھااس صورت حال سے علاقہ کے مکین دوہری اذیت میں مبتلا ہوگئے ڈسپینسریوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے،جو ڈسپینسریاں کھُلی ہیں وہاں چوکیدار اورنائب قاصد کے علاوہ کوئی اپنی ڈیوٹی پر موجود نہیں۔زرائع کے مطابق یہ ڈسپینسریاں غلام ارباب رحیم کے دور میں بنائی گئی تھیں حکومت سندھ کی طرف سے ادویات نہ ملنے کی وجہ سے آہستہ آہستہ یہ ڈسپینسریاں بند ہوتی گئیں اس وقت مٹھی تحصیل میں ستائیس،ڈیپلو میں تئیس،ڈاہلی میں پندرہ،اسلام کوٹ میں سترہ،تھرپارکر میںتئیس اور چھاچھرہ میں اٹھارہ ڈسپینسریاں بند پڑی ہیں جبکہ عملہ مفت کی تنحواہ لے رہا ہے۔آخر اس ساری صورت حال کا زمہ دار کون ہے،کوئی بھی اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد سینکڑوں ،جبکہ غیرسرکاری رپورٹ کے مطابق یہ تعداد ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ سندھ کے بعض علاقے کئی برسوں سے بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط کا شکار ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق اس علاقہ کیلئے ہزاروں ٹن گندم تھرپارکر اور اردگرد کے دیہات میں پہچانی تھی لیکن حکومت سندھ کی نااہلی کی وجہ سے گندم وہاں تک نہیں پہنچ سکی، دوسری بات یہ کہ محکمہ موسمیات کے مطابق اس علاقے میں بارش نہ ہونے کی پیش گوئی کی تھی۔ بارش ہونایا نہ ہونا یہ تو اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے بعض اوقات بارش نہ ہونے کی پیش گوئی کی جاتی ہے اور بارش ہو جاتی ہے اور بعض اوقات بارش ہونے کی پیش گوئی کی جاتی ہے اور بارش نہیںہوتی،یہ تو اللہ تعالیٰ کا کام اس بارے میں مالک حقیقی ہی بہتر اور خوب جانتا ہے لیکن حکومت سندھ کو اپنی طرف سے مکمل انتظامات کرنے چاہئیں تھے لیکن سب کچھ جاننے کے باوجود ان کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔اس بگڑتی ہوئی صورت حال پر قابو پانے کے لئے وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف نے ایک ارب روپے اور امدادی سامان بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔اللہ کرے کہ یہ سامان اور رقم مستحقین تک پہنچ جائے۔
حیرانی اور دُکھ کی بات یہ ہے کہ سندھ کے وزیراعلیٰ نے تھرپارکر کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران ان کے کھانے کیلئے کون سی ایسی ڈش تھی جو تیار نہیں کی گئی ،ملائی بوٹی،روسٹ اور طرح طرح کے پکوان ان کے منتظر تھے کہنے والے کہتے ہیں کہ اُنہوں نے خوب سیر ہوکرکھانا کھایا۔ ایک طرف لاکھوں افراد جن میں مرد وخواتین اور عورتیں شامل ہیں۔ بھوک اور پیاس سے تڑپ رہے ہیں۔لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان نازک لمحات میں وزیراعلیٰ سندھ اور ان کے ساتھیوں کے خلق سے کس طرح کھانا نیچے اُتراہوگا۔پاک وطن کا بچہ بچہ تھرپارکر اور اس کے اردگرد کے علاقوں کے حالات سے واقف ہے۔ بچوں کا جوش اور جذبہ دیدنی ہے وہ ان کی وہاں جا کر مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ ان کے بس کی بات نہیں۔وہ اپنے طور پر اپنے بہن بھائیوں کی امداد تو کر رہے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ اڑکر وہاں پہنچنا چاہتے ہیں تاکہ اپنے بھائیوں کی دل کھول کر امدد کر سکیں۔ و زیر اعظم پاکستان کے حکم کے مطابق وہاں ہر قسم کی سہولت فراہم کرنے کیلئے سیاسی حضرات یا ان کے کارکن امدادی سامان لے جایا جا رہا ہے۔ اللہ کرے یہ سلسلہ جاری رہے اور مستحق بچوں، بڑوں اور بزرگوں کو کھانے پینے کا سامان پہنچتا رہے۔ تاکہ وہ بھی ہماری طرح زندگی گزار سکیں۔ دراصل ان علاقوں میں رہنے والوں کا ذریعہ معاش مال مویشی ہیں۔ بھیڑ بکریاں اور دوسرے جانور پال کر یا تو فروخت کرتے ہیں یا پھر اسے بیچنے کیلئے دوسرے شہروں کا رُخ کرتے ہیں اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کا سلسلہ سانپوں کا تماشہ دکھانا ہے۔
اس وقت پورا پاکستان ان مخیر حضرات کی عظمت کو سلام کرتا ہے جنہوں نے اس نیک کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہاں پانی سب سے بڑا مسئلہ ہے لیکن اب تو غیر سرکاری طور پر یہ اعلان بھی ہو چکا ہے کہ چھ ماہ کی قلیل مدت میں بورنگ کا انتظام کر دیا جائے گا اور جب وہاں پانی کی رسائی ممکن ہو جائے گی پھر اس قسم کے حالات بھی پیدا نہیں ہوں گے۔مخیر حضرات کی طرف سے امدادی سامان اور ادویات پہنچانے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے ایک نہیں بلکہ کئی کنٹینرز ہسپتال کی صورت میں وہاں پہنچ چُکے ہوں گے جن میں مفت ادویات سے لے کر مکمل ٹیسٹ لیبارٹریزاور آپریشن تھیٹر موجود ہے تھر پہنچ چکے ہیں ایسا انتظام کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی دوسری طرف کھانے پینے کی روزمرہ کی اشیائے خوردونوش اور مالی امداد ان تک پہنچانے کا عملی کام شروع ہو چکا ہے یقیناً ایسے نیک دل حضرات، دُنیا میں جنت کما رہے ہیں۔