تین منٹ یا اس سے بھی چند سیکنڈ کم وقت میں مکمل ہوجانے والی اذان سے الٰہ آبادیونیورسٹی کی نازک مزاج خاتون وائس چانسلر کے سر میں درد ہو جاتا ہے جس کی تحریری شکایت پر الٰہ آبادرینج کے انسپکٹر جنرل پولیس نے چاروں اضلاع الٰہ آباد،پرتاب گڑھ، فتح پو ر اور سمبی کے ایس پی اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو حکم جاری کیا ہے کہ رات 10 بجے سے صبح 6 بجے تک اذان پر پابندی پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے جبکہ ڈھول تاشوں کے ساتھ مندر میں بھجن سن کر اسکے سر میں درد نہیں ہوتا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وائس چانسلر نے ایسا کیوں کیا ۔ اسکی دو وجوہ ہیں اول تو مسلمانوں کے خلاف بغض و عناد کا اظہار ، دوئم اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی کی خوشامد ہے۔ جس نے اذان پر پابندی لگانے کیلئے بھارتی سپریم کورٹ کو استعمال کیا جس نے براہ راست تو نہیں لیکن بالواسطہ طور پر یوں پابندی عائد کی کہ رات 10 بجے سے صبح 6 بجے تک لاؤڈ سپیکر کے استعمال پر پابندی عائد کر دی۔ حالانکہ رات 10 بجے کے بعد کوئی اذان نہیںہے البتہ فجر کی اذان صبح6بجے سے پہلے ہوتی ہے۔ اذان کے اوقات کیونکہ سورج کی گردش کی مناسبت سے طے ہوتے ہیں ، سردی میں رات طویل ہوتی ہے تو فجر کی اذان دیر سے اور گرمیوں میں کیونکہ رات چھوٹی ہوتی ہے تو اذان جلد ہوتی ہے۔ اذان کیونکہ خوش الحانی سے دی جاتی ہے اس لئے اس سے سماعت میں چبھن کا احساس پیدا نہیں ہوتا نہ ہی زیادہ سے زیادہ تین منٹ پر محیط اذان کا دورانیہ کسی ناقابل برداشت شور کا باعث بنتا ہے۔ وائس چانسلر کی رہائش گاہ کے نزدیک واقع مسجد کے منتظمین سے شکایت کی گئی تو اول لاؤڈ سپیکر کا رخ تبدیل کر دیا اس پر بھی سردرد نہ گیا تو لاؤڈ سپیکر سرے سے اتار دیا گیا مگر سر درد جوں کا توں رہا حتیٰ کہ بغیر لاؤڈ سپیکر کے اذان کی آواز اتنی دھیمی کر دی گئی کہ وہ مسجد تک محدود ہو گئی مگر وائس چانسلر کے اس تصور سے ہی کہ اس وقت اذان ہو رہی ہوگی ، سر میں درد کی شدید لہریں اٹھتیں ۔ دراصل یہ درد اذان کی آواز سے نہیں بلکہ اذان کے الفاظ تکلیف کا باعث ہیں۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ربویت سے انکار کرنے والوں کو اس کی جانب بلانے والے الفاظ راحت نہیں پہنچا سکتے بلکہ تکلیف کا باعث ہی ہو سکتے ہیں۔راشٹریہ سیوک سنگھ سے تعلق رکھنے والے وکیل وجے شنگر استوگی نے سول جج کی عدالت میں دسمبر2019 میں درخواست دی تھی کہ محکمہ آثار قدیمہ کے ذریعہ گیان واپی کمپلیکس کا سروے کرایا جائے اور دعویٰ کیا کہ اس جگہ مہاراجہ وکرم آدتیہ نے مندر تعمیر کیا تھا جسے مسلمان بادشاہ اورنگزیب نے منہدم کروا کے اس کی جگہ مسجد تعمیر کرادی تھی۔ اس کے جواب میں مسجد انتظامیہ کی جانب سے اس دعویٰ کو سراسر جھوٹا قرار دیا گیا ہے اور جنوری 2020 میں عدالت میں درخواست دی گئی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ گیان واپی مسجد اور احاطہ کا اے ایس آئی کے ذریعہ سروے کرایاجائے۔ مسلمانوں سے نفرت کا مظاہر ہ ریاست ہریانہ کے گرگاؤں میں دیکھنے میں آیا جہاں انتہا پسند ہندوؤں نے منگل کے روز چھوٹے بڑے گوشت کی دکانیں مکمل طور پر بند رکھنے کا نادر شاہی حکم جاری کر دیا ہے۔ شہر میں وہ بڑے شاپنگ مالز جن کے مالک ہندو ہیں، ان میں منگل کے روز ہر قسم کا گوشت فروخت کیا جا سکے گا۔ پابندی صرف چھوٹے دکانداروں پر لگائی گئی ہے جو مسلمان ہیں یعنی یہ بھی مسلمانوں کو معاشی طورپر کمزور کرنے یا نقصان پہنچانے کیلئے ہے۔ گزشتہ منگل کے روز ہندو سینا کے کارکنوں جو ڈنڈوں، آہنی سلاخوں اور تلواروں سے مسلح تھے، گاؤں میں زبردستی دکانیں بند کرائیں اور بعض دکانداروں پر تشدد بھی کیا۔ دریں اثناء غازی آباد کے علاقے نواسنا میں مندر کے قریب سے گزرتے ہوئے مسلمان لڑکے آصف کو پیاس محسوس ہوئی اور پانی پینے مندر کے اندر چلا گیا جس پر وہاں موجود ہندوؤں نے اس نوعمر مسلمان لڑکے کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا جسے شدید زخمی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا۔ کانگریس کی مقامی رہنما الکالا مبا عیادت کیلئے اسکے گھر چلی گئیںتو انتہاپسند ہندو آگ بگولہ ہوگئے اور ہندو توادی انتہا پسندوں کی جانب سے الکالامبا کو گالیاں اور دھمکیاں دی گئیں۔ دھمکی پر مبنی ویڈیو میں دھمکایا گیا کہ ’ہم سرکاٹتے نہیں پورا دھڑ غائب کر دیتے ہیں۔ کوئی جالی کی ٹوپی والا ہو، چاہے یہ ٹوپی والی ہو پاجامہ کے ساتھ کرتا جو بھی ہو، بات سمجھ لے۔ ہمارا بجرنگ دل کی مہا کال ٹیم سے تعلق ہے‘جسے سرگرمیوں کے حوالے سے خطرناک تنظیم سمجھا جاتا ہے۔
ادھر ایودھیا میں رام مندرکی تعمیر کے ساتھ شری رام یونیورسٹی کی تعمیر کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔ نائب وزیر اعلیٰ ونیش شرما نے کہا ہے کہ اس یونیورسٹی کیلئے نجی شعبہ سے پانچ ہزار کروڑ یعنی پانچ ارب روپے لئے جائیں گے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی حالت ابتر ہے۔ ہفتہ کے روز جموں کے علاقے رائے پور میں واقع ایک فوجی کیمپ میں موجود فوجی نتیش شرما نے خود کشی کر لی۔ بھارتی فوج میں ابتر حالت کے پیش نظر آئے روز بھارتی فوجیوں کی خود کشی کی خبریں آتی رہتی ہیں اس کے باوجود مودی سرکار فوجیوں کے حالات بہتر بنانے کی بجائے کھربوں ڈالر امریکہ ، فرانس ، روس ، برطانیہ اور اسرائیل سے اسلحہ خریدنے پر خرچ کر رہی ہے۔