گو مہینے کی 13 یا 15 تاریخ کو مارچ کے علاوہ بھی کئی ماہ سے منسوب کیا جاتا ہے لیکن مارچ کے مہینے کی 13 تاریخی خصوصی اہمیت حاصل کر گئی ہے۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ کچھ نہ کچھ انہونی ہو جاتی ہے۔ قتل ہونے سے پہلے جولیئس سیزر کو نجومی نے متنبہ کیا تھا۔ Beware of the IDES OF MARCH ویسے بھی اوہام پرستی میں 13 کے ہندسے کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ اسے منحوس تصورکیا جاتا ہے۔ یہ بتانے کیلئے کہ ایسا کیوں ہے، کئی کالم درکار ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہر شخص کے سینے میں کئی بتانِ ہیکل اوہام ہوتے ہیں۔ لوگ اس تاریخ کو سفر کرنے سے حتی الوسع اجتناب برتتے ہیں۔ کوئی نیا کام شرو ع نہیں کرتے۔ شادی بیاہ نہیں رچاتے وغیرہ…گو اس کا کوئی عقلی جواز نہیں ہے۔ مذہب بھی انہیں فاسد خیالات قرار دیتا ہے لیکن آدمی کے اندر چْھپا ہوا ڈر ایک انجانا خوف اس کے پائوں میں بیڑیاں ڈال دیتا ہے۔ وہم کی بیماری اس تاریخ تک محدود نہیں ہے۔ بدقسمتی سے یہ لاعلاج ہے۔ گو یہ درست کہا گیا ہے کہ ہر بیماری کا سوائے موت کے علاج ہے مگر حکما طبیب اور ڈاکٹر اس عارضے کی تہہ تک نہیں پہنچ سکے۔ بڑے بڑے حکمران ، شہنشاہ اور آمر بھی اس کے چنگل سے آزاد نہ ہو سکے۔ ایوب خان کے دور میں عیدالفطر جمعہ کے روز آ گئی۔ اسے بتایا گیا کہ ایک دن میں دو خطبے ، حکمران کے لیے خطرہ پیدا کر سکتے ہیں۔ وہ اس قدر گھبرایا کہ عید ایک دن پہلے کروا ڈالی۔ اتفاق سے بھٹو دور میں بھی عید جمعہ کے روز آ گئی۔ مولانا کوثر نیازی نے اسے خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے اْمتِ مسلمہ کے علما کے کئی حوالے دئیے ۔ بھٹو چہرے پر مصنوعی پریشانی طاری کرتے ہوئے بولا، ’’مولانا آپ نے درست فرمایا ہے۔ سربراہ مملکت چودھری فضل الٰہی بہت بوڑھا ہو چکا ہے۔ اس طرح اس نے HEAD OF THE STATE اور HEAD OF THE GOVT کا فرق واضح کردیا۔ اب اسے محض اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ فضل الٰہی تو صدارت سے محروم ہوا، بھٹو صاحب جان سے جاتے رہے۔
انڈونیشی صدر سوئیکارنو کے گردے میں پتھری، بڑے پتھر کی شکل اختیار کر گئی۔ ڈاکٹروں نے مشورہ دیا۔ معمولی آپریشن ہے کرواڈالیں اور اس درد سے نجات پائیں جو سارے وجود میں آکاس بیل کی طرح پھیل گیا ہے۔ اس نے انکار کر دیا۔ استدلال بڑا عجیب تھا۔ بولا۔ مجھے نشتر سے ڈر لگتا ہے۔ نجومیوں نے بتایا ہے کہ I will Die by STEEL حیران کْن بات ہے برصغیر کے اس خوبصورت مہینے کو اس قدر بدشگونی سے دیکھا جائے۔ یہ وہ ماہ ہے جس میں تمام فضا معطر ہوتی ہے۔ شاخوں سے کونپلیں پھوٹتی ہیں۔ اشجار زمردیں لباس زیب تن کرتے ہیں۔ پھول اپنے جوبن پر ہوتے ہیں۔ گْل و لالہ و نرگس و نسترن دیکھتے ہی عشاق اور شعرا کرام پر وجد کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے جنون کے آثار نمودار ہوتے ہیں۔ پھرجگر کھودنے لگا ناخن آمد فصل لالہ کاری ہے۔ چناروں سے سرد آتش پھوٹتی ہے…بلبل کے نغمے سْن کر کچھ یوں گمان ہوتا ہے کہ اسے ناشاد کہنے والے سے کچھ بھول ہوئی ہے۔ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ شاعر اس موسم سے لْطف اندوز نہ ہوئے ہوں۔ جناب فیض کا شمار اْن کم نصیبوں میں کیا جا سکتا ہے۔
؎نہ گل کھلے ہیں، نہ اْن سے ملے نہ مے پی ہے
عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے
