بلاول (بھٹو زرداری) عزیز ہے۔ خوشی ہے کہ وہ اپنی چھوٹی عمر کے مطابق باتیں کرتا ہے۔ بڑی بڑی باتیں نہیں کرتا۔ ہمارے ’’بڑوں‘‘ کو بھی بڑی بڑی باتیں زیب نہیں دیتیں۔ بلاول ہندوؤں کی مذہبی تقریب میں گیا تو ان کے مطلب کی باتیں کرنے لگ گیا۔ یہ انہیں بھی پتہ ہوتا ہے کہ یہ باتیں صرف اس موقعے کے لئے ہیں۔ پچھلے دنوں نواز شریف بھی ہندوؤں کے کسی تہوار میں گئے تھے اور اس طرح کی باتیں کی تھیں۔ یہ معاملہ سیاست سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ لیکن بھارتی حکمرانوں نے مسلمانوں کے حوالے سے ایسی بات کبھی کہیں نہیں کی۔ ہمارے حکمران احساس کمتری بلکہ احساس محکومی میں مبتلا ہیں۔
بلاول نے ہولی کے تہوار میں ہندو لڑکیوں اور لوگوں سے کہا کہ بھارت میں مسلمان صدر بن سکتا ہے توپاکستان میں ہندو سربراہ کیوں نہیں ہو سکتا۔ وہ یہ بتائے کہ کیا بھارت میں کوئی ایسا شخص وزیراعظم بن سکتا ہے جو مسلمان ہو۔ قریب کی بات یہ ہے کہ وہاں ہندو انتہا پسندوں کے سامنے بے چارے مسلمانوں کا کیا حال ہے۔ بھارتی صدر ہندو بھی ہو تو وہ برائے نام ہوتا ہے۔ کیا کسی بھارتی صدر کو توفیق ہوئی کہ وہ مسلمانوں کے حق میں بیان ہی دے سکے۔
پاکستان میں جو لوگ حکمرانوں کے بیٹے ہوتے ہیں۔ انہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ بھی تھوڑے دنوں کے بعد حکمران بنیں گے وہ آدھے بلکہ پورے کے پورے حکمران ہوتے ہیں۔ ان کے خوشامدی ان کے ساتھ حکمرانوں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ ہم لوگ خوشامد کو ایمان سمجھتے ہیں۔ یہ سیاست سیاسی ایمان کی طرح ہے؟
بلاول کو مسلمانی کا پتہ نہیں صرف حکمرانی کا پتہ ہے۔ وہ اپنے لوگوں کا حکمران ہے؟ اسے ہندو دھرم کا بھی پتہ نہ ہو گا یہ باتیں کسی نے لکھ کے دے دی ہوں گی۔ یہ لکھنے والے بھی جاہل ہوتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے لوگ اس حوالے سے بہت مشہور ہیں بلکہ بدنام ہیں۔ بلاول کو بھی چار آیتوں (سطروں) کی سورہ اخلاص بھی نہیں آتی ہو گی۔ ان کے والد گرامی ’’صدر‘‘ زرداری کو بھی سورہ اخلاص نہ آتی ہو گی۔ میں معافی مانگ لوں گا کہ وہ کسی ٹی وی چینل پر آئیں سورہ اخلاص سنا دیں صدر زرداری کے چہیتے ہمراز وزیر داخلہ رحمان ملک کو بھی سورہ اخلاص نہ آتی تھی۔ اب بھی نہیں آتی ہو گی؟ بے نظیر بھٹو کے وزیر داخلہ اعتزاز احسن کو بھی سورہ اخلاص نہیں آتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بلاول کی والدہ شہید بے نظیر بھٹو کو بھی نہ آتی ہو گی تو بختاور اور آصفہ کو کب آتی ہو گی۔
برادرم آغا مشہود شورش کاشمیری سے گپ شپ ہو رہی تھی۔ کوئی غیرت مند ہی قرآن پڑھ سکتا ہے۔ جن کے سینے میں غیرت اور غیرت ایمانی نہیں ہوتی وہ قرآن سمجھ نہیں سکتے ایک بار شورش کاشمیری نے کہا کہ کوئی پیغمبر سب سے پہلے اپنی قوم کو غیرت دیتا ہے۔ یہ چیز ہمارے کسی حکمران یا سیاستدان کے پاس نہیں ہے؟
غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاج سردارا
