قومی ترانے کا تمسخر … سماجی رابطے کو کھُلی چھٹی   

Mar 26, 2021

شاہد لطیف

 سماجی رابطوں اور یو ٹیوب وغیرہ  پر دین اور ملکی سا  لمیت کے خلاف قابلِ اعتراض مواد کی موجودگی کی شکایات اخبارات کے ذریعے حکامِ بالا، متعلقہ اداروں اور  وزارتوں کے ذمہ داروں تک پہنچائی جاتی رہی ہیں۔لیکن آج تک ایسی حرکات کی روک تھام کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات سامنے نہیں آ ئے ۔ گزشتہ روز سماجی رابطے پر مجھے کسی نے ایک ویڈیو بھیجی ۔ اسے دیکھ ا ور سُن کر یہ کمتر شرم سے پانی  پانی ہو گیا۔ آج تک کبھی کسی نے پاکستان کے قومی ترانے کا یوں کھلے عام تمسخر نہیں اُڑایا جیسا کہ اس ویڈیو میں دیکھا اور  سُنا۔ شدید افسوس بھی ہوا ۔یہ ویڈیو بجائے خود پاکستان کے قومی ترانے کا تمسخر ہے۔اس ویڈیو پر ’  ورسٹ نیشن ڈاٹ کام ‘ لکھا ہوا نظر آتا ہے۔جب اس ویب سائٹ پر تحقیق کی خاطر جانے کی کوشش کی تو انٹر نیٹ پر پیغام آتا ہے کہ یہاں نہیں جا سکتے۔ اس ویڈیو کا تجزیہ کیا جائے تو یہ نکات سامنے آتے ہیں: ایک یہ نام خود ہی شرمناک اور مشکوک ہے۔دوسرے یہ کہ کوئی بھی شخص یا گروپ جب ویڈیو عام کر نے کے لئے سماجی رابطے کا انتخاب کرتا ہے تو سب سے پہلے اپنی شناخت اور رابطے کا پتہ درج کرتا ہے تا کہ عوام زیادہ سے زیادہ اس سے رابطہ کریں۔ تیسرے یہ کہ آپ غور سے اس کی آڈیو سنیں تو اس کا بہت اچھا معیار پائیں گے۔گویا اس کی صدابندی میں خاطرخواہ رقم خرچ کی گئی ہے۔باقاعدہ کسی پیشہ ور ریکارڈنگ اسٹوڈیو کا نتیجہ ہے۔ لہٰذا  یہ کام ایک جانی بوجھی سازش لگتی ہے۔ آج تک کبھی کسی نے پاکستان کے قومی ترانے کا یوں کھلے عام تمسخر نہیں اُڑایا جیسا کہ اس ویڈیو میں اُڑایا گیا۔ کسی گانے کی مزاحیہ تضمین (  پیروڈی ) کرناالگ بات ہے۔اِن شرمناک بولوں میںعوام اور لیڈران (  بشمول حزبِ اختلاف) کی تذلیل کی گئی ہے۔ اور آ خری مصرع سُن کر تو ذہن ہی مائوف ہو گیا ۔ ’  لعنتِ خدائے ذوالجلال ‘  لا حولا ولا قوۃ۔ایسی بے ہودہ  بات !!  مجھے تو یہ کسی بھی پاکستانی شاعر کی شاعری نہیں لگتی۔ بلکہ پکا یقین ہے کہ  لاکھوں روپے لے کر بھی کبھی کوئی پاکستانی اپنے قومی ترانے کی یوں تضحیک نہیں کر سکتا۔اب گلوکار کون تھے؟ کہاں کے تھے ان کو کیا کہہ کر یہ ر یکارڈ نگ کرائی گئی ؟ یہ  ویڈیو پاکستانیوں کا حوصلہ پست کرنے کے لئے  یقیناََ کسی ملک دشمن ہی کا کام ہے۔باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے ساتھ ایک عرصے سے ہر دستیاب پلیٹ فارم سے ملک میں مایوسی کا زہر پھیلایا جا رہا ہے۔ہمارے ڈرامہ نگاروں کے قلم اور ذہن تک میں یہ سوچ ڈال دی گئی ہے۔وہ بھی ایک حد تک با لواسطہ یا بلا واسطہ اس مایوسانہ سوچ کے پھلانے کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ کیا اب ہم سمجھ لیں کہ ہمارے ملک میں ہر شخص کو وہ آزادی حاصل ہے جو اور کسی ملک میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا  !! ماضی میں ہمارے ہی ملک میں ایک شخص نے قائدِ اعظم رحمت اللہ کی تصویر پھاڑ دی ۔لوگ اس پر تشدد کرنے لگے۔بڑی مشکلوں سے بیچ بچائو کروایا تو علم ہوا کہ وہ تو ایک دیوانہ تھااور اب  !!  