سسکتے ہوئے جیالے

محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جیالے مسکینوں جیسی زندگی گزار رہے تھے مگر پارٹی کی موجودہ قیادت کے رویے سے ملک بھر کے جیالے اور جیالیاں سیاسی شہید بھی بن چکے ہیں، خاص طور پر وہ لوگ جو اب ادھیڑ عمر ہونے کے قریب ہیں انہوں نے قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کے سنہرے دور کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوا ہے جو ایک عزم اور فلسفے کے داعی تھے اور اس کے بعد وہ جیالے جنھوں نے محترمہ بے نظیر شہید کی معیت میں ایک سنہرے خواب کو دیکھا تھا آج وہ اپنے اس خواب کو اپنی آنکھوں سے چکناچُور ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ اخلاقی گراوٹ کی انتہا دیکھیے کہ وہ بی بی شہید جو بحیثیت وزیراعظم، وزیراعظم ہائوس کے کچن میں سلاد ڈریسنگ کی کتنی بوتلیں ہیں کا خیال رکھتی تھیں جو حکومتی خزانے کو ملکی امانت گردانتیں آج اُن کا شوہر اور بیٹا ہزاروں ارب روپوں کی کرپشن میں عدالتوں میں پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ پارٹی کا ملک بھر میں شیرازہ بکھر چکا ہے۔ پانچ سال کا دورِ حکومت مکمل کرنے والی سیاسی قیادت شاید ٹیپو سلطان کے اس قول کو بھول گئی کہ ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے بہتر ہے۔‘‘ قیوم نظامی اور فرخ سہیل گوئندی جیسے دانشور جیالے بھی مایوس ہو چکے ہیں ۔
قارئین! مجھے آج یہ دُکھی کالم لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ لاہور کے مشہور اور ہردلعزیز جیالے امتیاز فاروقی کی مجھے ٹیلی فون کالز موصول ہو رہی تھیں اور میں اُس سے ملنے لارنس روڈ سے متصل اس کی رہائش گاہ پر گیا ، گھر کے ایک لڑکے نے مجھے امتیاز فاروقی کے کمرے تک پہنچایا اور میںیہ دیکھ کر شاک اورحیرت سے ششدر رہ گیا کہ بستر پر ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ پڑا تھا جو مجھے دیکھ کر مسکرانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ جی ہاں دوستو! یہ وہی امتیاز فاروقی تھا جو سات فٹ قد اور صحت مند جُثے کے ساتھ لاہور کا سب سے مضبوط، بہادر اور فرنٹ لائن جیالا تھا۔ جنرل ضیاء کی آمریت ہو یا مشرف کی ڈکٹیٹر شپ یا شریف برادران کی مطلق العنانی امتیازفاروقی ہمیشہ لاٹھی چارج سہتا ہوا ہر رکاوٹ کو روندتا ہوا آگے بڑھتا تھا تو ظلم اور جبر بھی تھک جاتا تھا مگر امتیاز فاروقی کے حوصلے کبھی پست ہوئے دکھائی نہ دیتے تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اسے پیپلزپارٹی کی دیوار ِ چین کہتی تھیں۔ سینیٹر جہانگیر بدر (مرحوم) اسے پیپلزپارٹی لاہور کا شیر کہتے تھے۔ ایک دفعہ جلوس نکالنے کا پروگرام بنا تو سابق گورنر سلمان تاثیر (مرحوم) نے یہ کہہ کر امتیاز فاروقی کو خراج تحسین پیش کیا کہ اتنا بڑا جلوس نکالنے کی کیا ضرورت ہے ہم صرف امتیاز فاروقی کو ہی آگے بھیج دیتے ہیں اور آج چالیس سال سے بھی کم عمر وہ جیالا کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہو کر موت و حیات کی کشمکش میں نظر آیا۔ میں اُسے اس طرح بستر پر مایوس ولاچار دیکھ کر زیادہ دیر اُس کے پاس نہ رُک سکا مگر چند لمحات پرانی یادوں کو یاد کرکے جو اُسے اطمینان ہوا اُسے میں اپنی زندگی کی بڑی کامیابی سمجھتا ہوں۔ امتیاز فاروقی نے مجھے بتایا کہ صوبائی اور مرکزی قیادت صرف ایک سال میں ہی مجھے بھول چکی ہے ۔میاں مصباح الرحمن ، اسلم گِل اور علی بدر ذاتی تعلق کی وجہ سے عیادت کے لیے تشریف لائے تھے۔
میں نے امتیاز فاروقی سے رخصت ہوتے ہوئے اُسے تسلی دیتے ہوئے اتنا ضرور کہا کہ آپ کی خدمات جمہوریت کے متوالوں کے لیے سرمایہ حیات ہیں جس پر اُس نے مجھے بڑے دکھ اور کرب سے جواب دیا مگر پارٹی قیادت میرے ساتھ بے اعتنائی کیوں برت رہی ہے؟ میں اُسے کیا بتاتا لاہور نے بڑے بڑے جیالے اور لیڈر پیدا کیے جن میں اسلم گرداسپوری، میاں سعید اچھرے والے، میاں منیر، طارق وحید بٹ مرحوم، سابق سٹوڈنٹ لیڈر سہیل ملک، افنان بٹ، شہید بابر بٹ، سلیم مغل، مانی پہلوان اور درجنوں دوسرے جیالے جن میں سے جو زندہ ہیں وہ آج بھی پیپلزپارٹی کی عظمتِ رفتہ کی نشانی کے طور پر موجود ہیں مگر آج پیپلزپارٹی پنجاب سمیت لاہور میں وائٹ واش ہو چکی ہے۔ قمر زمان کائرہ ، چوہدری منظور، عزیز الرحمن چن اور منور انجم اس پارٹی کی قیادت ہیں، جس کا اب کوئی وجود باقی نہیں بچا۔ عبدالقادر شاہین اور اورنگ زیب برکی جیسی لیڈرشپ بس اپنی سیاسی عزتیں بچانے کے لیے مسلسل کوشاں ہیں مگر تھر کے غریب باسیوں کی طرح پیپلزپارٹی پنجاب کے جیالے بھی سِسک، سِسک کر سیاسی انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں اور پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت بلاول بھٹوزرداری، آصف علی زرداری ،فریال تالپور، یوسف رضاگیلانی، شرجیل میمن، ڈاکٹر عاصم، خورشید شاہ اور راجہ پرویز اشرف سمیت سبھی کرپشن کی دلدل میں پھنسے دکھائی دیتے ہیں۔ ’’زبان خلق نقارہ خدا ہوتی ہے اور کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘‘ کے مصداق ہوس کے چند پجاریوں نے براعظم ایشیا کی سب سے بڑی قربانیاں دینے والی پارٹی اور فخر ایشیا ذوالفقار علی بھٹو کی وراثت کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔پیپلزپارٹی نے اپنے دورِ حکومت میں پارٹی جیالوں کی بجائے مفاد پرستوں کو ترجیح دی جنہوں نے پیپلزپارٹی کو اقتدار کی طرف بڑھتے دیکھ کر جمپ لگایا تھا مگر پھر اقتدار کو کسی اور طرف جاتا دیکھ کر اگلے سپیڈ بریکر پر وہ جمپ لگا کر پیپلزپارٹی کی گاڑی سے فرار ہو چکے ہیں اور اب آخر میں پیپلزپارٹی میں صرف امتیازفاروقی جیسے ڈھانچے رہ گئے ہیں جو ہماری جمہوریت اور چارٹر آف ڈیموکریسی کے منہ پر طمانچہ ہیں۔ امتیاز فاروقی سے رخصت ہوتے وقت اس کے الفاظ میں کانوں میں سیسہ کھول رہے ہیںکہ ’’وڑائچ صاحب زرداری صاحب کی نسل سے قدرت ہم جیالوں کا انتقام ضرور لے گی۔‘‘

ای پیپر دی نیشن