حافظ محمد عمران
قذافی سٹیڈیم میں ا?سٹریلیا نے پاکستان کو شکست دے کر ٹیسٹ سیریز جیت لی۔ وہ شکست جس سے پاکستان کرکٹ بورڈ پہلے میچ سے بچتا ہوا آ رہا تھا راولپنڈی میں زیادہ مشکل پیش نہ آئی، گرتے گرتے کراچی میں میچ بچانے میں کامیاب ہوئے لیکن لاہور میں آسٹریلیا کے کپتان پیٹ کمنز کے دلیرانہ فیصلے نے ٹیسٹ میچ میں جان پیدا کی، پاکستان ٹیم کو چیلنج کیا، میزبان ٹیم کی مسلسل منفی حکمت عملی کا توڑ نکالا، میچ کو نتیجہ خیز بنانے میں سب سے اہم کردار ادا کیا۔ چوتھے روز آسٹریلیا نے اننگز ڈیکلیئر کر کے میچ کو ہر طرح کے نتیجے کے لیے کھول دیا۔ پیٹ کمنز کی ڈیکلریشن ایسے وقت میں تھی جہاں پاکستان جیت بھی سکتا تھا اور میچ ڈرا بھی ہو سکتا تھا جبکہ آسٹریلیا کے لیے بھی فتح کا دروازہ کھلا تھا۔ مہمان ٹیم کے کپتان نے اپنے باؤلرز کا وکٹیں لینے کا ٹاسک دیا جب کہ پاکستان ٹیم کو فتح کے لیے اکسایا وہ اپنی حکمت عملی میں کامیاب رہے اور مسلسل مردہ پچز پر کرکٹ کھیلنے کے باوجود آخری ٹیسٹ میچ میں فتح حاصل کر کے سیریز جیتنے میں بھی کامیاب ہوئے۔ پیٹ کمنز اپنی مثبت سوچ اور دلیرانہ فیصلے کی وجہ سیریز جیتے ہیں۔ انہوں نے ہوم گراؤنڈ، ہوم کراؤڈ ایڈوانٹیج کی برتری کو بھی ختم کیا۔ آسٹریلیا نے اس سیریز میں پاکستان سے زیادہ بہتر کرکٹ کھیلی، اپنی مرضی کی پچز بنانے کے باوجود پاکستان ٹیم زیادہ وقت دباؤ میں رہی، شکست سے بچنے کی کوششوں میں نظر آئی، کراچی میں کھیلے جانے والے دوسرے ٹیسٹ میچ میں بھی عبداللّٰہ شفیق، بابر اعظم اور محمد رضوان کی ذمہ دارانہ بیٹنگ نے ہمیں شکست سے بچایا ورنہ آسٹریلیا تو دوسرا ٹیسٹ میچ بھی جیتنے کی پوزیشن میں تھا۔ انہوں نے ایسی پچز جہاں وہ کم کرکٹ کھیلتے ہیں وہاں بھی برتری ثابت کی، ان کے فاسٹ باؤلرز نے ریورس سوئنگ کے ذریعے وکٹیں حاصل کیں جبکہ نیتھن لیون نے بھی پاکستان کے سپنرز سے زیادہ بہتر باؤلنگ کا مظاہرہ کیا۔ وہ حقیقی معنوں میں چیمپیئن ٹیم کی طرح کھیلتے ہوئے نظر آئے، وہ مہمان تھے اور انہیں شکست کا خوف نہیں تھا جب کہ ہم اپنے میدانوں پر شکست کے خوف کا شکار تھے۔ تیسرے ٹیسٹ کے چوتھے اننگز ڈیکلیئر کرنا درحقیقت پاکستان کی بیٹنگ لائن کو کھلا چیلنج تھا بدقسمتی سے ہمارے بیٹرز ناکام رہے۔ا?سٹریلیا نے پاکستان کو جیت کیلئے تین سو اکاون رنز کا ہدف دیا تھا لیکن کھیل کے ا?خری روز قومی ٹیم کی ہمت دو سو پینتیس رنز پر ہی جواب دے گئی۔پانچویں دن پاکستان نے بغیر کسی نقصان کے تہتر رنز سے کھیل کا ا?غاز کیا پہلے سیشن میں ہی عبداللّٰہ شفیق ستائیس رنز پر پویلین لوٹ گئے ان کے بعد ا?نے والے اظہر علی بھی زیادہ دیر آسٹریلوی باؤلرز کا مقابلہ نہ کر سکے۔ اظہر علی ایک سو پانچ کے مجموعے پر صرف سترہ رنز پر ہی پویلین لوٹ گئے۔ وکٹیں مسلسل گرتی رہیں اور ٹیسٹ سیریز بچانے کی حکمت عملی ناکام ہوتی نظر آئی۔ اوپنر امام الحق ستر، مڈل آرڈر ٹیسٹ سپیشلسٹ فواد عالم گیارہ رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے پاکستان کو سب سے بڑا دھچکا اس وقت پہنچا جب محمد رضوان بغیر کوئی رن بنائے ا?ؤٹ ہوئے اس کے بعد میچ بچانے کی واحد امید کپتان بابر اعظم تھے۔ ساجد خان اور بابر اعظم کی پارٹنر شپ بھی کچھ دیر ہی چل سکی۔ پچپن کے انفرادی سکور پر سٹیو سمتھ نے کپتان بابر اعظم کا مشکل کیچ لے کر اپنی ٹیم کو فتح کے مزید قریب کیا۔ ساجد خان اکیس رنز بنا کر ا?ؤٹ ہوئے۔ حسن علی شاہین ا?فریدی بھی زیادہ وقت نہ گذار سکے۔ ا?