پیکا آرڈیننس بادی النظر میں آئین سے متصادم، کیوں نا کالعدم قرار دید یں: جسٹس اطہر

Mar 26, 2022


 اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے پیکا آرڈیننس کے خلاف پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس، آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی سمیت دیگر درخواستوں میں دلائل کیلئے آخری مہلت دیتے ہوئے حکومت کو تین سوالات بھی دے دیے۔ گذشتہ روز سماعت کے دوران پی ایف یو جے کے وکیل عادل عزیز قاضی، وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود اور ڈپٹی اٹارنی جنرل سید طیب شاہ کے علاوہ دیگر  پیش ہوئے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایاکہ اٹارنی جنرل سپریم کورٹ آف پاکستان میں مصروف ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ پیکا آرڈیننس بادی النظر میں آئین سے متصادم ہے، ایف آئی اے نے مسلسل اختیارات کا غلط استعمال کیا، اختیارات کا غلط استعمال تنقید اور مخالف آوازوں کو دبانے کیلئے کیاگیا، دلائل دیں عدالت سن کر فیصلہ کرے گی، یہاں تین سوالات ہیں، پہلا سوال آرڈیننس بظاہر آئین کے آرٹیکل 89 کی خلاف ورزی میں جاری ہوا، پیکا سیکشن 20کا غلط استعمال ہو رہا ہے، پولیٹیکل مباحثوں کو ختم کرنے کے لیے یہ اختیار مسلسل غلط استعمال کیا جا رہا ہے، تہمت لگانے کے لیے قانون پہلے سے موجود ہے، بتائیں نا اس کے لیے کون سا قانون موجود ہے؟، پاکستان پینل کوڈ میں تہمت لگانے کے جرم کی سزا موجود ہے، پانچ سال تک کی سزا ہے، کسی جمہوریت  میں سیلف سنسر شپ کیسے ہوسکتی ہے، عدالت کی معاونت کریں کیوں نہ پیکا کی سیکشن 20 کو کالعدم قرار دیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ پی پی سی کی سیکشن 496 سی اس متعلق موجود ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ اس جرم کی سزا پانچ سال ہے جس کا اطلاق سوشل میڈیا پر تہمت لگانے والے پر بھی ہو گا، پبلک آفس ہولڈر کے لیے تو معیارات مختلف ہیں، وہ تو خود کو پبلک سروس کے لیے پیش کرتا ہے، ایف آئی اے نے جو رپورٹس پیش کیں وہ تو انٹرنیٹ پر صحافیوں کی سرویلنس کر رہے ہیں؟، کسی بھی جمہوری ملک میں سیلف سینسر شپ کیسے ہو سکتی ہے؟، آرڈیننس لانے میں کیا عجلت تھی؟ کیوں نا آرڈی نینس کو کالعدم قرار دیا جائے؟ دلائل شروع کریں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کرنا تھا مگر انہوں نے صدارتی ریفرنس پر دلائل دینے ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ ملک میں جمہوریت اور آئین ہے، پبلک آفس ہولڈر سوشل میڈیا سے پریشان کیوں ہیں؟، آپ کو بین الاقوامی سٹینڈرڈز بھی دیکھنے ہیں، ہم اکیسویں صدی میں ہیں، ملک کو پیچھے تو نہیں لے کر جانا، ترمیمی آرڈیننس پر عملدرآمد رکا ہوا ہے، یہی تو پوچھ رہے ہیں کہ آرڈیننس لانے میں جلدی کیا تھی؟صرف اسی ایک نکتے کی بنیاد پر آرڈی نینس کالعدم قرار دیئے جانے کے قابل ہے، آرٹیکل 89کے تحت صدر کا آرڈیننس جاری کرنے کا اختیار پڑھیں، منیر اے ملک نے نہایت اہم نکتہ اٹھایا ہے، جس دن آرڈیننس جاری ہوا اس دن قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا تھا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ ترمیمی آرڈیننس کے تحت سیکشن 20سے نیچرل کا لفظ نکالا گیا، اس میں انسٹی ٹیوٹس کو شامل کا گیا، جیسا کہ ججز خود شکایت درج نہیں کرا سکتے، اس ترمیم کے ذریعے رجسٹرار کو شکایت درج کرانے کا اہل بنایا گیا، چیف جسٹس نے کہاکہ ججز خوفزدہ نہیں، ججز کی ساکھ ان کے کنڈکٹ اور فیصلوں سے بنتی ہے، ادارے پر عوام کا اعتماد ضروری ہے، ہر ادارہ عوام کو جوابدہ ہے، حکومت کو چاہئے کہ وہ عدلیہ کے بارے میں پریشان نہ ہو، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ مثبت تنقید پر کوئی اعتراض نہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کون طے کرے گا کہ تنقید مثبت ہے یا منفی؟، اگر کوئی ادارہ ہتک عزت کا مقدمہ دائر نہیں کر سکتا تو وہ یہاں کیسے شکایت درج کرا سکتا ہے،آرڈیننس میں اداروں کی توہین سے روکنے کی بات کی گئی،اداروں کی توہین کیسے ہو سکتی ہے؟، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ معاشرے میں کچھ اداروں کی ساکھ کی حفاظت کرنا ہوتی ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ مثلاً  کس ادارے کی حفاظت کرنا ہوتی ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ معزز جج صاحبان سمیت سب کی ساکھ بچانا ضروری ہوتا ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ حکومت کو ججوں کی کیوں فکر ہو رہی ہے؟، ججوں پر کیوں تنقید نہیں ہونی چاہیے ؟،ججوں کی ساکھ تو ان کے فیصلے ہوا کرتے ہیں،تنقید سے تو کسی کو بھی نہیں ڈرنا چاہیے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ کسی جج کو خود شکایت ہو تو رجسٹرار کے ذریعے وہ شکایت کرتا ہے، ایسی ہی صورتحال کیلیے اس آرڈیننس میں گنجائش دی گئی،چیف جسٹس نے کہاکہ آپ عدلیہ کیلئے ہی یہ کر رہے ہیں تو جان لیں عدلیہ کو تنقید سے کوئی پریشانی نہیں،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ مثبت تنقید سے آرڈیننس میں نہیں روکا گیا، چیف جسٹس نے کہاکہ یہ کون فیصلہ کرے گا کہ تنقید مثبت ہے یا منفی ہے؟،منیر اے ملک نے کہا کہ فیک نیوز کا حل زیادہ سے زیادہ سچ بولنا ہے،جسٹس دراب پٹیل اور جسٹس کارلینوس کی ساکھ کو تو آج تک کسی نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ اس زمانے میں تو سوشل میڈیا بھی نہیں تھا، موجودہ حالات میں اس کی ضرورت محسوس ہوئی،چیف جسٹس نے کہاکہ پاکستان سول رائٹس کے عالمی معاہدوں کا دستخط کنندہ ہے، آپ ان کے خلاف جا رہے ہیں،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ فریڈم آف پریس میں ہمارے ہاں پچھلے دس پندرہ سال میں بہتری آئی، چیف جسٹس نے کہاکہ بہتری نہیں آئی ہم واپس پیچھے جا رہے ہیں،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ پیکا ترمیمی آرڈیننس پریس سے متعلق نہیں سوشل میڈیا سے متعلق ہے، عدالت نے کہاکہ سوشل میڈیا کا غلط استعمال تو سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں،اظہار رائے کی آزادی میں کون سے ممالک سرفہرست ہیں؟،فِن لینڈ اور سکینڈینیویا میں آزادی ہے تو  کیا تمہیں لگتی ہیں؟، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ وہاں تہمتیں نہیں لگتیں اسی لئے ایسے قوانین کی ضرورت نہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ وہاں کی سیاسی قیادت نے ایسے اخلاقی معیار بنا رکھے ہیں، سوشل میڈیا سے کس کو خطرہ ہے؟ سوشل میڈیا کو مورد الزام کیوں ٹھہرایا جائے؟ ،کرنل انعام رحیم ایڈووکیٹ نے کہاکہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان گرے لسٹ میں ہے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ گرے لسٹ کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں،عدالت نے کہاکہ فریڈم آف پریس کی انڈیکس میں کون سے ممالک ٹاپ پر ہیں؟ کیا وہاں پر تہمتیں لگتی ہیں؟، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ اسی لیے تو وہاں ان قوانین کی ضرورت نہیں،چیف جسٹس نے کہاکہ اگر سوسائٹی کی ویلیوز خراب ہیں تو کیا آئین ختم کر دیں؟،سیاسی جماعتوں اور لیڈرز کی ذمہ داری ہے، وہاں کی لیڈرشپ نے اخلاقی معیار قائم کر رکھے ہیں،صدر نے پارلیمنٹ کو نظرانداز کر کے آرڈی نینس جاری کیا، پہلے مطمئن کریں صدر کے پاس ایسا آرڈیننس لانے کا اختیار تھا؟، ہتک عزت کے قوانین تو پہلے سے بھی موجود تھے،آپ نے ایف آئی اے کو اختیار دے دیا کہ اس پر گرفتار کر لیں، ہتک عزت کے قوانین میں تو سزا بھی عموماً گرفتاری کی نہیں ہوتی،آپ نے ایف آئی اے کو ہتک عزت کے کیس میں براہ راست گرفتاری کا اختیار دے دیا ہے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ آئین کے آرٹیکل 89کے حوالے سے دلائل کے لیے مہلت چاہیے، اس معاملے پر عدالت کو مطمئن کرنے کے لیے کچھ حقائق دیکھنے پڑیں گے، صرف صدر مملکت کا ٹوئٹ کافی نہیں کہ اجلاس بلایا گیا تھا، یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ایجنڈا پر کیا چیزیں تھیں،چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کو آخری موقع دے رہے ہیں، پیر کو دلائل دیں،بتائیں کہ ہتک عزت کو فوجداری کیوں بنایا جائے؟، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ مجھے دو تین ورکنگ ڈیز دیے جائیں تاکہ کچھ معلومات اور ہدایات لے سکوں۔

مزیدخبریں