”یہ فن انہی کو آتے ہیں “

Mar 26, 2018

بریگیڈیئر (ر) محمود الحسن سید

جمہوریت کی اصل روح اس کی شفافیت اور اصولوں کی پاسداری میں مضمر ہے لیکن ملک کے قیام سے اب تک سیاسی منظرپر رونما ہونے والے عجیب و غریب Bizarre اور غیر معمولی واقعات اس بات کا ناقابل تردید ثبوت ہیں کہ ہمارے یہاں سیاست میں سب کچھ ممکن ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال حال میں ہونے والے سینٹ کے الیکشن میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا چنا¶ ہے۔
ملک میں موجود مختلف سیاسی پارٹیوں میں صوبائی اور وفاقی سطح پر ہر ممکن صورت حال کے نتیجے میں ہر لحاظ سے مسلم لیگ (ن)کو کامیاب ہونا چاہئے تھا۔ لیکن حزب اختلاف کی تمام پارٹیاں پوری تندہی سے اسے ناکام بنانے میں مصروف رہیں۔ لاہور میں پی پی پی ۔ پی ٹی آئی کے جلسے کی ناکامی کے بعد پس پردہ گٹھ جوڑ اور رشوت ستانی کا کاروبار شروع ہوگیا۔ اس کے نتیجے میں پہلے مسلم لیگ(ن)کو بلوچستان میں سینیٹرکے انتخابات مں شکست ہوئی اور آزاد امیدوار کامیاب ہوئے جو کہ خالصتاً Horse Trading کے ذریعے ہوا۔ اس ضمن میں آصف علی زرداری کو مورزہِ الزام ٹھہرایا جارہا ہے۔ جو اس قسم کی چالبازیوں کے لئے بہت مشہور ہیں۔ علاوہ ازیں کے پی کے پنجاب اور سندھ میں بھی یہی کہانی دھرائی گئی جو کہ ملک میں Horse Trading کا "منفرد"واقعہ ہے۔ کیونکہ اتنی زیادہ دھاندلی پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔
ادھر عمران خان نے سینٹ کے انتخابات سے چند دن پہلے ایک بیان میں زور دے کر کہا کہ ان کی پارٹی کا پی پی پی سے اتحاد کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بقول ان کے اس کا مطلب پچھلے بائیس سالوں میں ان کی زرداری صاحب کے خلاف بد عنوانی کے تمام الزامات کی نفی ہوجائے گی ۔ پھر عوام نے عمران خان کو U Turn لیتے ہوئے دیکھا جب انہوں نے یہ بیان دیا کہ ان کی پارٹی کے سینیٹربلوچستان میں آزاد امیدوار کو ووٹ دیں گے۔ جو کہ در پردہ پی پی پی سے گٹھ جوڑ کا نتیجہ تھا اور اس کا واحد مقصد مسٹر نواز شریف کو نیچا دکھا نا تھا۔فاٹا میں بھی اسی قسم کا کھیل کھیلا گیا اور دولت کا استعمال ہوا۔ مندربالا حقائق کی روشنی میں یہ کہنا کہ سینٹ انتخابات میں جمہوریت کو فروغ اور حاصل ہوا ہے سراسر غلط بیانی پر مبنی ہے۔ کیونکہ جمہوریت کس طرح مضبوط ہوسکتی ہے جبکہ ہمارے سیاسی رہنما تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر اس نظام کے بنیادی اصولوں سے انحراف کریں۔ نیز اس سے ایک اور بات جو کہ کھل کر سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ ہماری سیاست میں Morality & conscience یعنی اخلاق اور ضمیر قسم کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ اور ہمارے سیاست دان سیاست کو کاروبار یا صنعت کا درجہ دیتے ہیں تاکہ وہ کسی نہ کسی طرح حکومت میں آجائیں اور پھر دولت اکٹھی کرکے اپنی تجوریاں بھرلیں۔
حزب اختلاف کی موجودہ کامیابی کے دور رس نتائج نکلنے کے کوئی روشن امکانات موجود نہیں کیونکہ PML N اب بھی سینٹ میں اکثریتی پارٹی ہے۔ اور عام انتخابات زیادہ دور نہیں اور حزب اختلاف PML N کو خاص طور پر صوبہ پنجاب میں شکست دینے میں کامیاب نہیں ہوسکے گی۔جہاں تک پی پی پی کا تعلق ہے تو اس کا صوبہ پنجاب میں کامیابی کے امکانات قطعی طور پر مفقود ہیں۔
دراصل اس سیاسی پارٹی میں آصف علی زرداری کی موجودگی ہی اس کی تنزلی اور بے توقیری کی اصل وجہ ہے۔ نیز بلاول بھٹو بھی اپنی پارٹی کو صحیح خطوط پر چلانے میں ناکام رہے ہیں کیونکہ دراصل وہ اپنے والد کی ہی تقلید کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے انہیں عوام میں پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی۔ سیاسی افق پر ایک اور بہت اہم Development عمران خان کی سازش اورVendetta یعنی انتقامی رویے کی صورت میں ہوئی ہے۔ جس کے ذریعے وہ موجودہ حکومت کو اقتدار سے محروم کرنا چاہتے تھے۔ اس سے ان کی اپنی ساکھ کو بے حد نقصان اٹھانا پڑا ہے اور حال ہی میں پی ٹی آئی کی لودھراں کے ضمنی انتخابات میں ناکامی اسی کا نتیجہ ہے۔پارٹی نے اپنا تشخص برقرار رکھنے کی بجائے دوسروں کو عوامی پذیرائی کا موقع فراہم کیا ہے۔ پارٹی ایجنڈا اور اس پر عمل درآمد اس کی کامیابی کا ذریعہ ہوتا ہے۔ لیکن مذکورہ پارٹی میں استقامت کی کمی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنا وقار کھو رہی ہے۔
اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں کہ نا اہلی کے باوجود عوام PML N پر بھروسا کررہے ہیں کیونکہ اس وقت ان کو ملک میں کوئی اور پارٹی یا لیڈر قابل اعتباردکھائی نہیں دے رہا۔ پنجاب کے عوام خاص طور پر پی پی پی کے چیئرمین کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے اس لیے عمران خان کو عوامی سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے مستقل مزاجی اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ PML N ابھی تک ملک کی سب سے مضبوط اور کامیاب سیاسی پارٹی ہے اور وہ اپنے 5 سالہ دور میں کی Achivement یعنی کامیابیوں کو مثبت طور پر اگلے انتخابات میں استعمال کر سکے گی جن میں بجلی کے بحران کا خاتمہ ،کراچی میں امن و امان کی بہتر صورت حال اور ملک میں تخریب کاری میں نمایاں کمی شامل ہیں۔
چند اشعار ہمارے سیاست دانوںکے بارے میں
یہ فن انہی کو آتے ہیں
دھن کیسے کمائے جاتے ہیں
اس فن کو سیاست کہتے ہیں
اسے قوم کی خدمت بتاتے ہیں
٭٭٭٭

مزیدخبریں