”اس بار،ثواب کو ضرب دیجیے“


پاکستان سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں کے مقدس مہینے کا آغاز ہو چکا ہے جس کے استقبال کی مسلم اور غیرمسلم دنیامیں اپنے اپنے انداز میں ہفتہ ڈیڑھ قبل ہی تیاریاں شروع کر دی گئی تھیں۔ ابو ظہبی کو ہی لے لیجیے ، تمام ہائپر اور سُپر مارکیٹوں نے دوران ِرمضان دس ہزار سے زائد اشیائے خوردنی پر پچھتر فی صد تک رعایت کا اعلان کر دیا ہے، تاکہ اس ”کشادہ دل ، سخاوتی مہینہ “ کی لاج رکھتے ہوئے ہم وطنوں کے ساتھ کشادہ دلی اور فیّاضی کے ساتھ پیش آیا جائے ۔ وطنِ عزیز میں بھی ”حسبِ روایت“ استقبالِ رمضان کا ساماں جوش وجزبہ سے جاری ہے ۔ مساجد کےلئے نئی صفوںاور قالینوں کابندوبست کیا گیا ہے۔حُفّاظِ کرام قرآنِ پاک کی دُہرائی پر دُہرائی کر رہے ہیںتاکہ امامتِ تراویح کا حق ادا کر سکیں۔نعت خواں حضرات دِیدہ زیب لباس کے ساتھ ساتھ اپنے گلے کی نفاست اور غنائیت کےلئے مُلٹھی ودیگر خوش گلُو جڑی بوٹیوں کا انتظام کر چکے ہیں۔کاروباری حضرات خورونوش کی اشیاءکی ترسیل اور دستیابی یقینی بنانے کےلئے ایک سے بڑھ کر ایک اہتمام کرتے دِکھائی دیتے ہیں۔ جگہ جگہ دکانوں پر ٹوپیاں، تسبیاںاور مسواک آوِیزاںہو گئے ہیں۔ زکوٰةادا کرنے والے مخّیرحضرات،اپنی آمدنی کا حساب لگا رہے ہیں، تاکہ اُس پر اُٹھنے والی زکوٰة، ماہِ رمضان میں ادا کر کے ثواب کو ”ضرب“دے سکیں۔غرض یہ کہ ہرشہری، حسبِ ذوق و حیثیّت ، ماہِ رمضان منانے کے اہتمام میں مگن ہے۔
دراصل روحانیت اور طَہارت کی جو فضاءماہِ رمضان میں اُجاگر ہوتی ہے، کسی بھی غیرمذہب کی عبادات یا تہوار کے دنوںمیںقائم نہیں ہوتی۔ اسلام شخصی مذہب نہیں،بلکہ اجتماعی دین ہے۔ اس کی فرض عبادات کو اجتماعی طور پر ادا کرنے کا حکم ہے۔ نمازکےلئے حکم ہے”جُھکنے والوں کے ساتھ جُھکو“۔ماہِ رمضان کے روزے کسی مخصوص شخص یا قبیلہ کےلئے فرض نہیںکیے گئے،بلکہ پورے مسلم معاشرہ کےلئے ایک ساتھ ادائیگی پر زور دیا گیا ہے۔اسی طرح حج ایک واضح اجتماعی عبادت ہے جسے اداکرنے کےلئے مسلم معاشرہ کے ارکان پوری دنیا سے مکّہ مُکرمہ پہنچتے ہیں۔اسلامی عبادات، حقوق و فرائض کو جنم دیتی ہیں، جیسے جب کوئی شخص نماز پڑھتا ہے، تو وہ اپنے لئے،اپنی اولاد ،اپنے والدین اور جُملہ مومِنِین کےلئے بخشش کی دُعا کرنے کا پابندہے۔مگرافسوس،ہماری انفرادی عبادتیں اجتماعی رُوح کا فیض حاصل نہیںکر پاتیں،کیونکہ ہم نے عبادت کو معاملاتِ زندگی سے جُدا کر دیا ہے اور دین کی روح سے عدم جانکاری کے باعث مذہب کو ذاتی فعل جان لیا ہے۔تاہم جب ہم غیر مسلموں کے مذہبی اَیّام اور تہواروں پر نظردوڑاتے ہیں، توپتہ چلتا ہے کہ جب انکے مذہبی اَیّام آتے ہیں تواشیاءکے دام یکسرگرجاتے ہیں۔کاروباری طبقہ اپنے چار سُو پھیلے عوام کو بلا تخصیصِ مذہب نفع پہنچانے کا تہیّہ کر لیتاہے۔
