ہمارے معاشرے میں بہت سی چیزیں لعنت ہیں جیسے رشوت اور بھیک ایک لعنت ہے۔ اسی طرح جہیز بھی ایک لعنت ہے۔ لیکن جب ہی جہیز کسی دوسرے کے گھر جائے تو لعنت اور اپنے گھر آئے تو رحمت بن جاتا ہے۔ ہمارے ایک دوست نے کہا جہیز تب تک برا لگتا جب تک اپنی شادی نہ ہو جائے۔ آج کل ہر دوسرا لڑکا اور لڑکی کی ماں اسی بات کا پرچار کرتے نظر آتے کہ وہ جہیز کے سخت خلاف ہیں۔ لیکن درحقیقت انکے یہ بیان تو محض منافقت پر مبنی ہوتے ہیں۔ ابھی گزشتہ دنوں کزن کی ایک رفیقہ کار کے بیٹے کی شادی ہوئی موصوفہ نے جہیز لینے سے سختی سے منع کر دیا۔ لیکن سٹاف روم میں روزانہ بیٹھ کر اس بات پر افسوس کا اظہار ضرور کرتی ہیں کہ بھلا کوئی ایک ہی چیز دیدیتے، ہم نے تو نہیں لینا تھا ہم نے تو کہنا ہی تھا لیکن وہ لوگ تو پکے ہو گئے اور کچھ بھی نہیں دیا۔ یہ سوچ ہمارے اندر منافقانہ رویوں کی عکاسی کرتی ہے۔ یعنی ہم تو جہیز نہیں لینا چاہتے لیکن والدین کو خودی دے دینا چاہیے۔ ہماری نیکی، ہماری اچھائی اتنی منافقت سے بھری ہوتی ہے کہ ہم بظاہر تو کسی چیز کو غلط سمجھ رہے ہوتے ہیں لیکن دل کے اندر کہیں اس برائی کی خواہش انگڑائیاں لے رہی ہوتی ہے۔ خود کو لبرل ثابت کرنیوالے اور پڑھے لکھے لوگوں کے ہاں بھی یہ حرص موجود ہے۔ شادی بیاہ کے موقع پر عموماً لڑکے والے اپنی طرف کی تمام رسومات کو یہ کہہ کر منع کر دیتے ہیں کہ انکے ہاں ایسا نہیں ہوتا‘ لیکن بیٹی والے تمام رسوم و رواج پورا کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ جہیز تو ایک طرف دولہے کی ماں کو سونے کی بالیاں پہنانا‘ دولہے کے تمام رشتے داروں کو کپڑے دینا‘ دن مقرر کرنے ہوں تو آنیوالے تمام مہمانوں کو چادریں پیش کرنا‘ گود بٹھائی کی رسم میں دولہن سے پیسے لینا‘ لمبی چوڑی بارات لیکر آنا اور ولیمہ پر مہمانوں کی فہرست کو مختصر کرنا‘ مہندی کے تمام اخراجات کا بوجھ بھی لڑکی کے والدین اٹھاتے ہیں۔ یہ تمام معاملات جہیز سے ہٹ کر ہیں۔ اسکے برعکس لڑکے شہزادے کو صرف ایک ولیمہ کا خرچ کرنا پڑتا ہے بری کے نام پر ہونیوالی رسم میں عموما لڑکی کو سسرال کی طرف سے ملنے والے کپڑے اور چیزیں انتہائی ناقص ہوتے ہیں اور صرف دکھاوا ہوتا ہے۔ اور پھر بھی تمام عمر جہیز کے طعنے لڑکی کو سننے پڑتے ہیں۔ عرب ممالک اور چند دوسرے اسلامی ملک اس لعنت سے پاک ہیں حضور کریمؐ کے دور سے لے اب تک یہ ہی رواج چلا آرہا ہے کہ لڑکا پہلے کام کاج کرتا ہے اپنا گھر سیٹ کرتا ہے۔ ضرورت کی تمام چیزیں خریدتا ہے اور پھر وہ کہیں جا کر شادی کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ اس میں بھی لڑکی والے لڑکے سے مزید کا تقاضہ کر سکتے ہیں۔ لڑکے والوں کو اس کا کوئی حق نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں نکاح کے وقت بھی لڑکی کے حق پر اس طرح ڈاکہ مارا جاتا ہے کہ اس کے حقوق کے تمام خانوں پر کراس کا نشان لگا دیا جاتا ہے، جس میں طلاق کا حق، ماہانہ جیب خرچ اور مزید بھی جو لڑکی لکھوانا چاہے لکھوا سکتی ہے لیکن ہمارے ہاں اسکو غیرت کو مسئلہ بنا لیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ والدین ڈرتے ہوئے بیٹی کا حق مہر بھی بہت کم لکھواتے ہیں۔ وہ حقوق جو اسلام اور قانون عورت کو دیتا ہے اسے لڑکے کی جھوٹی غیرت کھا جاتی ہے۔ کیا لڑکے کو کسی سے گھر سے سامان اکٹھا کرتے اور تقاصہ کرتے غیرت نہیں آتی؟ یہ غیرت مال سمیٹتے تو نہیں آتی لیکن عورت کا حق ادا کرتے ضرور آتی ہے۔ جس کی اجازت نہ قانون دیتا ہے اور نہ دین اس کو سینہ چوڑا کرکے قبول کر لیا جاتا ہے۔ بہترین جہیز جو والدین اپنی بیٹی کو دے سکتے ہیں وہ تعلیم اور اچھی تربیت ہے۔ لیکن خواتین بیٹے کا رشتہ دیکھتے وقت صرف اس چیز کو مدنظر رکھتی ہیں کہ یہ آئے اور آ کر گھر سنبھالے۔ اسے گھر کے تمام کام آتے ہوں۔ اسکی تعلیم‘ تربیت اور صلاحیتیں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ لڑکی سسرال جاتی ہے اور پھر گھر کے کاموں میں ایسی الجھتی ہے کہ وہ تعمیری اور تخلیقی کاموں کا تصور بھی نہیں کر سکتی‘ اس نے زندگی میں اگر کچھ کرنے کے خواب دیکھے ہوتے ہیں تو وہ گھر کے کام کاج میں پھنس کر کہیں مر جاتے ہیں۔ میرے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھنے والی تمام دوستیں اس وقت سسرال کے کاموں میں اس قدر الجھ چکی ہیں کہ وہ کچھ اور کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتیں۔ لڑکی جب گھر آتی ہے تو سسرال کے وہ تمام کام جو اسکے آنے سے پہلے بھی ہو رہے ہوتے ہیں پھر وہ ہونا بند ہو جاتے ہیں۔ اور پھر وہ کوئی اور کر ہی نہیں سکتا۔ رشتہ لیتے ہوئے ویسے یہ کہنا کہ ہمیں بہو چاہیے انتہائی نامناسب ہے۔ ایسا کہنا درست ہے کہ ہمیں کام والی چاہیے لیکن ہم اسے بہو پکار کر معاشرے میں عزت کا سٹیٹس ضرور دے دینگے۔ اسلام عورت پر گھر کے کام کاج بالکل بھی فرض نہیں کرتا عورت چاہے تو اپنے ساس سسر کی خدمت کرے یہ خدمت اسکی طرف سے احسان ہو گا‘ اگر نہ کرے تو اس پر دین کی طرف سے جبر نہیں۔ اول مرد کا فرض ہے کہ وہ عورت کو نوکر مہیا کرے اگر نہیں کر سکتا تو عورت جو بھی تعاون اسکے ساتھ کرتی ہے اس پر مرد کو عورت کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں تو کھانے میں نمک بھی زیادہ ہو جانے پر عورت کو تشدد کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے۔ ماں جو بچے کو دودھ پلاتی ہے اس کی قیمت بھی ادا کرنا مرد پر فرض ہے لیکن ہمارے ہاں عورت کو کھانے کیلئے مکمل غذا تک نہیں ملتی دودھ کے پیسے ادا کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔ دین اور قانون کتابوں میں محفوظ ہیں۔ عملی طور پر ہم وہ راہب ہیں جنھوں نے بائیبل کو چھپائے رکھا اور انکی صرف وہ تعلیمات جن میں انکے حقوق بیاں کئے گئے تھے لوگوں کو بتاتے لیکن اپنے فرائض کا سارا حصہ ان سے چھپائے رکھا۔ ہم نے بھی کچھ ایسا ہی کیا ہے دین کا نام تو لیتے ہیں لیکن دین کی وہ تمام تعلیمات جو عورت کے حق اور ہمارے فرائض کے حوالے سے ہیں انھیں چھپائے رکھتے ہیں اور اپنے حقوق کا پرچار کرتے رہتے ہیں۔ تقاریر اور مجلسوں میں یہی سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ عورت کے دو تین حقوق ہیں اور وہ اسے اچھی طرح مل رہے ہیں۔ دراصل ہم منافق اور دوغلے ہیں۔
موہے اگلے جنم بیٹی نہ کیجیو
Mar 26, 2016