ترکی کے ایک اخبار کے حوالے سے پاکستانی اخباروں میں یہ خبر لگی ہے کہ عنقریب ترک حکومت ایک مشترکہ مسلم فوج تشکیل دینے جارہی ہے جس کا مقصد مسلم دنیا کو اسرائیل کے مظالم سے بچانا اور قبلہ ِ اول کی آزادی ہوگا ۔ساتھ میں یہ بھی لکھا ہے کہ اس خبر کی حقیقت کے سامنے آتے ہی اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکی حکومت کی نیندیں بھی حرام ہو جائیں گی ۔
ایک طرف امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور ہے تو دوسری طرف امریکہ کا ناجائز بچہ کہلانے والا اسرائیل ہے جس کی کل آبادی ہمارے ایک شہر سے بھی کم ہے مگر اس چھوٹے سے ملک نے دنیا کو اپنی انگلیوں پہ نچا کے رکھا ہوا ہے۔ ہم یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ آبادی اور رقبے میں چھوٹا ملک اسرائیل دنیا کے بڑے بڑے ملکوں خاص کر اسلامی ملکوں کو بلکل بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ابھی قریب ایک صدی پہلے ہی ہٹلر نے یہودیوں کو جس عذاب سے گزارا تھا مگر یہودی دنیا میں جہاں جہاں آباد تھے وہ اپنی قوم سے وفا کا سبق یاد کرنا نہیں بھولے۔
انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والی سختیوں پر ماتم کرنے کی بجائے اپنے انداز میں دنیا میں اپنا مقام بنانے کی ٹھان لی۔ انہوں نے دنیا کی معیشت کو اپنی مٹھی میں قید کرنا شروع کیا اور چھوٹا ملک ہونے کے باوجود اپنی سلامتی کے لیے کسی خطرے کا اظہار نہیں کرتے دوسری طرف پاکستان میں مسندِ اقتدار پر بیٹھنے والوں نے اس ملک کو امن و محبت کا گہوارہ بنانے کی بجائے فرقہ پرستوں اور لسانیت کی آگ بھڑکانے والوں کے حوالے کردیا ۔ملک کے قائم ہوتے ہی طبقاتی تفریق شروع ہو گئی جن کے پاس پیسہ اور طاقت تھی وہ امیر سے امیر تر ہوتے چلے گئے اور جو پہلے ہی پسے ہوئے طبقے کی نمائندگی کر رہے تھے وہ مزید مشکل حالات کا شکار ہوتے رہے۔
ملک میں کبھی بھی عوامی حکومت مضبوط نہ ہو پائی ۔ ہر دور میںطاقت ور ادارے خود کو عقلِ کل سمجھتے ہوئے اپنے انداز میں ملک کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتے رہے اور سیاسی راہنما ہر دور میں اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل سنوارنے کے لیے ملکی مفادات کا سودا کرتے رہے۔ تعلیم کی طرف مناسب توجہ نہ دینے کی وجہ سے پڑھے لکھے جاہل پیدا ہوتے رہے۔ جس کی وجہ سے ملک میں ہر دور میں مذہب اور حکومت خطرے میں ہی رہے ہیں۔آج اس ملک میں مذہب کے نام پر سیاست ہو رہی ہے۔ ہمارے علماء جب چاہتے ہیں جیسے چاہتے ہیں عوام کو سڑکوں پہ لا کے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی دھمکیوں ہیں ۔ریاست کی کہیں رٹ نظر نہیں آتی۔ ملک میں ہر روز دھرنےٟ احتجاج ٟافرا تفری اور بے سکونی معمول بن چکا ہے ۔آج پاکستا ن کا منظر نامہ بہت بھیانک تصویر دکھا رہا ہے ۔نہ کسی کی عزت محفوظ ہے اور نہ کسی کی جان و مال محفوظ تصور کی جاسکتی ہے ۔لوگ ہر بات کو سو سو انداز میں بیاں کرتے ہیں۔ چاہے حکومت کی بات ہو ٟمعیشت کی بات ہو یا مذہب کی بات کی جائے عوام کو عجیب بے چینی کی کفیت میں لا کھڑا کر دیا گیا ہے ۔آج ہماری معیشت زوال پذیر ہے پاکستانی روپے کی قیمت مسلسل گر رہی ہے مگر ہم بڑی شا ن کے ساتھ اپنا قومی دن منا رہے ہیں۔ ایک طرف ہماری عسکری طاقت کا رعب ہمارے دشمنوں کی نیندیں حرام کر رہا ہے ۔تو دوسری طرف میرا یہ پیارا ملک قرضوں کے بوجھ تلے ڈوبتا چلا جارہا ہے۔23مارچ تجدید عہد کا دن ہے اس دن کو یاد کرنے کا مقصد یہ بھی تو ہونا چاہیے کہ ہم اپنے نئی نسل کو بتائیں کہ وہ کون سے حالات تھے جن کی وجہ سے ہمارے قائدین نے ایک الگ وطن کا مطالبہ کیا تھا۔
ہمارے اسلاف نے کیوں ایک متحدہ ہندوستاں میں رہنے کی بجائے ایک الگ وطن کا حصول مقصدِ حیات بنا لیا تھا ۔ایک جیسی آب و ہوا میں رہنے والے لوگ ایک جھنڈے تلے کیوں نہ رہ پائے۔آج بھارت میں مسلمانوں کی جو حالت ہے یہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہوگا ۔آج کے بھارت میں مسلمانوں کی نہ تو مذہبی عمارتیں محفوظ ہیں اور نہ وہاں ان کی مذہبی آزادی باقی ہے ۔حالت تو یہ ہے عیدِ قربان پہ بڑے بڑے علما کو ٹی وی پہ بُلا کے ان سے گائے قربانی کے خلاف بیان دلوائے جاتے ہیں یہ سب دیکھ کے ہمیں اپنے اسلاف کی سوچ اور کوششوں کی قدر کرنا بہت آساں ہو جاتا ہے ۔مگر لفظ لکھنے سے لفظ بولنے سے کچھ نہیں ہوتا۔
ہمیں عملی طور پر اس وطن کی قدر کرنا ہے۔ جی ہاں یہ سچ ہے کہ ظاہری طور پر نظر آنے والا وطن دشمن چاہے بھارت ہو یا کوئی اور ہو ہماری ساری قوم اس کے خلاف ایک ہو کے لڑنے کو ہمیشہ تیار رہی ہے اور انشاء اللہ تیار رہے گی مگر ہم اپنے اندر چھپے آستین کے سانپوں کو مسلنے کے صلاحیت سے محروم ہو چکے ہیں ۔ہماری آستینوں میں پلنے والے سانپ جب چاہتے ہیں ہمیں ڈس لیتے ہیں ہم روتے ہیں بلبلاتے ہیں۔ بھاگتے ہیں، دوڑتے ہیںآہ و فریاد کرتے ہیں مگر آستیں میں پلنے والے سانپ کو دودھ پلانا جاری رکھتے ہیں ۔ہمیں آج یہ سوچنا ہوگا کہ جس طرح سے ہم نے محنت سے تدبیر سے اپنی عسکری قوت کو بڑھایا ہے اسی محنت ویسی ہی تدبیر سے اپنی معیشت کو بھی مضبوط کرنا ہوگا ۔آج ہم عسکری لحاظ سے دنیا کے طاقتور ترین ملکوں میں شمار ہوتے ہیں اگر ساتھ ہماری تعلیم ٟصحت کا معیار بہتر ہوجائے تو ہماری معیشت بھی بہتر ہو جائے گی۔ معیشت بہتر ہوگی تو ہم قرض کے لیے جھولیاں پھلائے اغیار کے در پہ حاضری نہیں لگوائیں گے ہمیں فرقوں گروہوں اور طبقوں میں تقسیم ہونے کی بجائے ایک قوم بن کے جینے کا ڈھنگ سیکھنا ہوگا ۔پھر ہی عملی طور پرہم اپنے فیصلے خود کر پائیں گے تو ہم نہ صرف اپنے ملک کا دفاع کرنے کی صلاحیت برقرار رکھ پائیں گے بلکہ کشمیر ٟفلسطینٟ شامٟ برما ٟیمن اور دوسرے بہت سے محکوم و مجبور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ حرمین شریفین کی حفاظت کے لیے بھی ہم تیار کھڑے نظر آئیں گے۔ حرم کی پاسبانی کے لیے مسلم فوج کا بنایا جانا بہت ضروری ہے مگرہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ جنگیں فوج نہیں بلکہ قوم جیتا کرتی ہیں ۔
پاکستان زندہ باد ۔پاک فوج تابندہ باد