وبائوں اور بیماریوں کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسانی تمدن کی۔ ابتدائی دور کا انسان وبائوں اور بیماریوں کی وجوہ اور علاج سے کلی ناواقف تھا۔ وہ ان کی اپنے عقائد کی روشنی میں توجیہ و تشریح کرتا تھا۔ توحید پرست قومیں انہیں عذاب الٰہی کے تصور کی روشنی میں دیکھتیں اور بت پرست اور اوہام پرست اقوام انہیں دیوی دیوتائوں کے غضب یا نامعلوم قوتوں کی کارفرمائی قرار دیتیں۔ یہ تاریک اور عقل دشمن دور سائنس اور خصوصاً میڈیکل سائنس کی ترقی تک جاری رہا۔ اس مقام تک پہنچنے تک وبائیں اور بیماریاں بالخصوص طاعون، چیچک اور ہیضہ وغیرہ نے ملکوں کے ملک موت کے گھاٹ اتار دیئے۔
اسلام کے ابتدائی دور میں حضر ت عمرؓ کی خلافت کے زمانے میں امن الامت حضرت ابوعبیدہؓ بن الجراح کی سپہ سالاری میں لڑنے والے لشکر میں طاعون نے بڑی تباہی پھیلائی۔ حضرت ابوعبیدہؓ سمیت کئی قیمتی جانیں شہید ہوئیں اگرچہ ایک لمبے عرصے تک طاعون کی کوئی ویکسین ایجاد نہیں ہوئی تھی لیکن پھر بھی اس کے مقابلے میںبڑی حد تک وہ تدابیر استعمال کی جاتی ہیں جو آج لاک ڈائون، کرفیو اور عدم اجتماع کی صورت میں اختیار کی جا رہی ہیں۔ ان باتوں کے علاوہ بکثرت توبہ و استغفار کی جاتی تھی۔ قرآن مجید میں بتایا گیا ہے کہ کائنات کی تعمیر محکم طبعی اصولوں پر ہوئی ہے جو بھی ان اصولوں کی خلاف ورزی کرے گا ، بھگتے گا۔ اس میں مسلمان، عیسائی، یہودی، ہندو، سکھ اوربدھ مت کے ماننے والوں کی کوئی تخصیص نہیں۔ قوموں کا عروج و زوال بھی اسی قانون کے تحت ہو رہا ہے۔ جیساکہ کھیلوں پر تبصرہ کرنے والوں کا ایک فقرہ ضرب المثل کی شکل اختیار کرچکا ہے کہ جو ٹیم اچھا کھیلے گی، جیتے گی۔ حقیقت بھی یہی ہے جو قوم یا ملک بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کرے گا، وہ آگے نکل جائے گا بلکہ سپرپاور بن جائے گی یا بن جائے گا۔ اللہ کی اس دنیا میں اوہام نہیں عقل کو برتری حاصل ہے۔ لاکھ تعویذ گنڈے کرتے اور اوراد پڑھتے رہیں، وبائ، بلا یا مصیبت اللہ کے بنائے اصولوں پر عمل کرنے سے ہی ٹلے گی۔ آج کرونا وائرس نے دنیا کے 194 ممالک یعنی پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میںلے رکھا ہے، ابھی تک اس کی ویکسین ایجاد نہیں ہوئی۔ بعض ڈاکٹر صاحبان کلورین اور ارتھرو مائی سین سے کام چلا رہے ہیں لیکن یہ بھی حتمی علاج نہیں۔ اس وقت اس کا مقابلہ کرنے کیلئے پرہیز اور احتیاط کو زیادہ مؤثر سمجھا جا رہا ہے۔ کرفیو اور لاک ڈائون پرہیز اور احتیاط کی ہی شکل ہے۔
ہمارے ہاں سوشل میڈیا پر ٹوٹکے، ہومیوپیتھک میڈیسن، تعویذگنڈے اور اوراد وظائف بہت وائرل ہو رہے ہیں، یہ سب جہالت کی باقیات ہیں۔ موذی کرونا وائرس کا مقابلہ کرنے کا بہترین طریقہ توبہ و استغفار اور پرہیز و احتیاط ہے۔ مجبوراً 2 ہفتے کا لاک ڈائون اور ’’بے ضررر‘‘کرفیو لگانا پڑ گیا ہے لیکن اس میں بھی خیر کا پہلو ہے کہ اس عرصے میں کسی اچھے ترجمے والے قرآن مجید کا پورے غور و تدبر کے ساتھ مطالعہ کریں، تہجد پڑھیں، خیرات و صدقات میں دوسروں پر سبقت لے جانے کی کوشش کریں۔ دوسرے مذاہب کے انسان اپنے اپنے عقائد کے مطابق یہ طریقہ اختیار کرسکتے ہیں، بے پناہ فائدہ ہوگا۔ اللہ کیلئے نیم حکیموں کے ہتھے چڑھنے سے اجتناب کریں۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے اور افسوس بھی ہوگا کہ جب بارہویں تیرہویں صدی عیسوی میں طاعون کی تباہ کاریاں عروج پر تھیں تو وہ یونانی (اسلامی) طب کے عروج کا زمانہ تھا لیکن ہمارے نامور طبیب ان بیماریوں کا علاج دریافت کرنے پر توجہ دینے اور کوشش کرنے کی بجائے دوائیوں کی دریافت اور کشتے تیار کرنے پر اپنی صلاحیتیں مرکوز کئے ہوئے تھے۔ مغربی دُنیا کے اُن سائنسدانوں کو سلام، جنہوں نے میڈیکل سائنس کی دُنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔ تباہ کن وبائوں کی ویکسین تیار کی ورنہ ہم میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو پولیو کے قطروں کو مسلمانوں کے خلاف مغرب کی سازش قرار دیتے ہیں۔ آج ہمیں یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ جدید اکتشفات اور علاج معالجے کیلئے دوائوں کی ایجاد میں مسلمانوں کا ایک فیصد چھوڑ سرے سے کوئی حصہ نہیں۔ حدیث شریف میں حکمت کو مسلمان کا گمشدہ خزینہ قرار دیا گیا ہے اور ہدایت کی گئی ہے کہ یہ جہاں سے ملے لے لو۔ ابھی ہم ذکر کر رہے تھے ، موجودہ تمدن میں مسلمانوں کے حصہ کا تو حقیقت یہی ہے کہ جدید تمدن کو موجودہ حالت میں پہنچانے میں مغربی اقوام کاحصہ غالب ہے۔ اُنہوں نے مسلم سپین کی یونیورسٹیوں میں پڑھا اور اس حاصل شدہ علم پر سائنس کی عمارت استوار کی۔ اُنہوں نے زندگی کے ہر شعبے میں تحقیقات کیں ، ایجادات کیں۔ جس زمانے میں یورپ میں پاپائیت دم توڑ رہی تھی اور جمہوریت کے بیج بوئے جا رہے تھے ۔ عالم اسلام طوائف الملوکی سے دوچار تھا۔ غرناطہ کے سقوط کے چند برس بعد ہی کولمبس امریکہ دریافت کر چکا تھا اور واسکوڈے گاما ہندوستان کی راہ پانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اگلی دو تین صدیاں پرتگیزوں نے بحرہند پر اس طرح غلبہ حاصل کر لیا تھا کہ جہاں پہلے عربوں کے جہاز چلا کرتے تھے۔ اب وہاں پرتگیزی بحری قزاق کی صورت اختیار کر کے دندنا رہے تھے۔ اُن کی ترکتازیاں اس حد تک پہنچ گئیں کہ ہندوستان اور مشرق بعید سے سمندر کے راستے حج کرنا موقوف ہو گیا، اس لئے کہ پرتگیز حاجیوں کے جہاز لوٹ کر اُنہیں قتل کر کے سمندر کی لہروں کے حوالے کر دیتے۔ یہ عذاب مسلمانوں کی اپنی غلطیوں ، کوتاہیوں اور خامیوں کے باعث آیا۔ مسلمانوں کی حالت یہ تھی کہ بخارا پر روسیوں نے حملہ کیا تو اُن کا مقابلہ میدانی جنگ میں کرنے کی بجائے بخارا میں دعائیہ اجتماع کرایا گیا۔ اسی طرح جب نپولین نے مصر پر حملہ کیا تو وائی مصر نے اس کے مقابلے میں بخاری شریف کی محافل منعقد کیں۔آج ہم 21 ویں صدی میں ہیں لیکن آفات ارضی و سماوی کا مقابلہ کرنے کا ہمیں سائنسی شعور نہیں آیا۔ قرآن مجید میں ہے کہ ’’کوئی مصیبت اللہ کے اذن کے بغیر نہیں آتی لیکن جن کا ایمان پختہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کو ہدایت بخش دیتا ہے۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں دو الفاظ ’’اذن‘‘ اور ’’ہدایت‘‘ خصوصاً قابل غور ہیں۔ کرونا وائرس کی لپیٹ میں پوری دنیا آئی ہوئی ہے۔ معیشتوں کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے۔ اس کی ویکسین کی تلاش کیلئے اتنا سرمایہ وقف کیا جا چکا ہے کہ پاکستان سمیت کئی پسماندہ ملکوں کے قرضے ادا کر سکتے ہیں۔ کرونا وائرس نہ موجودہ حکومت کی کسی غلطی کا نتیجہ ہے اور نہ اس میں گزشتہ حکومتوں کا کوئی قصور۔ کرونا وائرس میں ہلاکتوںکا تناسب دو تین فیصد سے زیادہ نہیں اور اگر ہم پرہیز اور احتیاط کریں اور حکومتی اقدامات کو کامیاب بنانے کیلئے حکام سے تعاون کریں تو یہ شرح مزید کم ہو سکتی ہے۔لاک ڈائون کو پکنک منانے کی رخصت نہ سمجھ لیں۔ گھروں میں بیٹھیں‘ بلا ضرورت باہر نہ نکلیں‘ مصافحہ اور معانقہ سے اجتناب کریں۔ ہاتھوں کو اکثر دھوتے رہیں بلکہ وضو کرنے سے پہلے ہاتھ صابن سے دھوئیں۔ اجتماعات میں جانے سے گریز کریں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ استغفار بکثرت کریں۔ اللہ تعالیٰ سے خضوع و خشوع کے ساتھ اس سے نجات کے طالب ہوں۔ دعا کریں یا اللہ تیری مخلوق موذی مرض کرونا وائرس کی لپیٹ میں آگئی ہے تو اس سے نجات دے۔ تیرے سوا کوئی نجات دینے والا نہیں۔ رونے دھونے اور خوفزدہ ہونے کی بجائے صبر کریں اور دل کو تگڑا کریں۔ وباء کا احمق نہیں بلکہ عقلمند قوم کی طرح بہادری سے مقابلہ کریں۔ انشاء اللہ جلد ہی اس مصیبت سے نجات مل جائے گی۔