”نہ سنا جانا ہے ان سے نہ رہا جاتا ہے“

آج کل اندرونی اور بیرونی حالات اس قدر تیزی سے بدل رہے ہیں کہ انسان کی دانست اس کا اندازہ نہیں لگا سکتی۔ ملکی حالات دہشتگردی کی اس قدر زد میں ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ ایک طرف مسجد، مندر، گرجاگھر، امام بارگاہیں دہشتگردی کی گرفت میں ہیں تو دوسری طرف سکولوں پر دہشتگردی کا راج ہے۔ ہزاروں بے گناہ جانیں لقمہ اجل ہو رہی ہیں۔ ایک دہشتگرد وہ ہیں جوبیرونی طاقتوں کے پٹھو تنخواہ دار بن کردہشتگردی کر رہے ہیں۔ بلوچستان کراچی میں بھارت دہشتگردی میں ملوث ہے ۔پاکستانی حکومت نے امریکہ اور یونائیٹڈ نیشن کو ثبوت بھی مہیا کئے ہیں لیکن نتیجہ مصلحتوں کی نذر ہو گیا ہے۔ امریکہ کسی صورت ساﺅتھ ایشیا، گلف ریاستوں پر چین کا اثرورسوخ پسند نہیں کرتا۔ ایک افواہ کیمطابق چین، روس، پاکستان، ایران کے مبینہ طور پر متحدہونے کی امریکہ کو تشویش ہے۔ امریکی پہلے بھارت کو چین، پاکستان سے مقابلہ کرنے کیلئے تیار کر رہا تھا۔ اسکے ساتھ ایٹمی معاہدے بھی کئے گئے لیکن جب بھارت نے امریکہ کو بھی کہنا شروع کیا کہ بحرہند میں آنے سے پہلے بھارت سے اجازت لی جائے اور چند وجوہات کی بنا پر امریکہ مکمل طور پر بھارت پر اعتماد نہیں کرتا۔ دوسرے امریکی فوجیں افغانستان سے نکل جانے کے بعد افغانستان میں استحکام نہیں آ سکتا جب تک پاکستان کی معاونت نہ لی جائے۔ امریکہ تسلیم کرتا ہے کہ پاکستان کا افغانستان کے استحکام کیلئے رول بہت اہم ہے۔پاکستان نے امریکی خواہش پر فاٹا میں حقانی نیٹ ورک توڑنے کیلئے کارروائی شروع کر دی ہے۔ ادھر امریکہ نے بھی افغانستان حکومت پر دباﺅ ڈال کر پاکستان کے ساتھ مشترکہ کارروائیاں کرکے دہشتگردی ختم کرانے کا عندیہ دیا ہے۔ فضل اللہ پر افغانستان کی حکومت بھی زندہ یا مردہ پاکستان کے حوالے کرنے کے وعدے کئے جا رہے ہیں۔ امریکہ بھی فضل اللہ پر تین ڈرون حملے کروا چکا ہے ۔ مطلب یہ نکلا کہ پاکستان، امریکہ، افغانستان مل کر دہشتگردی ختم کرانے کے اقدامات مل کر کر رہے ہیں۔ امریکہ نے پاکستان کی امدادآئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی اداروں سے ریلیز کروانا شروع کر دی ہے۔ امریکہ میںامداد جو رکی ہوئی تھی وہ بھی بتدریج ریلیز کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ گو بھارت کیساتھ ایٹمی معاہدہ امریکہ نے کیا ہے‘ اسی قسم کا پاکستان بھی مطالبہ کر رہا ہے جس کو منظور کرنے پر غوروخوض شروع ہو گیا ہے۔