غیرت سے عاری لوگ جب کسی قوم کے حکمران بن جاتے ہیں۔ تو اس کی بدقسمتی کی تاریخ بہت لمبی ہو جاتی ہے۔ ہمارے ایک نگران وزیراعظم تھے۔ بلخ شیر مزاری محفل میں ان سے درود شریف نہ پڑھا جا سکا۔ میں جو پاکستان کو خطہ عشق محمدؐ کہتا ہوں۔ وہاں حکمرانی اور نگرانی کرنے والے اگر درود شریف ہی نہ پڑھ سکیں تو تاریخ اس قوم کو کن لفظوں سے یاد کرے گی۔
بیرون ملک کئی محفلیں ہمارے مسلمان حکمرانوں کی موجودگی میں تلاوت کے بغیر شروع کرنا پڑیں کہ وہاں کوئی شخص قرآن کریم کی دو آیتیں بھی نہ سنا سکتا تھا مگر اس حوالے سے یہ بات کس قدر حیرت انگیز اور خوشی کی طرح ہے کہ بھارتی مسلمانوں کی پچھلے برس رمضان کی ایک تقریب میں بھارتی مس یونیورس جس کے حسن و جمال کے کئی کمال اس کے خدوخال میں لہراتے ہیں، سشمتاسین نے تلاوت کی کہ محفل جھوم اُٹھی۔
صرف ہندو ہی اپنی محفلوں میں مسلمان سیاستدانوں اور حکمرانوں کو نہیں بلاتے۔ بھارت میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ عظیم الشان مذہبی ادارے مدرسے دیوبند کی صد سالہ تقریب میں وزیراعظم اندرا گاندھی کو بلایا گیا۔ اُس نے وہاں ایسی ولولہ انگیز تقریر کی کہ علمائے دیوبند بھی حیران رہ گئے۔ دیوبند کو سیاسی مفادات کے لئے استعمال کرنے والے مولانا فضل الرحمن یہ تقریر سن لیتے تو بھارت کی شہریت اختیار کر لیتے۔ پھر بھارتی حکمرانوں سے مذاکرات کرتے اور اپنے تحفظات منوا لیتے۔؟
بھارتی لیڈر مروت میں آکے کوئی ایسی بات نہیں کہتے جو اُن کی پالیسی اور ملکی مفادات اور معاملات کے خلاف ہو۔ مگر ہمارے حکمران اور سیاستدان صرف اپنے ’’کرم فرمائوں‘‘ کو خوش کرنے کے لئے جو دل میں آئے بولے چلے جاتے ہیں۔
بلاول نے جذبات میں یہ کہا کہ بھارت میں مسلمان صدر بن سکتا ہے تو پاکستان میں ہندو سربراہ کیوں نہیں بن سکتا۔ اس میں کسی مذہب کا آدمی بھی حق رکھتا ہے۔ اور آگے چل کر کہا کہ مذہب کے نام پر لوگوں کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے یہ چار کالمی خبر ہے مگر اس کے ساتھ نیچے ایک کالم کی چھوٹی سی خبر ہے کہ بھارت کے ہندو اداکار وردن دھون کہتے ہیں کہ میرے پاس قرآن کریم کا ایک نسخہ ہے میں اسے اپنے سرہانے رکھتا ہوں، میں قرآن کا مطالعہ ہر روز ضرور کرتا ہوں۔
یہ سوال نجانے کیوں میرے ذہن میں آیا ہے کہ بلاول سے پوچھوں اس نے کبھی قرآن کریم کا مطالعہ کیا ہے اس کے گھر میں قرآن کا کوئی نسخہ نہ ہوگا۔ ہندوؤں سے بھی یکجہتی کے اظہار کے لئے تھوڑا سا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ میں یہ بات مذہبی دائرے میں رہتے ہوئے نہیں کر رہا۔ مگر ہم مذہب کے معاملے میں دفاعی انداز اختیار کرتے ہیں۔ اس کے لئے ہم کسی نامعلوم احساس کمتری کا شکار کیوں ہیں۔ جب کسی کو ہندو‘ مسیحی‘ سکھ‘ یہودی ہونے پر فخر ہے تو ہمیں مسلمان ہونے پر کیوں فخر نہیں ہے۔ آجکل مسلمان ہونا کوئی فخر کی بات نہیں ہے کیونکہ مسلمانوں نے اسلام کو بدنام کرنا ہی ایمان سمجھ رکھا ہے، ہندو اور یہودی‘ مسیحی بھی اپنے لوگوں سے بہت مایوس ہیں، مسلمان کیوں اتنے ڈیفنسیو (دفاعی) ہیں۔؟
آخری بات یہ کہ بلاول ہندئوں کی تقریب میں جتنے خوش اور بااعتماد دکھائی دے رہے تھے۔ مسلمانوں کی محفل میں نہیں ہوتے۔
مسلمان ہونا احساس کمتری بن گیا ہے؟
Mar 26, 2016