الیکشن مشرقی پنجاب اورپاکستان

مشرقی پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی تشکیل کا پاکستان کی مجموعی اور پنجاب کے حالات پربراہ راست اثر انداز ہونا فطری عمل ہے۔ سابق کانگرسی حکومت میں تبدیلی میں نوجوت سنگھ سدھو اور جرنل قمر جاوید باجوہ  کا کرتارپور راہداری میں جپھی ڈال کر محبت کا اظہار کرنا کافی حد تک دخیل تھا۔پاکستان انڈیا میں اچھے تعلقات اور جنگ کی صورت میں بلکہ کشمیر کے مسئلہ میں پنجاب اہم ترین خطے ہیں جن کو دونوں ملک استعمال کرتے ہیں۔ جون چوراسی کے گولڈن ٹیمپل پر حملے نے خطے کی صورت حال کو یکسر تبدیل کر دیا اور بعد ازاں بھارت میں بے بسی کے باوجود سکھوں نے بھارتی وفاداری کو مشروط نظروں سے دیکھا کہ اگر سکھوں کو عزت دی جاتی ہے یا ماضی کے ظلموں کی تلافی کی جاتی ہے تو سکھ بھارت کے ساتھ رہیں گے ورنہ خالصتان ان کا مذہبی ھق ہے۔ سکھ ازم میں مظلوم کی مدد لازم ہے جس کی وجہ سے سکھوں نے ہمیشہ کشمیریوں کی مدد کی ہے۔ یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ  بی جے پی نے پڑوسی  پر فوجی چڑھائی لازمی کرنا تھی مگر صرف اور صرف سکھوں کی مدد نہ ہونے کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہوسکا۔پنجاب انتخابات بیس فروری کو منعقد ہوئے اوردس مارچ کو ان کے نتائج کا اعلان کر دیا گیا ۔ مشرقی پنجاب کی صوبائی اسمبلی کی   117سیٹوں  پر انتخابات  میں پہلی مرتبہ عام آدمی پارٹی نے  92 نشستیں جیت کر ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ بھارتی مزاحیہ فنکار سردار بھگونت سنگھ مان پنجاب کے وزیر اعلی بنے۔برسراقتدار پارٹی کانگرس صرف  18  سیٹیں لے سکی جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی  صرف دو جبکہ شرومنی اکالی دل تین سیٹیں جیت سکی۔ کسان یونین کی جماعت کوئی سیٹ نہ جیت سکی۔سرومنی اکالی دل انگریزوں کے خلاف تحریک میں قربانیاں دینے والی جماعت تھی اور سکھ دھرم اور سیاست دونوں پر اثرانداز ہوتی آئی مگر پرکاش سنگھ بادل خاندان کی ذاتی خود غرضوں کی بدولت یہ اتہاسک اور روائتی پارٰٹی  کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔شکست کی انتہا ہے کہ سکھبیر سنگھ بادل بھی ہار گیا۔ ہارنے کے بعد سکھبیر سنگھ نے استعفا دیا مگر لوگوں کے اصرار پر واپس لے لیا جو کہ ایک اور مذاق تھا ۔ در اصل بادل خاندان اس پارٹی سے اس لئیے دستبردار نہیں ہونا چاہتی تاکہ ان کا واحد مذہہی جماعت پر قبضہ قائم رہے اور مقدس ترین سکھ اکال تخت پر اجاراداری قائم رہے یوں وہ نہ صرف سیاست بلکہ اقتدار سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے۔ اس الیکشن میں بادل خاندان کے علاوہ کپٹن امریندر سنگھ، نوجوت سنگھ سدھو، چرنجیت سنگھ چنی، بکرم سنگھ مجیٹھیا اور کئی دوسرے بڑے بڑے رہنما شکست فاش سے دوچار ہوئے۔  عام آدمی پاڑٹی کے مکھ منتری بھگونت سنگھ ما ن نے شہید بھگت سنگھ کے گائوں کھئکر کلاں میں حلف اٹھا کر انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگایا۔ انھوں نے دس رکنی کا بینہ کا اعلان کر کے مختلف اقدامات کا علان کیا جس میں 25000 نوکریاں اور33000کچے ملازمین کو مستقل کرنے کا اعلان کردیا ۔اروند کیجری وال نے پنجاب کے عوام کے بنیادی مسائل حل کر نے کا وعدہ کیا اور اپنے منشور پر عمل کر نے پر عہد دہرایا۔کا نگرس کی مرکزی رہنما سونیا گا ندھی اور راہول گاندھی کر کمزور قیادت نے پنجاب میں اپنی پوزیشن کا خود ستیاناس کیا۔جب کیپٹن  امریندر سنگھ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ تھے تو نوجوت سنگھ سدھو  نے پنجاب کے بنیادی مسائل کے حل کر نے پر بار با زور دیا مگر کیپٹن  امریندر سنگھ نے انہیں سیاسی مخالف کے طور پر لیا حتیٰ کہ کرتار پور  راہداری میںبھی نو جوت سنگھ سدھو کے اچھے کر دار کو غلط انداز میں پیش کیا۔