خضدار سے ملنے والی نعشوں کا ڈی این اے نہ کرانے پر برہمی‘ بلوچستان جل رہا ہے‘ صوبائی حکومت چین سے بیٹھی ہے: سپریم کورٹ

Mar 26, 2014

اسلام آباد (وقائع نگار+ ایجنسیاں) بلوچستان بدامنی کیس میں وفاقی حکومت اور ایف سی وکیل نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ بلوچستان میںلاپتہ افراد کی گمشدگی میں مبینہ طور پر ملوث دو آرمی افسروں میجر سیف اور میجر معین کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی سفارش کر دی ہے جلد ہی ان کے خلاف کارروائی شروع کر دی جائے گی۔ فوج نے خود بھی اپنے افسروں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے جبکہ عدالت نے خضدار اور دیگر علاقوں سے اجتماعی قبروں سے ملنے والی نعشوں کے ڈین این اے ٹیسٹ نہ کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے رپورٹ 24 گھنٹے میں بلوچستان حکومت سے طلب کی ہیں۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ چیف سیکرٹری اتنا بڑا افسر ہے کہ عدالتی احکامات کے باوجود اس نے دیگر حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں شرکت کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔ حکومت بلوچستان کی اگر لاپتہ افراد کے مقدمات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے تو وہ عدالت کو صاف صاف بتلا دے۔ بلوچستان جل رہا ہے اور حکومت چین سے بیٹھی ہوئی ہے۔ لوگوں کی پریشانیاں بڑھ رہی ہیں۔ بلوچستان کے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لئے خاطر خواہ اقدامات کرنا ہوں گے۔ جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیئے کہ حکومت بلوچستان لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بے کار سی کوشش کررہی ہے۔ کسی بھی شہری کو غیر قانونی طور پر لاپتہ نہیں کیا جا سکتا۔ آئین وقانون عوام کے جان ومال کے تحفظ کا ذمہ دار ریاست کو قرار دیتا ہے۔ حکومت اگر اپنے لوگوں کا خیال نہیں رکھے گی تو کیا لوگ باہر سے آکر رکھیں گے۔ ایف سی کے وکیل عرفان قادر نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے حکام سے ملاقات کی ہے مگر چیف سیکرٹریوں سے ملاقات نہیں ہو سکی ان سے صرف ٹیلی فون پر بات ہوئی ہے۔ دو مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت چلائے جائیں گے۔ اب ان مقدمات میں صوبائی حکومت کا کردار ختم ہوگیا ہے۔ اے جی بلوچستان نے عدالت کو بتایا کہ لاپتہ افراد کے بارے میں مزید پیش رفت نہیں ہو سکی۔ جسٹس امیر ہانی نے کہا کہ چیف سیکرٹری نے ملاقات کیوں نہیں کی جبکہ اس حوالے سے عدالت نے حکم دے رکھا ہے۔ عدالتی حکم پر عملدرامد نہیں کیا گیا۔ اس دوران عدالت کو بتایا گیا کہ اجتماعی قبروں کے بارے میں کام کرنے والے ٹربیونل نے  2ماہ کا مزید وقت مانگا ہے۔ نصراللہ بلوچ نے عدالت کو بتایا کہ جس قدر ڈی این اے پر وقت صرف کیا جارہا ہے اتنا وقت نہیں لگتا۔ ان کی سرجن سے بات ہوئی ہے وہ کہتے ہیں کہ ڈی این اے پر 10 سے 15 روز لگتے ہیں۔ عدالت نے سماعت آج بدھ تک ملتوی کرتے ہوئے اجتماعی قبروں سے ملنے والی نعشوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹس طلب کر لیں۔ جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ 2010ء سے کیس چل رہا ہے۔ کیس کو کتنا عرصہ زیرالتواء رکھیں۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل عتیق شاہ نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر گمشدہ اخونزادہ کی ایف آئی آر ٹانک میں درج کر لی گئی۔ اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ خالد محمود نے استدعا کی کہ تفتیش کے لیے دو ہفتوں کا وقت دیا جائے۔ عدالت نے استدعا منظور کرتے ہوئے اخونزادہ کی گمشدگی کی تفتیش کے لیے دو ہفتوں کا وقت دے دیا۔

مزیدخبریں