”عوامی مشکلات کا حل ‘

جمہوری حکومت اگر عوام کی” فلاح و بہبود“ کے کام نہیں کرے گی ،عوام کے مسائل” جوں کے توں“ ہی رہیں گے۔ تو پھر کسی کو تو آگے بڑھنا ہو گا ،جو عوامی فلاح کے کام کرے اور عوام کو ان کی” دہلیز پہ انصاف“ مہیا کرے ۔عدلیہ اگر عوامی مسائل پر” ایکشن “لے رہی ہے، تو عوام خوش ہیں کیونکہ انکے مسائل حل ہو رہے ہیں ۔اس وقت عدلیہ” ملکی تاریخ“ کا سب سے ”فعال کردار“ ادا کر رہی ہے ۔ کسی علاقے میں اگر سٹرک خراب ہے تو بھی عوامی نمائندوں سے پوچھا جا رہا ہے کہ آپ نے فنڈز کہا ں خرچ کیے ؟ حجرہ شاہ مقیم میں اہل علاقہ گلی میں” پانی کے جوہڑ“ سے” جنازہ“ اٹھائے گزرے تو میڈیا نے اس منظر کو اعلیٰ حکام تک پہنچایا ۔چیف جسٹس پاکستان نے اس پر ایکشن لیا اور وارڈ کونسلر سے لیکر ایم این اے اور ایم پی اے کو طلب کر لیا کہ آکر عوام کے پیسوں کا حساب دیں کہ فنڈز کہاں گئے ؟گلیاں جوہڑ کا منظر پیش کر رہیں لیکن سول حکومت ”ٹس سے مس“ نہیں ہوئی ۔یہ عوامی مسئلہ ہے ۔یہ کام جمہوری حکومت کے کرنے کا تھا لیکن اسنے نہیں کیا تو مجبورا عدالت کو اس پر ”ایکشن “لینا پڑا۔اس وقت ملک طرز حکمرانی میں” مضمر خرابیوں“ کی اصلاح اور عدلیہ و میڈیا کی فعالیت کے غیر معمولی دورانیے سے گزر رہا ہے۔بیڈ گورننس سے متعلق پوری سیاسی ، سماجی، معاشی اور انتظامی صورتحال پر عدالت عظمیٰ کی گراف پہلے سے زیادہ موثر اور نتیجہ خیز تبدیلیوں کے اشارے دے رہی ہے، جب کہ ریاستی ،حکومتی اور دیگر انتظامی شعبوں کی” تطہیر “کے حوالے سے ایسے سیاسی معاملات بھی عدالتوں تک آپہنچے ہیں۔ جو خالص جمہوری حکومت ست تعلق رکھتے ہیں ۔یوں تو ملک بھر کے ہسپتالوں کی حالت زار انتہائی نا گفتہ بہ ہے لیکن بڑے شہروں میں قائم سرکاری ہسپتالوں کا برا حال ہے ۔ کراچی کے اسپتالوں کی حالت زار، صوبے کے میڈیکل کالجز میں داخلوں کے معاملات، اہم شخصیات کی آمدورفت پر” روٹ“ لگا کر سڑکیں بند کرنے ، میڈیکل کالجوں اور جامعات کے معیار تعلیم، ملک بھرکی جیلوں میں پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی پر چیف جسٹس پاکستان نے نوٹس لیے ہیں ۔تو اسمیں جرم کیا ہے ؟جوڈیشل ماشل لاءکا پروپگنڈا کیوں کیا جا رہا ہے ۔اگر حکومت یہ کام خود کرتی تو عدالت کو اس پر ایکشن لینے کی ”قطعا “ضرورت نہ پڑتی ۔اس وقت لا اینڈ جسٹس کمشن کی رپورٹ کے مطابق عدالتوں میں 18لاکھ سے زائد مقدمات زےر سماعت ہےں ایک مقدمہ کے فیصلہ میں اوسطاً15سے 20 سال لگ جاتے ہیں۔ سول کورٹ کے ایک جج کو ایک دن میں 150 سے 200 مقدمات کی سماعت کرنا ہوتی ہے او رصرف ایک جج کا انہیں جلد نمٹانا عملی طور پر ناممکن ہے، ایک سول جج کو مذکورہ تعداد میں کیس سننے کے دوران ایک کیس میں ڈیڑھ سے دو منٹ لگتے ہیں۔اگر عوامی مسائل حکومت خود حل کرے توعدلیہ اپنے” کیسز نمٹائے “اسے کسی دوسرے کام میں مداخلت کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ایک اور عوامی مسئلہ میڈیکل کالجز کی فیسیں ہیں ۔ میڈیکل کالج کی سالانہ فیسیں نہ صرف لاکھوں روپے ہیں بلکہ داخلہ لینے کی مد میں بھی طالب علموں کو دس سے پندرہ لاکھ روپے” ڈونیشن“ کے نام پر ادا کرنا پڑتے ہیں جبکہ ان کی سالانہ فیس آٹھ سے دس لاکھ روپے ہے لیکن ہر سال کالج انتظامیہ کی طرف سے داخلے کے لیے میرٹ کا نعرہ لگایا جاتا ہے۔اگر ایک بچہ یا بچی لاکھوں روپے خرچ کر کے ڈاکٹر بنے کا تو پھر وہ اسی تناسب سے ”پیسے کمائے“ گا ۔ جس کے باعث غریب عوام کو” علاج معالجے “کے شدید مشکلات کا سامنے کرنا پڑے گا ۔ ملکی سطح پر اسٹنٹس کی تیاری کیلئے ایٹمی سائنسدان کو 37 ملین روپے جاری کیے گئے لیکن 30 ملین کی تو صرف مشین ملی لیکن اسٹنٹس پھر بھی تےار نہ ہو سکا ۔اب عدلیہ کے نوٹس لینے پر ہی لاکھوں روپے کی لاگت سے تیار ہونے والا اسٹنٹ صرف 15ہزار روپے میں تےار ہونا شروع ہو چکا ہے ۔اس وقت انصاف کی راہ میں” رکاوٹوں“ کے پہاڑ کھڑے ہیں، سستا انصاف بھی میسر نہیں، پینے کا صاف پانی شہریوں کو دستیاب نہیں۔ ہر شے میں ملاوٹ، جب کہ واٹر ٹینکر مافیا مادر پدر آزاد اور ہزاروں گیلن پانی کی فروخت سے کروڑوں کماتی ہے، حفظان صحت کی بنیادی سہولتوں کے” فقدان“ کی وجہ سے تھر میں بچوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ ہے ۔لیکن حکومت نے اس پر ”چپ سادھ“ رکھی ہے ، نوکر شاہی کی کرپشن ، وزرا کے اللے تللوں اور بے محابا کرپشن کی داستانوں کی میڈیا میں تشہیر سے شاید اشرافیہ کی ”عزت نفس “مجروح ہوتی ہے چاہے افتادگان خاک کا کوئی والی وارث نہ ہو، یہی مسئلہ کی اصل” جڑ “ہے ، عدلیہ اس پر ان ایکشن ہے ۔ عدالتی فعالیت وہ آنکھ ہے جو ادارہ جاتی جمود اوربد نظمی و بدعنوانی کو لگام دینے پر کمر بستہ ہوجاتی ہے،آج کی عدلیہ نظریہ ضرورت سے کوئی تعلق نہیں رکھتی، اسے قوم و ملک کی حالت زار اصلاح احوال کے لیے غیر روایتی اور جراتمندانہ فیصلوں کی طرف مائل کرتی ہے۔انسان کا وجود اور انصاف کی طلب ایک دوسرے سے جد ا نہیں ہوسکتے۔ چھوٹے سے چھوٹے معاشرے میں بھی کسی انسان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہوگی اوراس بناءپر اختلافات جنم لیتے ہوں گے اور ان مسائل کے حل کیلئے وہاں کوئی ایسا شخص بھی موجود ہوگاجس کی ایمانداری پر سب کو” اعتماد“ ہوگا۔ جسے وہ منصف سمجھتے ہوں گے۔ انصاف کی یہ ابتدائی شکل ارتقائی مراحل طے کر تے ہوئے آج ایک ادارے کی شکل اختیار کر چکی ہے منصف میں غیرجانبداری، آزادی، سوچ اور دیانتداری کے عناصر ساتھ ساتھ چلتے رہے۔جس کے باعث ہی وہ سب کا ہیرو بنتا ہے ۔ہم اپنے عدل و انصاف کے نظام کا جائزہ لیں تو اسے قابل رشک قرار نہیں دیا جا سکتا۔لیکن اس وقت عدالتی فعالیت نے اسے عوام کی نگاہوں کو” مرکز ومحور“ بنا رکھا ہے آج کا سب سے بڑا ناسور کرپشن ہے۔ کرپشن نے ادارے تباہ کر دیئے۔ ملکی وسائل برباد کر دیئے، عدلیہ کےلئے کرپشن بہت بڑا چیلنج ہے۔ اداروں کو تباہ کرنے اور ملکی وسائل لوٹنے والوں کو کوئی راستہ نہیں ملنا چاہئیے۔ ان کے گرد قانون کا”آہنی شکنجہ “کسا جانا چاہئیے۔ ایک عدلیہ کے فعال ہونے سے معاشرے میں انصاف کا بول بالا اور امن کا دور دورہ ہو سکتا ہے جو ترقی و خوشحالی کا ضامن ہوتا ہے ۔لیکن اگر یہ سارے کام جمہوری حکومت کرے تو اس کی نیک نامی میں ہی اضافہ ہوتا ہے ۔


ق

ای پیپر دی نیشن