اور تو اور کانگرس مرکزی قیادت نے بھی نوجوت سنگھ سدھو کا بھرپورانداز میں ساتھ نہ دیا اور محتاط طرزِ عمل اختیار کیا۔دوسری جا نب سدھو کو عمران خان اور پا کستان کا دوست ظاہر کر کے انہیں بھارت دشمن قرار دینے کی کو شش کی جاتی رہی  ۔جنرل قمر جاوید با جوہ کے ساتھ جپھی کو بھارت دشمن عمل قرار دیا گیا مگر کر تار پور راہداری میں سدھو کا قردار اتنا عظیم تھا کہ شرومنی اکالی دل کے لوگ بھی نوجوت سنگھ سدھو کے عقیدت مند گئے۔ا س مقبولیت کو دیکھتے ہوئے مرکزی قیادت نے اپنی پنجاب کا نگرس کا صدر بنا دیا مگر وزارتِ علیٰ نہ دی جس کی وجہ سے طاقت ور عہدہ نہ ہوکے باعث وہ صرف بیانات دینے والا لیڈر بن کر رہ گئے۔سدھو نے بھی سنیل جاکھڑ بلدیو سنگھ کے  وزیرِ علیٰ بننے کی مخالفت کی اور بالآخرچرنجیت سنگھ چنی وزیرِاعلیٰ بن گیا۔ یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ وزارت اعلیٰ سے نوجوت سدھو کو  محروم کر کے کانگرس قیادت نے پنجاب میں اپنے پائوں پر کلہاڑی ماری اور کا نگرس کے تمام بڑے لیڈر ایک دوسرے کے خلاف ہوگئے اور الیکشن کے دوران میں ان بڑے لیڈروں نے کئی دوسرے حلقے کا دورہ نہ کیا۔1885؁ء سے کا م کر نے والی   کا نگرس اب لاوارث اور بغیرقیادت کے الیکشن لڑ رہی تھی۔اگر نوجوت سنگھ سدھو کو وزیرِ اعلیٰ بنایا جاتا تو الیکشن کے نتائج مختلف ہوتے۔دوسری طرف ان انتخابات نے بادل اور کیپٹن امریندر جیسے کئی سیاسی  گھرانوں کو سیاست سے با ہر پھینک دیا۔شرومنی اکالی دل 1923؁ء میںسکھ مذہبی اور سیاسی قوت کے روپ میں ظاہر ہوتی اور جلد ہی سیاست پر چھا گئی مگر گزشتہ سالوںمیںاکال تحقت جسے مقدس تریں ایوان کواپنے ذاتی مقادات کے لیئے استمعال کر کے پر کاش سنگھ بادل نے سکھوں کو مسلسل پریشان رکھا۔اور اب اس کا انجام انتہائی بُرا نکلا۔بی جے کا پنجاب دشمن رویہ شروع سے عیال ہے اور کسانی احتجاج اور جاتی نقصان نے بی جے پی کی پنجاب سیاسی موت کاپروانہ لکھ دیا تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ کسان لیڈر بلبرراجے وال کی غیر سیاسی قیادت میں کسان یو نین ان انتخابات میں کو ئی اہم کردار ادا نہ کر سکی۔ان انتخابی نتائج کا خوبصورت پہلو یہ ہے کہ الیکشن میں جانی و مالی نقصان نہ ہوا اور یہ پر امن ماحول میں منقد ہوئے دوسرا خوبصورت پہلو یہ ہے کہ اس کے نتائج تمام سیاسی جماعتوںنے تسلیم کیئے اور کہا کہ عوام کا ووٹ خدا تعالیٰ کی آواز ہوتا ہے اور رائے کو خداکی رضا سمجتے ہوئے وہ عام آدمی پارٹی کو مبارکباد دیتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ پنجاب  اور عوام کے ساتھ کیے گئے وعدوں کے مطابق عام آدمی پارٹی پنجاب کو خوشحال بنائے گئی۔ان نتائج میں کئی رہنماؤںنے اپنی پارٹی یا قیادت سے استعفے دے دیئے۔ ایک اور اہم پہلویہ ہے کہ ان انتخابات میں پاکستان کے خلاف پراپگیندہ استمعال نہ کیا گیا ورنہ ہر الیکشن میں پاکستان کو ٹارگٹ کر کے ووٹ لیے جا تے تھے مگر ان انتخابات میں کسی پارٹی نے ایسا منشور نہ  لیاہابلکہ عوامی  مسائل کو منشور اور سیاسی گرہوں کا مرکز بنایا۔پاکستان میں بھی سیاسی وانتخابی طریقہ کار یوں بنایا جائے کہ الیکشن پر امن ہواور نتائج کو تمام سیاسی  لوگ تسلیم کریں۔ عوامی رائے کو خداکی آواز سمجھا جاتا تا کہ سیاست کو عوام کو فلاح و بہبود کے لئے استمعال کیاجاسکے علاوہ ازیں عام آدمی پارٹی چونکہ دہلی قیادت کے ماتحت ہے لہذا اس کا پا کستان کے بارے میں رویے کا آنے والے وقت میں پتہ چلے گا مگر یہ طے شدہ بات ہے کہ وہ بی جے پی سیا ست سے نفرت کر تی ہے اور دوسری طرف بھگونت مان کا میدین رہا اور وہ نفرت کی بنا پر حکومت نہیں کر ے گا۔محبت بنیاد ہو تو سارے معا ملات ٹھیک ہو جاتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن