تبدیلی کے نام پر اقتدار میں آنے والی تحریک انصاف حکومت کی ناکامی اور عوامی مسائل میں اضافے کے بعد یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ تبدیلی کے لئے ایسی جوان قیادت کی ضرورت ہے جو جواںجذبوں، جواں حوصلے اور جواں نظریات کے ساتھ عوام کے ساتھ تعلق اوررابطہ بھی رکھتی ہو۔ اور اس وقت بلاشبہ اس قومی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے بلاول بھٹو اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ میدان سیاست میں موجود ہیں۔ بلاول بھٹو صرف جدید تعلیم سے ہی آراستہ نہیں بلکہ تین نسلوں سے عوام اور ملک کی ضرورت اور قربانی کے امین بھی ہیں۔ سیاست اورعوام سے محبت ان کے خون میں شامل ہے۔ اسی لئے پیپلز پارٹی جیسی عوامی اور قومی سیاسی پارٹی کی قیادت سنبھال کر مختصر مدت میں ہی سیاسی افق پرنمایاں ہوگئے ہیں۔ وہ 2018 کے انتخابات میں پہلی بار قومی اسمبلی میں آئے ہیں۔ انہوں نے اپنے نانا ذو الفقار علی بھٹو شہید اور والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی آبائی نشست سے الیکشن لڑ کر اور ان کے نقش قدم پر چل کر یہ سنگ میل عبور کیا اور اس وقت قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی توانا آواز بن کر جمہوری اور پارلیمانی روایات کی پاسبانی کر رہے ہیں اس طرح حقیقی اپوزیشن لیڈر کا کردار بلاول بھٹو ادا کرر رہے ہیں انہوں نے عوامی مسائل ہوں یا پارلیمانی روایات ہر موقع پر حکومت کے خلاف موثر انداز میں آواز بلند کی ہے اگر گزشتہ4سال کی پارلیمانی تاریخ دیکھی جائے تو بلاول بھٹو کو قومی اسمبلی میں ایک متحرک اور موثر آواز دیکھا جاسکتا ہے وہ ایک طرف اپنی پارٹی کے نظریات اور پالیسیوںکواجاگرکر رہے ہیں تو ساتھ ہی اپوزیشن کو متحد رکھنے کیلئے اقدامات بھی اٹھارہے ہیں۔بلاول بھٹو کو اس وقت ایک چومکھیلڑائی لڑنی پڑ رہی ہے وہ ایک طرف عوام دشمن فیصلوں اور مہنگائی کے طوفان سے عوام کو بچانے کیلئے حکومت کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں دوسری طرف اپوزیشن کو متحد رکھنے اور پارلیمنٹ میں حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی کوشش بھی کررہے ہیںاس کے ساتھ اپنے والد اور اپنے خلاف نیب کے انتظامی مقدمات میں بھی پیش ہورہے ہیں اس قانونی اور عدالتی جنگ میں عوام بھی بلاول کے ساتھ ہیں اور اسلام آباد کی احتساب عدالت یا نیب آفس میں پیشی کے موقع پر پیپلز پارٹی کے جیالے بھی اپنے لیڈر سے اظہار یکجہتی کے لئے پہنچ جاتے ہیں۔ یہ عوامی پذیرائی حکومت کو بوکھلا دیتی ہے اور نہتے سیاسی کارکنوں پر جن میں خواتین بھی شامل ہوتی ہیں پولیس کے ذریعے تشدد کراتی ہیں۔ اس طرح حکومت کا انتقامی اور عدم برداشت کا نظریہ کھل کر بے نقاب ہوجاتا ہے۔ یہ روایت پیپلز پارٹی کی قیادت کا امتیاز ہے۔ شہید بھٹو اور شہید بی بی بھی اپنے کارکنوں کے ساتھ اسی محبت کا اظہار کرتے تھے۔ اور بلاول کے اسی رویے نے پارٹی کارکنوں کو پھر جیالا بنا دیا ہے۔ اس وقت ملک جس سیاسی اور انتظامی بحران کا شکار ہے حکومت ہر سطح پر ناکام ہوچکی ہے اور ملک عالمی مالیاتی اداروں کے آگے گروی رکھ دیا گیا ہے اس وقت ہر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ موجودہ حکومت کا اقتدار میں رہنا ملک کے لئے نقصان دہ ہوگا اس بحران سے نکالنے کیلئے بلاول بھٹو جیسی شخصیت ہی ضروری ہے بلاول میں قیادت کرنے کی صلاحیت کے ساتھ دوسروں کو ساتھ چلانے کی سیاست بھی موجود ہے جس طرح اپوزیشن کی بکھری قیادت کو ایک پلیٹ فارم اور ایک نکتے پر جمع کیا اسی طرح وہ ملک کو معاشی اور اقتصادی بحران سے نکالنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ بلاول پاکستان کا مستقبل ہیں اور وہ وقت زیادہ دور نہیں جب پیپلز پارٹی بلاول کی قیادت میں ایک بار پھر ملک کو ترقی اور استحکام کی طرف لے کر جائے گی۔ بلاول بھٹو زرداری کا ہر آنے والا دن ملک کی ترقی کا ضامن ہوگا۔ موجودہ حکومت جو منشورلے کر حکومت بنانے میں کامیاب ہو ئی تھی اس کو فراموش کرچکی ہے ۔تحریک انصاف کی حکومت تحریک مہنگا ئی کی حکومت بن چکی ہے ۔پیٹرولیم مصنوعات کو40سے60روپے فی لیٹر فروخت کرنے کادعوی کرنے والی حکومت اب خود 150روپے فی لیٹر فروخت کررہی ہے یہ تحریک انصاف کی حکومت کے قول وفعل میں کھلا تضاد ہے۔ مہنگائی نے عوام کا بھر کس نکال دیا ہے ۔تحریک انصاف کی حکومت نے عوام کے ساتھ جو سلوک کیا ان سے اجتماع کی استعداد بھی چھین لی لیکن جب پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے 27فروری سے کراچی سے لا نگ مارچ کا آ غاز کیا تو عوام کا سمندر امنڈ آ یا ۔ کراچی سے اسلام آ باد تک ہر ضلع اور تحصیل میں جس شاندار طریقے اور جوش و جذبے کے ساتھ عوام نے استقبال کیا اس سے یہی محسوس ہو تا ہے کہ عوام کی اکثریت نے پاکستان پیپلز پارٹی کو نہ صرف بڑی پارٹی تسلیم کیا ہے بلکہ عوام کا پی پی پر اعتماد کا اس بات کا ثبوت ہے کہ پیپلز پارٹی ہی واحد جماعت ہے جو موجودہ حالت میں عوام کی دکھوں کا مداوا کرسکتی ہے ۔بڑے بڑے تجریہ کر تسلیم کر چکے ہیں کہ حکومت نے آ ئندہ جون تک پیٹرو لیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے کا جواعلا ن کیا ہے وہ محض بلاول بھٹو کے پریشر سے کیا ہے ۔یہ بھی سچ ہے کہ حکومت پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ سے شدید ذہنی کو فت میں مبتلا ہے اور بوکھلاہٹ کا شکار ہے ۔پی ٹی آ ئی کے ارکان اسمبلی سندھ ہائوس میں پناہ گزیں ہیں ۔ موجود ہ سیاسی صورتحال پی ٹی آ ئی مشکلات میں اضافہ کررہی ہے جبکہ پیپلز پارٹی سے منزل آ سان ہو تی جارہی ہے ۔