اس کی بھی ایک معقول وجہ تھی۔ حکومت نے بغاوت کے جْرم میں انہیں پابندِ سلاسل کر دیا تھا…ایک عام آدمی کو حیرانی ہوتی ہے کہ ایک مقبول عوامی شاعر کو گرفتار کرنے میں کیامصلحت کارفرما تھی؟ قصور دراصل جناب فیض سے زیادہ اْس ڈگری کا تھا جو اْنہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے حاصل کی تھی۔ وہ ایم اے عربی کے علاوہ انگریزی کے بھی ماسٹر تھے۔ اس حاکموں کی زبان کا اپنا مزاج ہے۔ الگ تقاضے ہیں۔ یہ محض کلپنسری اور الائچی پر اکتفا نہیں کر سکتی۔ زردالو پان محض زبان سرخ کر سکتا ہے۔ زندگی کی رنگینیاں فراہم نہیںکرتا۔ گو بغاوت کا پلان بوٹوں والوں کا تھا لیکن ایک آدھ ’’بلڈی سویلین‘‘ کی شمولیت کو بھی ضروری سمجھا گیا۔ اگر سکیم کامیاب ہو جاتی تو جناب فیض نے وزیر خارجہ ہونا تھا۔ اس صورت میں اقوامِ متحدہ کے دروبام شعر و شاعری سے گونج اْٹھتے۔ سکیورٹی کونسل میں ایک تسلسل اور تواتر کے ساتھ مشاعرے ہوتے۔ لوگ اْردو غزل کیساتھ ساتھ انگریزی، جرمن، فرانسیسی شاعری کے بھی مزے لوٹتے مگر یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے۔ جیل نے محترم کی شاعری کو آفاقیت دی ۔ تنگ و تاریک کمروں میں لکھے گئے اشعار نے قلوب کومنور کیا اور اذہان کو جِلا بخشی۔ آج اگر مولانا محمد حسین آزاد زندہ ہوتے تو بقائے دوام کے دربار میں انہیں اعلیٰ مسند پر بٹھاتے۔ آج جبکہ وہ زندگی کی قید سے آزاد ہو گئے ہیں تو عالم ارواح میں ضرور سوچتے ہونگے کہ سودا گھاٹے کا نہیں تھا۔
گو میں شاعر نہیں ہوں مگر ذاتی طور پر مجھے مارچ اور دسمبر کے مہینے بہت پسند ہیں۔ میں جہاں کہیں بھی رہا، مارچ میں مشاعروں کا اہتمام ضرور کیا۔ 1991ء اور 92ء میں ملتان میں جشنِ بہاراں کے سلسلے میں عالمی مشاعرے کروائے۔ عالمی اْردو کانفرنس اس کے علاوہ تھی۔ تمام دنیا سے شعرا اور اْردو دان بلائے گئے۔ ہندوستان سے گوپی چند ، نارنگ، جگن ناتھ آزاد اور لکھنئو یونیورسٹی کے ڈاکٹر خلیق انجم آئے۔ وزیر اعلیٰ غلام حیدر وائیں تھے۔ میں نے اپنے افتتاحی کلمات میں اْردو کی ترقی اور ترویج کا ذکر کیا اور وزیراعلیٰ کو بتایا کہ وہ تاریخ کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ تاریخ نے یہ دیکھنا ہے کہ انہوں نے اس سلسلے میں کیا اقدامات کیے۔ وزارت اعلیٰ تو آنے جانے والی چیز ہے۔ تقریر کا اختتام اس شعر پر کیا۔
حْسن والے حْسن کا انجام دیکھ۔ ڈوبتے سورج کو وقتِ شام دیکھ۔ ہال سے باہر نکلے تو منو بھائی نے ازراہِ تفنن کہا مغلوں کے زمانے میں مشہور تھا جس کا ملتان مضبوط ہے اس کا دلی بھی مضبوط ہے۔ لیکن فی زمانہ جو ملتان مضبوط کرتا ہے اس کا لاہور کمزور ہو جاتا ہے۔ وزیراعلیٰ کیسا ہی درویش منش کیوں نہ ہو، وزیراعلیٰ ہی رہتاہے اور نازک مزاجِ شاہاں تاب سخن نہ دارند!…وزیراعلیٰ نے تو کوئی اتنا بٰرا نہ منایا لیکن لاہور سیکرٹریٹ والوں کی باسی کڑی میں اْبال آ گیا۔ چیف سیکرٹری پرویزمسعود صاحب جو اکثر ایسے موقعوں کی تلاش میں رہتے تھے انہیں ایک ’’نادر موقع‘‘ میسر آ گیا۔ فٹ سے میری جواب طلبی کر ڈالی۔ وزیر اعلیٰ کی شان میں گستاخی کیوں کی ہے؟ کاپی برائے اطلاع وائیں صاحب کو بھیج دی۔ ایک پنتھ دو کاج! کوئی شخص اردو زبان کا ذکر کرے! انہیں ہرگز گوارا نہ تھا۔ انگریز گواس ملک سے چلا گیا ہے مگر اپنی باقیات چھوڑ گیا ہے۔ ویسے بھی پنجاب میں اس دور میں جتنے بھی چیف سیکرٹری رہے، بوجوہ ناراض ہی رہے۔ (اس کی تفصیل میں نے اپنی زیر طبع سوانح عمری ، شاہ داستان، میں بیان کر دی ہے)
