پانی نعمت یا زحمت ؟

صاف پانی صحت مند زندگی کی ضمانت اور ہر انسان کا بنیادی حق ہے ۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی 2010 کی قرارداد کیمطابق صاف محفوظ پانی کی فراہمی اور گندے پانی کی نکاسی آب بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے، صاف پانی کی فراہمی کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور ارباب اختیار وپالیسی کی توجہ اس طرف مبذول کروانے کیلئے 22 مارچ کو ’’ورلڈ واٹر ڈے‘‘ پانی کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔2017میں عالمی سطع پرآج کا دن "WasteWater" عنوان سے منایا جارہاہے ۔ پانی اگر انسانی زندگی کیلئے ضروری ہے تو دوسری طرف حیوانات اور نباتات کیلئے بھی پانی اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے اور جہاں پانی کا حصول مشکل ہو وہ علاقے بنجر اور قحط سالی کا شکار ہو جاتے ہیں اور موت ڈیرے ڈال لیتی ہے۔ اسی لئے پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے دنیا بھر کے ممالک میں ڈیم بنائے جاتے ہیں، جس سے توانائی کا حصول سمیت اور بہت سے فوائد حاصل کئے جاتے ہیں۔ گزشتہ برس اقوام متحدہ نے پاکستان سمیت دنیا کے 193 ممالک اور23 بین الاقوامی تنظیموںکی متفقہ رائے سے ترقیاتی ترجیحات کے تعین کیلئے سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز یعنی پائیدار ترقیاتی اہداف مقرر کیے۔ ان 17اہداف میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور استعمال شدہ پانی کی نکاسی کو یقینی بنانے کا ہدف بھی مقرر کیا گیا ہے۔ اگرچہ کرہ ارض کا 75 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہے لیکن اس پانی کا 97.5 فیصد حصہ کھارا ہے جبکہ صرف 2.5 فیصد پانی میٹھا ہے۔ جنوبی ایشیاء سمیت دوسرے خطوںمیں پانی کے مسائل قدرتی وجوہ کے ساتھ بیڈ گورننس کی بدولت ہیں۔ اگرچہ جنوبی ایشیاء میں کل زمین کے ایک تہاتی قابل استعمال پانی کے ذخائر ہیں لیکن یہاں کے لوگوں کو کل کرہ ارض کے 43,659 ارب مکعب میٹر سالانہ قابل استعمال پانی کا صرف 4.2 فیصد یعنی 1945ارب مکعب میٹرپانی دستیاب ہے۔ اگر وطن عزیز پاکستان کی صورتحال کا جائزہ لیں تو پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی ہمارے ملک کو درپیش ایک اہم مسئلہ ہے۔اندازے کے مطابق پاکستان میں 38.5 ملین افراد کی پینے کے صاف پانی تک رسائی نہیں ہے جبکہ ہمارا ملک چند دہائی پہلے پانی سے مالامال تھا لیکن اب عالمی بنک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان پانی کی قلت کے شکار 17 ممالک میں سے ایک ملک ہے۔ پاکستان کونسل فار ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی نگرانی میں ملک بھر کے 24 اضلاع اور 2807 دیہات سے اکٹھے کیے گئے پانی کے نمونوں کے ٹیسٹ کیے گئے تو یہ خوفناک انکشاف ہوا کہ 62 سے 82 فیصد پینے کا پانی انسانی صحت کیلئے نقصان دہ ہے۔ ان ٹیسٹوں کے نتائج سے پتا چلا ہے کہ پانی کے اکثر نمونے بیکٹیریا، آرسینک (سنکھیا)، نائٹریٹ اور دیگر خطرناک دھاتوں سے آلودہ تھے۔ پانی میں موجود مضر صحت جراثیموں کی موجودگی سے ہیضہ، ڈائریا، پیچس، ہیپاٹائٹس اور ٹائیفائیڈ جیسی بیماریاں عام ہو رہی ہیں جبکہ پانی میں موجود آرسینک جیسی مضر صحت دھاتوں کی موجودگی مختلف اقسام کی ذیابیطس، جلدی امراض، گردوں کی خرابی، امراض قلب، بلند فشار خون، بچوں میں پیدائشی نقائص اور کینسر جیسی بیماریوں کی وجہ بن سکتی ہے۔ مالیاتی لحاظ سے جائزہ لیا جائے تو ملک کو آلودہ پانی کی وجہ سے ہونیوالے امراض اور دیگر مسائل کے باعث سالانہ 110 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوتا ہے۔ جنوبی پنجاب ،اندرون سندھ ،بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کے بہت سے پسماندہ علاقوں میں واٹر سپلائی اور سوریج کا نظام نہ ہونے کے برابر ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں میں تھر میں سینکڑوں بچوں کی اموات غذائی قلت اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے ہوئی ہیں مگر ارباب اختیاروپالیسی کا اس اہم مسئلہ کی طرف توجہ نہ کرنا لمحہ فکریہ ہے۔ منسٹری آف انوائرمنٹ کی ’’کلین ڈرنکنگ واٹر پالیسی 2009ئ‘‘ کیمطابق ملک میں غیر معیاری پانی اور سینی ٹیشن سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے باعث معیشت کو سالانہ 112 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے، یومیہ 30 کروڑ روپے پانی کے باعث ہونیوالی بیماریوں کی نذر ہو رہے ہیں۔ ان اخراجات میں سے 55 سے 80 ارب صرف ڈائریا سے متعلقہ بیماریوں کی وجہ سے ضائع ہو رہے ہیں۔ سمجھا جاتا تھا کہ دریاؤں اور ندی نالوں کی نسبت زیر زمین پانی صحت کیلئے زیادہ محفوظ ہے مگر تحقیق کے نتائج کچھ تسلی بخش نہیں آئے، زیر زمین پائی جانیوالی چٹانوں سے فلورائیڈ مسلسل پانی میں شامل ہوتا رہتا ہے اور فلورائیڈکی زیادہ مقدار پوائزننگ کا باعث بنتی ہے۔ اسکے علاوہ سیورج کا پانی، بارش کا پانی سب بہہ کر زیر زمین جمع ہوتے ہیں۔ پانی خواہ دریاؤں، جھیلوں میں ہو یا زیر زمین ذخیرہ ہو دن بدن آلودہ ہو رہا ہے، اسکی وجہ انسان کے بنائے ہوئے کارخانے اور ان میں بننے والی مختلف مصنوعات ہیں، زراعت اور اس میں استعمال ہونیوالی ادویات بھی پانی کو آلودہ کر رہی ہیں، ان سب عوامل کے پیچھے دن دگنی رات چگنی بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی، ٹریفک، نقصان دہ مصنوعات اور بہت سے عوامل نے مل کر پانی کو اس حد تک آلودہ کردیا ہے کہ ہر سال 4 ملین پاکستانی گندے پانی کی وجہ سے بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔
صاف پانی کے ہر قطرے میں زندگی پوشیدہ ہے اس لیے اسکی حفاظت ہمارا انفرادی اور اجتماعی فریضہ ہے۔ معاشرتی سطح پر پانی کے استعمال میں کفایت اور صاف پانی کو ذخیرہ کرنے کے منصوبو ں پر فوری توجہ نہ دی گئی تو پوری نوعِ انسانی کو مستقبل میں بڑی آزمائش کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پاکستان میں پانی کی آلودگی کا اندازہ کچھ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ شہروں سے خارج ہونے والے آلودہ پانی کی صرف 8 فیصد مقدار اور صنعتی آلودہ پانی کی محض ایک فیصد مقدار کو ہی ٹریٹمنٹ کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔ یہی پانی ہمارے آبی ذخائر کو آلودہ کرنے کا باعث بنتا جو انسانی زندگی کیلئے خطرے کا باعث ہے۔بدقسمتی ہے کہ صاف پانی کی فراہمی جیسی بنیادی ضروریات زندگی کو پہلی ترجیح نہیں بنایا جا رہا۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ صاف شفاف، صحت مند اور منرلز سے بھرپور پانی فراہم کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں۔ سمندری پانی صاف کرنے کے پلانٹ لگائے جائیں اورگھروں میںپانی کی سپلائی کے پائپوں کو صاف رکھنے کا مستقل نظام بنایا جائے۔

ای پیپر دی نیشن