ہمارا دفاعی حصار بھی مضبوط ہے اور مکار دشمن کے بازو بھی ہمارے آزمائے ہوئے ہیں

فضائی اور زمینی حدود کی حفاظت کیلئے پاکستان کے نئے ایئرڈیفنس سسٹم کی تنصیب اور بھارتی جارحانہ عزائم کا تسلسل
پاکستان نے پاک بھارت سرحد پر اپنی فضائی اور زمینی حدود کے تحفظ کیلئے نیا ایئرڈیفنس سسٹم نصب کر دیا ہے۔ یہ سسٹم چینی ساختہ ہے جس میں کم رینج والے زمین سے فضا میں مار کرنیوالے ریڈار اور ڈرون شامل ہیں۔ عسکری ذرائع کے مطابق دفاع کو مزید مضبوط بنانے کیلئے سرحدوں پر زمین سے ہوا میں مار کرنیوالے ایل وائے 80 میزائل اور آئی بی آئی ایس 150 ریڈار کے پانچ یونٹ نصب کئے گئے ہیں۔ یہ انتظامات بھارت کی جانب سے دوبارہ کئے جانیوالے کسی بھی جارحانہ اقدام کو روکنے کیلئے فضائی اور زمینی حدود کی حفاظت کی خاطر کئے گئے ہیں۔ نئے ایئرڈیفنس سسٹم میں میزائلوں اور ریڈار کے علاوہ چینی ساختہ این یو سی ایچ 4 اور این یو سی ایچ 5 ڈرون بھی سرحد پر تعینات کئے گئے ہیں تاکہ بھارت کے کسی بھی جہاز کی آمد کا پیشگی پتہ لگایا جا سکے۔ واضح رہے کہ گزشتہ ماہ بھارت کے جہازوں نے پاکستان کی فضائی حدود میں غیرقانونی طور پر گھس کر بالاکوٹ کے علاقے میں پے لوڈ گرایا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ اس فضائی حملے میں جیش محمد کے کیمپ کو نشانہ بنایا گیا ہے تاہم بھارت اس حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہ کرسکا۔ اس بھارتی حرکت کے بعد دفاع وطن پر کوئی آنچ نہ آنے دینے کی خاطر پاکستان بھارت سرحد پر چینی ساختہ نیا ایئرڈیفنس سسٹم نصب کیا گیا ہے جو بھارت کو دفاع وطن کیلئے قوم اور افواج پاکستان کے مکمل الرٹ ہونے کا ٹھوس پیغام بھی ہے۔
کسی بھی ملک کیلئے اپنے خطے کے حالات اور پڑوسیوں کے عزائم کو پیش نظر رکھ کر دفاع وطن کے تمام ممکنہ اقدامات اٹھانا ضروری ہوتا ہے۔ اس معاملہ میں ہمیں اپنی سرحدوں پر ہمہ وقت الرٹ و چوکس رہنے کی اس لئے بھی ضرورت ہے کہ ہمیں ایک شاطر و مکار پڑوسی ملک بھارت سے پالا پڑا ہے جو اس خطے کے عوام کی ترقی و خوشحالی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہونے دینے کے بجائے پاکستان کی سالمیت کے شروع دن سے ہی درپے ہے اور اس حوالے سے اپنی سازشوں کو وسعت دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا چنانچہ اپنے دفاع کو مضبوط اور دشمن کیلئے ناقابل تسخیر بنانا ہماری ضرورت اور مجبوری بن چکا ہے۔ بھارت نے اس خطے میں اپنے توسیع پسندانہ عزائم ہی کے تحت اپنا دفاعی بجٹ بڑھانا اور اپنی افواج کو ہر قسم کے جدید ایٹمی اور روایتی ہتھیاروں اور گولہ بارود سے لیس کرنا شروع کیا چنانچہ بھارت کا دفاعی بجٹ ہمارے دفاعی بجٹ سے چار گنا سے بھی زیادہ بڑھایا جا چکا ہے۔ بھارتی ہندو لیڈر شپ نے چونکہ پاکستان کی تشکیل اور اسکی خودمختار ریاست کی حیثیت کو پہلے دن سے ہی تسلیم نہیں کیا اور اسکی سلامتی کمزور کرنا اپنی حکومتی بنیادی پالیسیوں کا حصہ بنالیا اور اسی تناظر میں اس نے تقسیم ہند کے فارمولا کے قطعی برعکس ریاست جموں و کشمیر پر اپنا فوجی تسلط جما کر پاکستان کی سلامتی کیلئے خطرات کی گھنٹی بجا دی اس لئے اپنے دفاع کو مضبوط بنانے کے تمام ممکنہ اقدامات اٹھانا ہماری بھی مجبوری بن گئی۔ بانیٔ پاکستان قائداعظم نے بھی بھارتی بدنیتی کی بنیاد پر ہی عساکر پاکستان کو دفاعی لحاظ سے ناقابل تسخیر بنانے کی حکمت عملی طے کی اور جب بھارت نے قبضہ جمانے کی نیت سے کشمیر میں اپنی فوجیں داخل کیں تو قائداعظم نے بطور گورنر جنرل پاکستان اسی وقت پاکستانی افواج کے انگریز کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس گریسی کو بھارتی فوج کا پیچھا کرنے اور انہیں کشمیر سے باہر نکالنے کے فوری اقدامات اٹھانے کی ہدایت کی۔ یہ ایک طرح سے پاکستان کی عسکری صلاحیتوں کا بھی امتحان تھا اور قائداعظم نے ان صلاحیتوں کو پیش نظر رکھ کر ہی کشمیر میں موجود بھارتی فوجوں کو پسپا کرکے واپس بھارت دھکیلنے کی ہدایت کی تھی جو انکی فہم و بصیرت کا بھی عملی مظاہرہ تھا۔ اگر جنرل گریسی قائداعظم کے احکام کی تعمیل کرتے ہوئے پاکستان کی افواج بھی کشمیر میں داخل کر دیتا تو بھارتی فوجوں کے پاس الٹے پائوں واپس بھاگنے کے سوا کوئی راستہ نہ رہتا‘ اس طرح کشمیر پر تسلط جمانے کی بھارتی سازش بھی ناکام ہو جاتی اور پاکستان کو اپنے لئے ترنوالہ سمجھنے کی اسکی غلط فہمی بھی دور ہو جاتی جس کے بعد پاکستان بھارت کسی تنازعہ کی بنیاد ہی نہ رکھی جا سکتی اور بھارت اس خطے کے عوام کی ترقی و خوشحالی کی خاطر پاکستان کے ساتھ خیرسگالی کے تعلقات استوار کرنے پر مجبور ہو جاتا تاہم جنرل ڈگلس گریسی بھی پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کے بھارتی ایجنڈا کے ہی اسیر نظر آئے جنہوں نے عساکر پاکستان کی اہلیت و استعداد ہونے کے باوجود پاکستان کا دفاعی حصار کمزور ہونے کا تاثر دینے کی خاطر پاکستانی افواج کو بھارتی افواج کے مدمقابل لانے سے گریز کیا اور اس طرح بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کو ہی تقویت پہنچائی۔ اسی زعم میں بھارت نے پاکستان پر ستمبر 65ء کی جنگ مسلط کی جس میں عساکر پاکستان نے اسے تگنی کا ناچ نچا دیا اور اسے ہر محاذ پر ہزیمتوں اور نامرادیوں کا سامنا کرنا اور پاکستان کیساتھ جنگ بندی کے معاہدے پر مجبور ہونا پڑا۔