ہم وطنِ عزیز میںایک طرف توروح کی پراگندگی کی صفائی کے لئے عبادات کا پُر تکلّف اہتمام کرتے ہیں ،دوسری طرف،لمحاتِ رمضان کو غنیمت جانتے ہوئے خورونوش اور دیگر استعمال کی اشیاءفربہ داموں فروخت کرتے ہیں۔پرانی چیزوں پر نئے لیبل لگا دیتے ہیں۔حالانکہ ہمیں معلوم ہے کہ غریب سے غریب مسلمان، دورانِ ماہِ رمضان،باقی گیارہ مہینوں کی نسبت، زیادہ خریداری کرتا ہے۔ مثلاًسحروافطار کےلئے سامانِ خورونوش ،عید سے قبل، بہنوں، بیٹیوںاور دیگر گھر والوں کےلئے حسبِ حیثیّت عید کے تحائف خریدتا ہے۔ہم اُس کی مجبوری سے بھر پور لطف اُٹھاتے ہیں اور اُسے دو دھاری تلوار سے کاٹتے ہیں۔ایک تو اشیاءکی قیمت بڑھا چڑھا کر وصول کرتے ہیں، دوسراماہِ مبارک کو،ناقِص مال کے نکالنے کا بہترین موقع سمجھتے ہیں۔کاروباری طبقہ سے قطعہ¿ نظر ملازمت پیشہ افراد کی اکثریت، دن بھر روزہ میں،رات نوافل، استغفاراور خُشوو خُضوع میں ڈوبی دعاﺅں میں گزارتی ہے۔ عبادت کی تھکن کے باعث ، صبح دوستوں کو فون کر دیتے ہیں کہ حاضری لگا دینا،یا رخصت بھیج دیتے ہیں۔ سینکٹروں میل دُور سے آئے سائل اُن کے دفاترکی چوکھٹوں پر کھڑے دن بھر جھانک جھانک کر پوچھتے ہیں،صاحب آئے ہیں کہ نہیں۔
ہمیں اپنے مذہبی شعائر سے والہانہ عشق ہے۔کسی مسلمان بھائی کے ہاتھ سے ، بادِل نخواستہ، مُقدّس کتاب گرجائے یا غلطی سے کسی بے وضو کا ہاتھ لگ جائے تو حمیّتِ دین میں،شب و روز کی محنت سے، ہم اسے کافر قرار دِلوانے کے درپے ہوجاتے ہیں،اوربس چلے تو اپنے ہاتھوں”انصاف کے تقاضے“ پورے کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، تاہم اِس کتاب کے اندردیئے گئے احکامات اورہر حکم کے ہر لفظ کی عملاًنافرمانی کرتے ہوئے توہین کے مسلسل مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔ مگرہماری اس نافرمانی اور توہین کونہ تومعاشرہ توہینِ قرآن سمجھتاہے اور نہ ہمیں احساسِ ندامت ہوتا ہے۔”ایسی روش کو میں منافقت کیوں کہوں،مجھے بھی جان عزیز ہے ۔
 توجہ طلب بات یہ ہے کہ کِتنے ہم وطنوں نے ااستِقبال رمضان کی تیاری اس ارادے سے شروع کی ہے کہ امسال ہم اپنی شخصی عبادت کو اجتماعی مفاد میں گوندھیںگے۔اپنی منڈیوں ،تجارتی مراکز اور دکانوں پر سے ناکارہ، بوسیدہ اور ناپائیدار چیزوں کو تَلف کر کے عُمدہ،قابلِ استعمال اور خالِص اشیاءکوجائز داموں فروخت کریں گے۔مادی منافع کو ضرب دینے کی بجائے اس سال، دورانِ رمضان، رَب کے حُضور ثواب کو ”ضرب“دیںگے۔ اس ماہ ہم نے ذخیرہ کیے ہوئے سامان کو رَب کی خوشنودی اور لوگوں کی بھلائی کے لئے فروخت کرنا ہے۔گیارہ ماہ ہم نے جتنا منافع وصول کر لیا ہے، وہی ہمارے لیے کافی ہے۔ہمیں اس سال، اس ماہ،ناجائز منافع خوری سے بچنا ہے۔

ای پیپر دی نیشن