چند ماہ قبل جنرل حمید گل نے بیان دیا تھا کہ فروری مارچ میں بھارت کشمیر اور راجستھان کے ذریعے پاکستان پر حملہ کرنیوالا ہے لیکن جب چین نے جواب دیا کہ پاکستان کے کسی علاقہ پر حملہ چین پر حملہ تصور ہو گا اور ادھر روس نے بھی مداخلت کی تو اب نئی صورت آ گئی ہے کہ پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات اس قدر بہتر ہو گئے ہیں کہ پاکستان میں چینی صدر کی آمد تین دفعہ معطل کی گئی ہے۔ چینی صدر بھارت تو گیا لیکن پاکستان نہیں آ سکا۔ جو اصل میں امریکہ کی کارستانی ہے۔ پہلے زرداری کی حکومت میں بھی چینی صدر نے پاکستان آنا تھا لیکن شنگھائی کانفرنس سے قبل زرداری نے کہا تھا کہ شنگھائی کانفرنس کے موقع پر تاریخ کا اعلان کرینگے لیکن شنگھائی کانفرنس میں زرداری گئے ہی نہیں اس طرح زرداری نے چینی صدر کی آمد کو روکے رکھا۔ اب میاں نواز شریف کے دور حکومت 23 مارچ کو پریڈ میں چینی صدر کی شمولیت متوقع تھی لیکن امریکی کوششوں کی وجہ سے پاکستان گورنمنٹ نے تاریخ مقرر نہیں کی اور معاملہ کو وعدہ فردا پر ٹرخایا جا رہا ہے۔ پاکستان کی اس حرکت کی وجہ سے امریکہ بہادر موجودہ حکومت کو ڈھیل دے رہا ہے۔ بھٹو حکومت کے وقت پاکستانی ایم این اےز کا وفد چین گیا تھا۔ صدرماﺅزے تنگ زندہ تھے انہوں نے پاکستانی وفد کو وارننگ دی کہ چین کی پرانی سیاسی قیادت تو پاکستان کے ساتھ ہے لیکن نوجوان قیادت کے تعلقات کے کچھ اور تقاضے ہونگے۔ پاکستان کو بھی کسی ملک کوگرانٹڈ نہیں لینا چاہئے۔ اگر چینی صدر کی پاکستان آمد کو اس طرح ٹرخایا گیا جس طرح زرداری اور موجودہ حکومت کر رہی ہے بھارتی چانکیائی سیاست ہر طرف کوشش کریگی کہ پاکستان چین تعلقات ٹھیک نہ رہیں۔ پاکستانی حکومت کو سوچنا چاہئے کہیں یہ نہ ہو کہ امریکہ کے پیچھے بھاگتے ہوئے چین کی شفقت نہ کھو دیں۔ کچھ چیزیں عقل سے باہر ہو رہی ہیں۔ پختونخوا میں آرمی سکول پر حملہ کی ضرورت طالبان کو کیوں محسوس ہوئی جبکہ عمران خان طالبان کیخلاف نہیں تھے۔ یہ بھی بھارت اور امریکہ کا گٹھ جوڑ تھا جس سے عمران خان کو طالبان کیخلاف ایکشن کیلئے اے پی سی کانفرنس میں باقی جماعتوں کا ساتھ دینا پڑا۔ سینٹ کے الیکشن میں ایم کیو ایم نے پی پی پی یعنی زرداری صاحب کا ساتھ دیا۔ ایم کیو ایم والوں کی خواہش تھی کہ آرمی اے این پی کے حمایتیوں کو دہشت گرد قرار دیکر کراچی سے نکال دے لیکن نائن زیروپرآپریشن کیا گیا اور اسلحہ اور دہشت گرد بھی پکڑے گئے۔ ایم کیو ایم کے نمائندہ فاروق ستار کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم نے دہشتگردوں کیخلاف ایکشن کی مزاحمت نہیں کی ۔ درست بات ہے اور بین الاقوامی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایم کیو ایم کا قابل تحسین فیصلہ ہے۔ خود الطاف حسین کہہ رہے ہیں کہ اگر انکی تنظیم میں کوئی دہشت گرد ہے تو ایکشن لیا جائے۔ عام فہم آدمی کو یہ حیرانی ہے کہ ایم کیو ایم نے خاموشی کیوں اختیار کی ہے۔ ایک قیدی جس کو پھانسی کی سزا دی جانی تھی اس نے ایم کیو ایم کے لیڈروں کےخلاف بیان دیا ہے۔ جس میں فاروق ستار کے علاوہ باقی الطاف حسین، بابر غوری، وسیم اختر اور دیگر لیڈروں پر الزام عائد کیا ہے کہ انکے کہنے پر اس نے قتل کئے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ایک پھانسی کی سزا پانے والے ملزم کے بیان کی وقعت کیا ہو گی اور یہ ڈرامہ ملکی حالات پر کیا اثر چھوڑے گا۔
بین الاقوامی طور پر ایک لہر اٹھی تھی۔ اسلامی ملکوں کی حکومت پر نزلہ گرا۔ صدام حسین کی حکومت کو عراق میں ختم کیا گیا اور تیل والے علاقہ پر قبضہ کیا گیا۔ حسنی مبارک کو مصر قذافی کو لیبیا سے چلتا کیا گیا۔ شام میں بھی جنگ جاری کرائی گئی۔ ایران سے شاہ ایران کو چلتا کرنے کے بعد موجودہ ایرانی حکومت کیخلاف بھی بین الاقوامی سازشیں کی گئیں۔ سعودی عرب میں بھی سی آئی اے کا ہیڈکوارٹر چینج کیا گیا۔ پاکستان پر حملہ کرانے کی بھی خبریں فروری، مارچ میں اخباروں کی زینت بنی لیکن یک لخت پاکستان سے امریکہ کی ہمدردیاں باقی تمام اسلامی ملکوں میں ناکام ہونے کی وجہ سے تو نہیں ہو رہی یا ایک نئی چال ہے۔ ایران، پاکستان، افغانستان، چین، روس کے ایک بلاک بننے کی افواہیں چل رہی ہیں جس کی وجہ سے امریکہ نے پالیسی شاید بدلی ہے اور اب موجودہ پاکستانی حکومت کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ پاکستان میں دھرنے بھی ختم ہوگئے، امداد بھی شروع ہو چکی ہے۔ آئی ایم ایف بھی حکومت کی تعریف کر رہا ہے۔ عمران خان ٹھنڈے پڑ گئے ہیں۔ اسمبلیاں دوبارہ جوائن کرنے کے آثار نظر آ رہے ہیں لیکن کس قیمت پر۔ کچھ پاکستانی حلقوں میں یہ بھی خبر چل رہی ہے کہ صدر امریکہ مسٹر اوباما بھارت گئے تھے اور انکے مقابلہ میں چینی صدر پاکستان آ رہے ہیں جس میں گوادر بندرگاہ کا افتتاح شامل ہو گا اور امریکہ کے مقابلہ میں چین کو لا کھڑا کیا ہے اس کو روکنے کیلئے امریکہ سر توڑ کوشش کر رہا ہے جس وجہ سے یہ چین کے صدر کا دورہ نہیں ہو سکا۔ روسی صدر بھی پاکستان آنا چاہتے ہیں لیکن وہ بھی ابھی تک نہیں آسکے جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ امریکہ کو یہ پاکستان کی حرکتیں پسند نہیں۔ لیکن پاکستان کی اب اہمیت بڑھ گئی ہے ہر سپر پاور پاکستان کیساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن پاکستان کی موجودہ حکومت کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہئے۔ سب سپر طاقتیں اپنے مفاد کا سوچتی ہیں۔ پاکستانی حکومت کو آزمائے ہوئے دوست کو ناراض نہیں کرنا چاہئے۔ کوئی بڑی طاقت وعدوں پر ٹرخائی نہیں جا سکتی عملی اقدام کرنے لازم ہوتے ہیں۔ بین الاقوامی شطرنج بچھی ہوئی ہے۔ اس میں غوروخوض اور دانشمندی سے چال چلنی چاہئے۔ سب کی جو رو کسی کی بھی جو رو نہیں ہوتی۔ چین ہمارا ازلی و ابدی دوست ہے جو ہر کڑے وقت پر پاکستان کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے اس لئے اس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ بہادر سی آئی اے کے ذریعے سازشوں کا بادشاہ ہے اس لئے اس سے بھی دامن نہیں بچایا جا سکتا اس لئے پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہئے۔ڈاکٹر تاثیر نے تو خوب کہا ہے۔ ....
نہ سنا جاتا ہے ان سے نہ رہا جاتا ہے

ای پیپر دی نیشن