اب میں انہیں کیا جواب دیتا کچھ ’ناکچھ تو کہنا تھا، سو کہہ دیا ، ایک چٹ پر محسن نقوی مرحوم کا شعر لکھ کر بھیج دیا
یہ دل جو قحطِ انا سے غریب ٹھہرا ہے۔ میری زبان کو زرالتماس کیا دے گا۔ دسمبر پسند کرنے کی وجہ خالصتاً جذباتی ہے۔ جب سے عرش صدیقی صاحب کی خوبصورت نظم ’’اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے۔’پڑھی‘ اس سرد مہینے میں وجود میں گرمائش محسوس کی۔ عرش صاحب سے احترام کا رشتہ تھا۔ نہایت عمدہ شاعر خلیق اور متوازن انسان تھے۔ رحیم یار خان میں ایک مشاعرے میں ملاقات ہوئی اور پھر زمزمہ محبت جاری رہا۔ انگریزی ادب کے پروفیسر ہونے کے باوصف انہیں اردو زبان پر مکمل عبور تھا۔ اس ملاقات کووہ LOVE AT FIRST SIGHT قرار دیتے تھے۔
شیکسپیئر نے اپنے ڈرامے جولیس سیرز میں لکھا تھا BEWARE OF THE IDES OF MARCH ہماری سیاست نے بھی کئی مقامی شیکسپیئر پیدا کئے۔ اس اصطلاح کوپہلے پہل بڑے پیرپگاڑہ صاحب نے استعمال کیا۔ ’’مارچ میں ڈبل مارچ ہو گا!‘‘ اپنے آپ کو جی ایچ کیو کا خاص آدمی قرار دیتے ۔ وہ ستارہ جسے علامہ اقبال نے ’’گردش افلاک میں خوار و ’زبوں‘ قرار دیا تھا، یہ اس سے فال نکالتے اور آنے والے کل کی نوید دیتے۔ صحافی نمک مرچ لگاکر ان کی پیش گوئیاں چھاپتے۔ پاکستان میں پیرتو بیشمار ہیں لیکن مریدانِ باصفا صرف پیر پگارا مرحوم کو نصیب ہوئے، حُر (FURIOUS FIGHTING FORCE) جن اصحاب نے حسن بن صباح کے فدائین کے قصے پڑھے ہیں، انہیں حروں کی طاقت اور اطاعت کا بخوبی اندازہ ہو سکتاہے۔ ان کا نعرہ ہی ’’بھیج پگاڑا ‘‘ ہے۔ باایں ہمہ پیر صاحب طبعاً صلح کل انسان تھے۔ انکے والدصاحب نے انگریزوںکے خلاف پرچم جہاد بلند کیا تھا لیکن ان کے افکار مختلف تھے۔
پیر صاحب کی وفات کے بعد ان کے فرزندصبغت اللہ راشدی پیر پگاڑا بنے ہیں لیکن انکی سیاست کے متبنٰی شیخ رشید نظر آتے ہیں۔ یہ بھی آنکھیں بند کر کے ہر سال مارچ میں کچھ نہ کچھ ہونے کی پیش گوئی کر دیتے ہیں۔ جب کچھ نہیں ہوتا تو صحافیوںکو سکہ بندجواب دیتے ہیں…میں سیاسی نجومی ہوں کوئی ولی یا اوتار نہیں!حاضر جوابی میںانکا کوئی ثانی نہیں ہے۔ چند برس قبل پیش گوئی کی ’’مارچ میں بڑی قربانی ہونیوالی ہے‘‘ جب کچھ نہ ہواتو تُرت بولے قربانی کیسے ہونی تھی! قصائی ہی بھاگ گیا تھا۔ صحافتی محفل کشتِ زعفران بن گئی…اس دفعہ بڑے وثوق اور تیقن سے کہا ہے۔ شریفوںکے علاوہ چالیس چوروں کا مارچ تک تیاپانچا ہو جائے گا! اخبار نویسوں نے دن گننے شروع کر دئیے ۔ تجسس صرف ایک بات کا ہے۔ اس مرتبہ شیخ صاحب کیا عذر لنگ پیش کرتے ہیں۔
قطع نظر اس بات کہ شیخ صاحب اس مرتبہ سُرخ رو ہوتے ہیں یا شرمندگی سے ہمکنار ، ایک بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے اور اس میں کسی راکٹ سائنس یا جنتری کی ضرورت نہیں۔ وطنِ عزیز میں ہر آنے والا دن ڈرائونا مارچ نظر آ رہا ہے‘ گیس کے بل اختلاجِ قلب پیدا کر رہے ہیں۔ بجلی کی قیمت اذہان کومائوف کر رہی ہے۔ بیروزگاری نے اعضا شل کر دئیے ہیں۔ اشیائے خور و نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ مکانات بنائے جا رہے ہیں یا گرائے جا رہے ہیں۔ تسلیاںدی جا رہی ہیں ، لوگ چند سال صبر کریں۔ سب ٹھیک ہوجائے گا! اب انہیں کون سمجھائے! صبر زندہ لوگ کرتے ہیں، خفتگانِ خاک نہیں!