سٹریلوی کپتان پیٹ کمنز نے نسیم شاہ کی وکٹ اڑا کر ٹیم کو فتح دلوائی اور اس طرح ا?سٹریلیا نے میچ ایک سو پندرہ رنز سے ٹیسٹ میچ اور سیریز جیت لی۔آسٹریلیا کے خلاف دوسری اننگز میں حسن علی کے آؤٹ ہونے پر ڈیوڈ وارنر نے فاسٹ بولر کے جنریٹر سٹائل میں جشن منایا جبکہ شاہین آفریدی کے وکٹ لینے کے انداز کی بھی آسٹریلوی فیلڈرز نقل کرتے رہے۔ پاکستان ٹیسٹ سیریز ہار گیا۔ چوبیس سال بعد دورے پر آنے والی آسٹریلوی ٹیم نے ہماری میزبانی سے ضرور لطف اٹھایا ہو گا لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کی منفی حکمت عملی نے یقیناً مہمان کھلاڑیوں کے اعصاب کا امتحان لیا ہے۔
ٹیسٹ وکٹ کیپر بیٹر کامران اکمل کہتے ہیں کہ سیریز مین پاکستان کی منفی حکمت عملی سے مایوسی ہوئی ہے۔ کہیں بھی جیت کی کوشش نظر نہیں آئی ہم اپنی ہوم کنڈیشنز کا فائدہ اٹھانے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔ یہ کیسی کرکٹ ہوتی رہی ہے جہاں نہ ہم نے اپنے فاسٹ باؤلرز پر اعتماد کیا نا سپنرز کے لیے سازگار پچز تیار لیں۔ بیٹنگ کا ایسا سست انداز تھا کہ شاید کوئی جیت کی طرف جانا ہی نہیں چاہتا، کھلاڑیوں کو اپنی صلاحیتوں پر اعتماد ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ جب تک مثبت سوچ کے ساتھ میدان میں نہ اتریں اچھے نتائج نہیں ملتے۔ نجانے کیوں لیگ سپنر کو نہیں کھلایا گیا لیگ سپنر یاسر شاہ پاکستان کپ میں وکٹیں حاصل کر رہے ہیں لیکن وہ پاکستان ٹیم کے لیے ان فٹ ہیں یہ کیسا میڈیکل پینل ہے اگر یاسر شاہ کو نہیں کھلانا تو ہھر زاہد محمود کو تو موقع دیں اسے کیوں سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ کیا وہ کوئی سرپرائز ہے۔ سلیکشن کا یہ طریقہ سمجھ سے باہر ہے۔ ہم جب آسٹریلیا سے ماضی میں ٹیسٹ میچ جیتے اس وقت ان کی ٹیم میں کئی ورلڈ کلاس کھلاڑی شامل تھے۔ ہمارے سوچنے کا انداز مختلف تھا اس مرتبہ مائنڈ سیٹ وہ نہیں
تھا جس سے ٹیسٹ میچ جیتے جاتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بیٹرز کو اپنے اپنے رنز کہ فکر ہے ایسے کرکٹ نہیں کھیلی جاتی۔ ہم اچھی پچز بنانے میں ناکام رہے، آسٹریلیا کی یہ ٹیم بھارت، سری لنکا حتیٰ کہ بنگلہ فیش بھی جائے تو ناکام ہو کیونکہ وہ اپنی سٹرینتھ پر پچز بنائیں گے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کپتان بابر اعظم اکیلے ذمہ دار ہیں پچز کی تیاری میں کوچنگ سٹاف اور سینئر کرکٹرز کی رائے بھی شامل ہوتی ہے۔ سب سے سوال ہونا چاہیے۔ آخر ٹیم مینجمنٹ کی بھی کوئی ذمہ داری ہے۔ چیئرمین کرکٹ بورڈ رمیز راجہ نے ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ کے بعد انعام دیا اب انہیں سوال بھی کرنا چاہیے کہ ٹیسٹ سیریز میں ناکامی کیوں ہوئی ہے۔ بحثیت چیئرمین انہیں احتساب کرنا چاہیے، وہ احتساب کرنے کے عہدے پر ہیں۔ پہلے ٹیسٹ میچ کے بعد ان کا ایک ویڈیو پیغام میری نظر سے گذرا تھا جس میں وہ پچز کی تیاری کے حوالے سے بتا رہے تھے۔ ان کی طرف سے ایسے بیانات کی کوئی ضرورت نہیں ہے یہ ٹیم مینجمنٹ کی ذمہ داری ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ کرکٹ بورڈ کی طرف کھلاڑیوں کی ویڈیوز جاری کرنے کا سلسلہ نامناسب ہے توجہ کرکٹ کی بہتری پر ہونی چاہیے۔ شائقین کی تعداد میں اضافہ صرف اور صرف کامیابی کے ساتھ ہوتا ہے۔ کھلاڑی کمرے میں آ رہا ہے، جا رہا ہے گھر والوں سے بات کر رہا ہے ان چیزوں کی کوئی ضرورت ہے ایسے کاموں کی کوئی حد ہونی چاہیے۔