اب تو نشریاتی چوکیداروں کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگتی۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں قومی پرچم کا تقدس تسلیم کیا جاتا ہے اور جانتے بوجھتے اس سے کھلواڑ قابلِ دست اندازیء پولیس مانا جاتا ہے۔ہمارے ہاں بھی ایسے ایک سے زیادہ ضابطے قانون موجود ہیں لیکن صرف کتابوں کے صفحات میں !! نجی ٹی وی چینلوں کے مکالموں میں جا بجا دینی شعائر کا مذاق اُڑایا جاتا ہے۔کئی ایک ڈراموں میں کرداروں کے منہ سے جملے کہلوائے گئے : ’’  پاکستان تو رہنے کی جگہ ہی نہیں ہے ‘‘۔نجی محفلوں میں میں نے خود ایسے روشن خیالوں کے منہ سے یہ جملے بکثرت سنے ہیں۔جن سے میری کچھ بے تکلفی ہے اُن سے جواباََ عرض بھی کیا کہ حضور  !!  اگر پاکستان رہنے کی جگہ نہیں تو آپ وہاں چلے جائیں جہاں رہنے کی جگہ ہو ۔پہلے تو ایسے ٹی وی چینل اپنے طور پر ذمہ دار ہیں کہ کوئی تحریر یا کلام پاکستان، نظریہ پاکستان،  مذہبی ہم آہنگی وغیرہ کے خلاف نہ ہو۔پھر بھی کوئی چیز نشر ہو جاتی ہے تو یہاں ’  پیمر ا ‘ کا کردار سامنے آتا ہے ۔سوشل میڈیا پر بھی کنڑول پیمرا کی ذمہ داری ہے۔پیمرا تو شاید اب وہ سفید ہاتھی بن چکا ہے جو اپنے قیام کے بنیادی مقصد کو بھول کر محض حکومت  اور  وزارتوں کے لئے پیسے کمانے کا ادارہ بن کر رہ گیا ہے۔فلاں چینل سے یہ نشر ہو گیا چلو اتنا جرمانہ لگا دو…اتنے دن کے لئے اس کی نشریات پر پابندی عائد کر دو۔جتنا زیادہ  متنازع  ٹی وی چینل ہو گا اتنی ہی اس کی مشہوری دو چند ہو گی۔ لیکن پاکستان میں پاکستانی ٹی وی چینل پر قابلِ اعتراض مواد پھر بھی جاری و ساری رہتا ہے۔ ٹی وی پر بعض مکالمے تو قابلِ گرفت بھی سننے کو ملتے ہیں۔ لیکن شاید پیمرا، وزارتِ داخلہ اور دیگر محکموں کے لئے ان کے خلاف کاروائی ترجیحی فہرست میں ہی نہیں۔ جب سے پیمرا بنائی گئی یہ ہی سننے کو ملا: ’’  … پاکستان اور نظریہ پاکستان کے خلاف کوئی بھی چیز کسی بھی شکل میں برداشت نہیں کی جائے گی…دیکھ لیں گے …کر لیں گے… ہو جائے گا  ‘‘ ۔کیا اب ہم یہ تسلیم کر لیں کہ پیمرا  اور وزارتِ داخلہ کے ذمہ  داران عام آدمی کے اطمینان کے لئے محض خانہ پوری کے طور اپنی کارکردگی دکھلاتے ہیں۔جب یہ ویڈیو مجھ تک پہنچی تو آپ تک بھی پہنچی ہو گی اور پیمرا ، وزارتِ داخلہ  اور  سائبر کرائمز کے شعبہ میں کام کرنے والوں کے پاس بھی پہنچی ہو گی۔نہایت افسوس کا مقام ہے کہ یہ ویڈیو اب بھی گردش میں ہے۔ اب یہ حرکت کس نے کی اور کہاں بیٹھ کر کی؟ کس ریکارڈنگ اسٹوڈیو میں اس کی صدابندی کی گئی؟ کون میوزیشن تھے ؟ یہ سب کس کی نگرانی میں ہوا ؟  بول کس نے لکھے ؟ گلوکار کون کون تھے ؟ اس منصوبے کے اخراجات کس نے ادا کئے ؟ ایسے سوال جب مجھ ایسے کم تر کے ذہن میں آرہے ہیں تو پیمرا، سائبر کرامز اور وزارتِ داخلہ کے ذمہ داروں کا تو کام ہی ایسے سوالات کا جواب ’’ حاصل کرنا ‘‘ ہے۔ للہ !! میں پیمرا، سائبر کرامز اور وزارتِ داخلہ سے دست بستہ عرض کرتا ہوں کہ جو ٹولہ پاکستان کے قومی ترانے کا حلیہ بگاڑنے کا موجب بنا ہے، وہ جہاں بھی ہے اُس کو ڈھونڈھ کر قرار واقعی سزا دلوائی جائے۔

مزیدخبریں