غیر سیاسی تبصرہ 

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے غیر فطری اتحاد نے مجھے کچھ اچنبھے میں ڈال دیا۔ بلاشبہ سیاست میں بچپن سے سُنا ہے کہ کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا اور ہمیشہ مخالفین کیلئے بھی دروازے کھلے رکھنے چاہئیں۔ پر جس تکلیف سے پنجاب کے جیالے گزر رہے تھے وہ دیدنی تھی۔ میاں محمد نواز شریف کے پنجاب پر راج و بادشاہت میں جیالوں نے جو ماریں کھائیں اور قید و بند برداشت کیے۔ وہ کسی بھی طرح ن لیگ سے یارانے کو ہضم کرنے کو تیار نہیں۔ سوشل میڈیا پر کسی نہ کسی بہانے اپنے دل کے زخم دکھاتے رہتے ہیں۔ اُنکی تکلیف سے مجھے بھی تکلیف ہوئی۔ کیونکہ دس سال تک اکٹھے رہے ہیں اور پھر مریم بی بی کا انداز جارحانہ و باغیانہ جب محترمہ بینظیر بھٹو سے ملایا جاتا ہے تو دل آٹھ آٹھ آنسو رونے لگتا ہے۔ یقیناً مریم بی بی نے بڑی جنگ لڑی ہے۔ گھر سے لیکر سیاسی میدان تک ورنہ مسلم لیگ ن جیسی جماعت سے ایک خاتون کو لیڈر قبول کروانا جان جوکھوں کا کام ہے اور ایک پنجابی خاندان میں عورت کی سیاست کو منوانا پل صراط سے گزرنا ہے۔ یہ کام اُنہوں نے کامیابی سے آخر کار کر لیا ہے۔ لیکن جیالوں سے یہ تقاضا کہ وہ بینظیر بھٹو جیسی بڑی لیڈر ہیں پورا ہونیوالا نہیں۔ اُنکا یہ راتوں رات انقلاب دو نسلیں پیچھے ہے۔ اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی میں، جدوجہد میں ، قربانیوں میں اور پھر یاد رکھیں کہ جدوجہد سے عقل و فہم آتا ہے۔ سختیاں برداشت کرنے سے نرمی آتی ہے اور دھوکے کھانے سے آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ یہ سینٹ کے الیکشن میں سب نے دیکھ لیا۔ بھئی آخر کیوں پیپلز پارٹی استعفے دے رہی ہے؟ سندھ میں حکومت ، سینٹ میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پنجاب میں 2013ء سے بہتر پوزیشن میں اور اگر محنت کریں تو اگلے الیکشن میں مخلوط حکومت بنا سکیں گے اور قومی اسمبلی میں بھی ٹھیک حصے دار۔ کیا بنی بنائی حکومت سے استعفیٰ اس لیے دیں کیونکہ ن لیگ ہر جگہ حکومت سے فارغ ہو کر بیٹھی ہے اور اس سے اپوزیشن میں رہنے کا بوجھ اُٹھایا نہیں جا رہا اس لیے کہ میاں محمد نواز شریف پاکستان آئے بغیر پاک لین کے لگژری فلیٹ میں بیٹھ کر سیاست کرنا چاہ رہے ہیں۔ یا اس لیے کہ آپ کی انا اور ضد ہے سلیکٹڈ کو کسی بھی قیمت گرایا جائے۔ لیڈر بننے میں وقت لگتاہے۔ آپکی محنت تھوڑی کم ہے کیونکہ جو لوگ زیادہ عیش و عشرت میں رہنے کے عادی ہوتے ہیں وہ سختیوں سے جھنجلا کر فیصلے کرتے ہیں۔ ن لیگ جھنجلا کر فیصلے کر رہی ہے اور پیپلز پارٹی تُرپ کے پتے کھیل رہی ہے۔ وہ آرام سے چل رہے ہیں کیونکہ جانتے ہیں اس بار کی حکومت کے بعد آزمائے ہوئے کو نہیں آزمایا جائے گا اور ن لیگ تو ویسے ہی ساری کشتیاں جلا چکی ہے۔ سیاست میں کشتیاں نہیں جلانی چاہئیں۔ سیاست کا دل بھی نہیں ہوتا۔ یہ ظالم کھیل ہے اور کھیل کو کھیل کی طرح کھیلنا چاہئے جذباتی ہو کر نہیں۔ پیپلز پارٹی تو اُسی دن جیت گئی تھی جب مریم بی بی 27 دسمبر کو شہید بینظیر بھٹو کے مزار پر گڑھی خدا بخش پر دلاتیر بجا پر جھوم اُٹھی تھیں۔ اپنے پیروں سے چل کر پیپلز پارٹی کے جلسے میں چلی گئیں لیکن اب پچھتائے کیا ہوت۔ سُنا ہے کہ سبزی خور گوشت کھانے والوں سے زیادہ سیانے ہوتے ہیں اور بلاول ہائوس کے دستر خوان پر میں نے جب بھی کھاناکھایا وہاں سبزی بہت اعلیٰ بنتی ہے اور پھرسیاست میں متانت ہونی چاہئے۔ اِک پل تولہ اِک پل ماشا سے بات نہیں بنتی۔ سہہ لینا چاہیے۔ صبر کر لینا چاہیے۔ فوراً لب و لہجہ بدل کر آستینیں چڑھا کرزبان کھینچنے کی دھمکیاں تو مہنگی ہی پڑتی ہیں۔ غصے میں لرزتے ہوئے طعنے دیکر دل کی بات کہہ کر ن لیگ اپنے آپ کو وہیں واپس لے گئی اور سیلیکٹرز اور سیلیکٹڈ کی وہ تاریخی کہانی پھر سے سُن لی جس سے بڑی مشکل سے جان چھڑوائی تھی اور قربان جائوں قربانیوں والی بات پر۔ فرانس کی کوئین میری اینٹونیٹ کی یاد آ گئی اور وہ سالہا سال بھی یاد آ گئے جب میرے والد کو جھوٹے سیاسی کیسز بنا کر مہینوں تھانہ سرور اور تقریباً 4 سال کوٹ لکھپت جیل میں رکھا گیا۔ اُن سالوں میں ہمارے گھرانے پر کیا گزری یہ کہانی پھر کبھی سہی۔ لیکن بات اتنی سی ہے کہ یہاں پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی جدوجہد کاکوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ پیپلز پارٹی والے سیکھ گئے ہیں۔ ابھی مریم بی بی کو سیکھنے میںوقت لگے گا اور یاد آیا کہ پی ٹی آئی کی تو بات ہی نہیں ہوئی وہ آجکل غریب غربا کی جو دعائیں لے رہی ہے۔ اُسکا ذکر خیر اگلے کالم میں ہو گا۔ 

ای پیپر دی نیشن