بھارت نے اپنی گھٹی میں پڑی پاکستان دشمنی کے باعث 65ء کی جنگ کے بعد بھی سازشوں اور جنگی جنون بڑھانے کا سلسلہ برقرار رکھا جس کے ماتحت اس نے مشرقی پاکستان میں ہمارے سیاست دانوں کی پیدا کردہ عدم استحکام کی فضا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس محاذ کو فوکس کرکے دسمبر 1971ء میں پاکستان پر دوبارہ جنگ مسلط کر دی جس میں وہ اپنی پروردہ مکتی باہنی کے ذریعے پاکستان کو دولخت کرنے میں کامیاب ہو گیا اور پھر باقیماندہ پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کا بھی خواب دیکھنے لگا جس کی خاطر اس نے ایٹمی قوت و صلاحیت بھی حاصل کرلی۔ چنانچہ 1974ء میں پہلا ایٹمی دھماکہ کرکے بھارت نے پاکستان کی سلامتی کو کھلم کھلا چیلنج کیا۔ اس صورتحال میں پاکستان کے پاس بھی دفاع وطن کے تقاضے نبھانے کیلئے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں رہا تھا چنانچہ ذوالفقار علی بھٹو نے وزیراعظم پاکستان کی حیثیت سے ملک کو ایٹمی قوت سے ہمکنار کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور ساتھ ہی یہ بھی باور کرادیا کہ ہم گھاس کھالیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ اس طرح ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی دفاع وطن کیلئے ایک مضبوط حصار اور سیفٹی والوو بن گئی۔ بھارتی جارحانہ عزائم اور اسکی گھنائونی سازشوں کو پیش نظر رکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان ایٹمی صلاحیتوں سے ہمکنار نہ ہوا ہوتا تو اکھنڈ بھارت کے خواب دیکھنے والے ہندو انتہاء پسند بھارتی لیڈران باقیماندہ پاکستان کو بھی کب کا چیر پھاڑ چکے ہوتے۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کو بھانپ کر ہی بھارت آبی دہشت گردی سمیت پاکستان کیخلاف دوسرے محاذوں پر بھی برسرپیکار ہو گیا جس کی نیت کا فتور یہی تھا کہ پاکستان کو پھلنے پھولنے اور اقتصادی و دفاعی طور پر مضبوط نہ ہونے دیا جائے۔ اگر بھارت سانحۂ سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنی سازشوں کو عملی جامہ پہنانے میں اب تک کامیاب نہیں ہو سکا تو اس کا پس منظر ہمارا ایٹمی قوت سے ہمکنار ہونا ہی ہے۔
اسی تناظر میں بھارت نے 1981ء میں اسرائیل کے ساتھ سازش کرکے پاکستان کے کہوٹہ ایٹمی پلانٹ پر حملہ کرنے کا گھنائونا منصوبہ بنایا تھا جس کا پاکستان کے نصب کئے گئے جدید ریڈاروں کی بدولت ہی پیشگی علم ہوا اور اس وقت کے صدر جنرل ضیاء الحق نے یہ حملہ ناکام بنانے اور بھارت اور اسرائیل کی ایٹمی تنصیبات پر بیک وقت جوابی فضائی حملے کرنے کیلئے پاک فضائیہ کے تین دستے چوکس کردیئے۔ اگر پاک فضائیہ کی نقل و حرکت کو بھانپ کر امریکہ بھارت سے اسکی گھنائونی منصوبہ بندی پر عملدرآمد نہ رکواتا تو بھارت اور اسرائیل کا بھرکس نکلتا پوری دنیا دیکھ لیتی۔ یہ امر واقع ہے کہ جنگی جنون کو فروغ دیتے ہوئے بھارت نے اپنی افواج کو پاکستان سے چار گنا زیادہ جنگی سازوسامان اور ہر قسم کے اسلحہ سے لیس کیا ہوا ہے۔ اسکے باوجود اسے پاکستان پر پہلی جیسی جارحیت مسلط کرنے کی جرأت نہیں ہوسکی کیونکہ اسے پاکستان کی ایٹمی صلاحیتوں کا بخوبی علم ہے۔ بھارت کی موجودہ مودی سرکار نے چونکہ پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کا کریڈٹ لینے کی گھنائونی منصوبہ بندی کی ہوئی ہے اس لئے اس نے اپنے اقتدار کے پہلے دن سے ہی پاکستان کیخلاف چاروں جانب سے محاذ کھول دیئے۔ کنٹرول لائن پر یکطرفہ فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ بڑھا دیا اور مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر مظالم کے نئے ہتھکنڈے اختیار کرلئے جبکہ پاکستان پر آبی دہشت گردی مسلط کرنے کے سازشی منصوبہ کو بھی عملی جامہ پہنانا شروع کر دیا جس کی بنیاد پر مودی نے یہ بڑ ماری کہ پاکستان کو اسکے حصے کے پانی کے ایک ایک قطرے سے محروم کر دیا جائیگا۔
اپنے اقتدار کے آخری مراحل میں تو پاکستان کی سلامتی کیخلاف مودی سرکار کی سازشیں عروج پر پہنچا دی گئی ہیں جن کے تحت پاکستان پر سرجیکل سٹرائیک کے دعوے بھی کئے جانے لگے اور مقبوضہ کشمیر سے پاکستان آنیوالے دریائوں کا رخ اپنی جانب موڑنے کی منصوبہ بندی بھی طے کرلی گئی۔ مودی سرکار اپنی ان پاکستان دشمن سازشوں کو بھارتی لوک سبھا کے انتخابات سے پہلے پہلے عملی جامہ پہنانا چاہتی ہے تاکہ ان انتخابات میں نوشتہ دیوار اپنی شکست کو کامیابی میں بدل سکے۔ چنانچہ اس بدنیتی کے تحت ہی مودی سرکار نے پلوامہ خودکش حملہ کا ڈرامہ رچایا اور اسکی آڑ میں پاکستان کی سلامتی کو کھلم کھلا چیلنج کرنا شروع کردیا جس کے تحت اس نے پاکستان کی فضائی حدود میں دراندازی سے بھی گریز نہ کیا۔ تاہم پاک فضائیہ نے اپنی بہترین صلاحیتیں بروئے کار لا کر بھارتی فضائیہ کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا اور اسکے دو طیارے مار گرا کر اپنی دفاعی صلاحیتوں کی دھاک بٹھا دی۔ یہ پاکستان کے جدید ریڈار سسٹم اور دور و نزدیک تک مار کرنیوالے میزائلوں کی بدولت ہی ممکن ہوا ہے جبکہ ان ہزیمتوں کے باوجود بھارت نے پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنی سازشیں برقرار رکھی ہوئی ہیں جو کنٹرول لائن پر بھی اشتعال انگیزیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور اتوار کی صبح بھی بھارتی فوجوں نے شاہ پور اور کیرن سیکٹر میں بلااشتعال فائرنگ کی ہے۔ اسی طرح بھارتی آبی جارحیت کے نتیجہ میں دریائے چناب کا بھی 95 فیصد حصہ خشک ہوگیا ہے۔ اس تناظر میں یوم پاکستان کے موقع پر مودی کا پاکستان کیلئے خیرسگالی کا پیغام اور امن و سلامتی سے رہنے کی خواہش کا اظہار سوائے مکاری کے اور کچھ نہیں۔ پاکستان نے بہرصورت اپنے تحفظ و دفاع کیلئے تقاضے نبھانے ہیں جس کیلئے عساکر پاکستان بھی مکمل تیار ہیں۔ ہمارا نیا ایئرڈیفنس سسٹم بلاشبہ ہمارے دفاعی حصار کی مزید مضبوطی کا باعث بنے گا اور مودی سرکار نے بالاکوٹ دراندازی جیسی مزید کوئی حماقت کی تو اس ہندو ریاست کا وجود ہی صفحہ ہستی سے مٹ جائیگا۔ اس مکار دشمن کے بازو تو بہرصورت ہمارے آزمائے ہوئے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن