اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کونسا مقدمہ کس بینچ میں لگانا ہے بطور چیف جسٹس میں فیصلہ کرتا ہوں۔ احسن بھون کس روایت کی بات کر رہے ہیں؟۔ بیس سال سے بنچز چیف جسٹس ہی بناتے ہیں۔ بلاوجہ اعتراضات کیوں کیے جاتے ہیں؟۔ مجھ سے کسی کو مسئلہ ہے تو آ کر بات کریں۔ ججز عدالتی وقت ختم ہونے کے بعد کئی گھنٹے تک مقدمات سنتے ہیں۔ عوام میں جو کچھ بھی کہا جاتا ہے وہ صرف میڈیا کیلئے ہے۔کسی جج کو بغیر ثبوت کے نشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔ بنچ تشکیل دینے کا اختیار ہمیشہ سے چیف جسٹس کا رہا ہے۔ چیف جسٹس نے صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون کے بینچز تشکیل کیلئے مشاورت کی روایت کے بیان پر کہا احسن بھون کس روایت کی بات کر رہے ہیں؟۔ بیس سال سے بنچز چیف جسٹس ہی بناتے ہیں۔ بلاوجہ اعتراضات کیوں کیے جاتے ہیں؟۔ رجسٹرار کی تعیناتی چیف جسٹس کرتے ہیں۔ رجسٹرار کی تعیناتی بہترین افسروں میں سے کی گئی ہے۔ رجسٹرار کو قانون کا بھی علم ہے اور وہ انتظامی کام بھی کرنا جانتے ہیں۔ کیا آپ چاہتے ہیں انتظامی کام بھی میں کروں؟۔ کونسا مقدمہ مقرر ہونا ہے اور جس بنچ میں مقرر کرنا ہے یہ فیصلہ میں کرتا ہوں۔ مجھ سے کسی کو تکلیف ہے تو آ کر بات کریں۔ ادارے کی باتیں باہر کرنے کی ضرورت نہیں۔ گھر کی بات گھر میں ہی رہنی چاہیے، ہم تو برادری کی بات بھی باہر نہیں کرتے۔ ججز خود پر لگے الزامات کا جواب نہیں دے سکتے۔ سنی سنائی باتوں پر سوشل میڈیا پر الزامات نہ لگائے جائیں۔ فیصلوں پر تنقید کریں ججز کی ذات پر نہیں۔ مفید علم کی بات کریں، یہ گفتگو کرنا نہیں چاہتا تھا لیکن دل میں آئی بات کر دی۔ چیف جسٹس نے کہا کون سے مقدمات کہاں اور کب مقرر کرنے ہیں بطور چیف جسٹس میں فیصلہ کرتا ہوں۔ رجسٹرار پر اعتراض مت کریں، مسئلہ ہے تو مجھ سے بات کریں۔ اعتراض کرنے والے اپنا مقام اور منصب دیکھیں۔ میں آج ہوں کل نہیں ہوں گا، ادارے کا تحفظ کریں۔ پہلے بھی کہا فیصلوں پر تنقید کریں ججز پر نہیں۔ لیکن آپ اچھی سوچ کے مظہر بنیں۔ دیہاتی آدمی ہوں اور دیہاتیوں میں بات سننے کا حوصلہ ہوتا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی محمد امین کے بار ے میں اپنے خطاب میں کہا جسٹس قاضی امین نے فوجداری مقدمات میں تاریخی فیصلے دیئے۔ جسٹس قاضی امین نے گواہان کے تحفظ کی ریاستی ذمہ داری کو فیصلوں میں اجاگر کیا۔ فروری اور مارچ میں سپریم کورٹ چار ہزار مقدمات کا فیصلہ کر چکی ہے۔ سپریم کورٹ میں زیرالتواء مقدمات کی تعداد میں ایک ہزار تک کمی آئی ہے۔ بار بار التواء لینے کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے۔ ساتھی ججز اور وکلاء کا زیرالتواء مقدمات نمٹانے میں کردار پر مشکور ہوں۔ پاکستان بار کونسل نے عمومی الزامات لگاتے ہوئے ججز کو سرکاری ملازم کہا۔ ججز کو سرکاری ملازم کہنا انتہائی غیرمناسب بات ہے۔ سپریم کورٹ میں ججز انتہائی قابل اور پروفیشنل ہیں۔ ججز تعیناتی کیلئے طریقہ کار متفقہ طور پر وضع کیا جا رہا ہے۔ ججز کیلئے قابلیت، رویے، بہترین ساکھ اور بغیر کسی خوف و لالچ کا معیار رکھا ہے۔ اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں۔ ہم سب اللہ کو جواب دہ ہیں۔ وکلاء کیس تیاری کیے بغیر عدالت سے رحم کی توقع رکھیں تو ایسا نہیں ہو سکتا۔ آج کمرہ عدالت نمبر ایک میں التواء کی کوئی درخواست نہیں آئی۔ فل کورٹ ریفرنس سے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے خطاب میں کہا جسٹس قاضی امین فوجداری مقدمات کے ماہر مانے جاتے ہیں۔ جسٹس قاضی امین نے بطور جج فوجداری مقدمات کی سماعت کی۔ جسٹس قاضی امین سول مقدمات پر بھی عبور رکھتے ہیں۔ سپریم کورٹ آئین اور بنیادی حقوق کی محافظ ہے۔ پاکستان کی عوام کا اعتماد اور بھروسہ سپریم کورٹ پر ہے۔ سپریم کورٹ بطور ادارہ ایک فیملی کی طرح ہے۔ سپریم کورٹ کے اندرونی معاملات ادارے کے اندر طے ہونے چاہیے۔ وائس چیئرمین پاکستان بار چوہدری حفیظ الرحمان نے کہا کہ جسٹس فائز عیسی کیس میں جسٹس قاضی امین کے فیصلے سے بار میں تشویش پائی جاتی ہے۔ جسٹس قاضی امین کے بعض فوجداری فیصلوں کو آئین و قانون سے متصادم سمجھا جاتا ہے۔ پوری قوم کی نظریں اس وقت سپریم کورٹ پر ہیں۔ عدالت ایسے فیصلے کرے جس سے آئین کی بالادستی کا بول بالا ہو۔ سپریم کورٹ بار کے صدر احسن بھون کا فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں کہنا تھا کہ جسٹس قاضی امین ایڈہاک تعیناتیوں کے ہمیشہ خلاف رہے۔ اعلی عدلیہ میں بامعنی اور بامقصد تعیناتیوں کے اصول وضع کیے جائیں۔ جسٹس قاضی امین کی طرح اہل وکلا کو براہ راست سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا جائے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدلیہ کا وقار بلند، آئین کی بالادستی قائم ہوگی۔ جسٹس قاضی فائز عیسی ایماندار حج، عدلیہ کے وقار کی علامت ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کے خط سے عدلیہ میں تقسیم کا تاثر ملتا ہے۔ امید ہے چیف جسٹس معاملے پر محبت اور یگانگت کے ماحول کی آبیاری کریں گے۔