پاکستان کی عریاں معیشت کو خِلعَتِ فاخِرَہ زیبِ تَن کرانے کے لئے اسد عمر، عبدالحفیظ شیخ، حماد اظہر، شوکت ترین اور مفتاح اسمٰعیل کی سَعِی لا حاصل کے بعد اِس شعبے میں مَہارَت، ہنرمندی اور زِیر و بَم کی نزاکتوں کو سمجھنے کی شہرت رکھنے والے اسحاق ڈار کو اکھاڑے میں اتارا گیا. اِس تبدیلی سے ایک مبہم سی امید بندھی تھی کہ وہ کسی مستعدی، جادوگری اور کمال سے اپنے مشن میں کسی حد تک سرخروئی حاصل کر لیں گے مگر ایسا ہو نہ سکا. الٹا ان کی بَنی ٹَھنی ساکھ اور بھرم پر سوالیہ نشان لگ گیا. سنجیدگی سے غور کیا جائے تو اِس ناکامی، نامرادی اور ناچاری کا تنقیدی اور تجزیاتی جائزہ لینے کے لئے کسی عدالتی کمیشن، معاشی جے آئی ٹی، قائمہ کمیٹی یا وَسِیع المطالَعَہ تھنک ٹینک کی پیش کردہ لمبی چوڑی تفصیلات اور جزویات پر عرق ریزی کرنے کی چنداں ضرورت نہیں. فقط مرزا غالب کا ایک شعر سب کچھ سمجھنے کے لئے نہ صرف ممِدّ و معاون ثابت ہوگا بلکہ یقیناً سب پر بھاری بھی ہوگا.
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقَہ مَستی ایک دن
بے تحاشا اور بلا سوچے سمجھے قرضے لینے کے عمل سے کل آبادی کی نصف فیصد سے بھی کم اشرافیہ کا معدہ پھیل کر افریقی النسل ہاتھی اور وہیل مچھلی کے پیٹ کی مانند وسعت اختیار کر چکا ہے. دوسری طرف غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والی مفلوک الحال اکثریت کا معدہ سکڑ کر کیوبا کے جنگلات میں پائے جانے والے ہمنگ نامی پرندے کے پوٹے میں تبدیل ہوگیا ہے.
توقعات اور خدشات کے عین مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ (30 اپریل) اور شیڈول کا نوٹیفکیشن واپس لے کر انتخابات آٹھ اکتوبر کو کرانے کا باضابطہ حکم جاری کر دیا ہے. عمران خان نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اِس فیصلے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے. چیف جسٹس آف پاکستان پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر ملک میں شفاف انتخابات کے انعقاد کے عمل میں بدنیتی کا مظاہرہ کیا گیا تو عدالت مداخلت کرے گی. وزیر داخلہ نے چیف جسٹس کو مخاطب کر کے کہا ہے "آئین میں آپ کے اختیارات کو ہم تسلیم کرتے ہیں۔ کیا یہ ذمہ داری صرف پارلیمنٹ کی ہے یا سیاسی جماعتوں کی ہے کہ الیکشن صاف شفاف ہوں۔ کیا ہماری رائے آپ کے سامنے رکھنا غیر آئینی اور غیر قانونی عمل ہے؟" انہوں نے سوالیہ انداز میں مزید کہا، "اس طرح کا کام ملک میں انارکی لائے گا. کیا اس پر آپ سوچ بچار نہیں کر سکتے؟"
اِن حالات میں 'کیا ہوگا اور کیا نہیں ہوگا' سے قطع نظر ایک بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ آنے والے دنوں میں بحرِ سیاست میں جاری تلاطم میں مزید تیزی آئے گی. لہریں لہروں سے ٹکرائیں گی. یوں ہم سرِ عام دَھما چوکڑی، دھینگا مشتی اور سر پھٹول کے یکتا کھیل کے ذریعے زمانے بھر میں اس کی تفریح کا باعث بننے والا تسلسل ٹوٹنے نہیں دیں گے. دنیا کے نقشے پر واقع بہت سے ممالک ایسے بھی ہیں جن کا مہینوں بڑے بڑے نشریاتی اداروں میں شاذ و نادِر ہی کبھی ذکر ہوتا ہوگا. مگر ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم دنیا کے اہم ترین میڈیا ہاو¿سز میں ہمیشہ ان کی خبروں کی زینت بنتے رہتے ہیں. ہم اپنے سیاسی فائدے اور ذاتی تشہیر کے لئے فخریہ انداز میں اِن کا حوالہ دیتے بھی نہیں تھکتے مگر ندامت سے کبھی یہ سوچنے کا تکلف گوارا نہیں کرتے کہ ہم اپنے معاملات کو افہام و تفہیم اور قواعد و ضوابط کے مطابق چلانے کی بجائے لَیت و لَعَلّ، شخصی مفاد، احساسِ تفاخر، انا، ضد، اور عناد کو کیوں فوقیت اور ترجیح دیتے ہیں؟
یہ امر الم نشرح ہے کہ اِس وقت حکومتی اتحاد اور اس میں بھی مسلم لیگ کی حالت قابلِ دید ہے. اس کی سب سے بڑا اور بنیادی سبب زبوں حال ملکی معیشت کا razor edge پر چلنا ہے. اِس کے ہولناک اثرات کے طفیل مہنگائی و بیروزگاری میں ہوشربا مسلسل اضافہ، آئی ایم ایف سے معاہدے میں غیر ضروری تاخیر، جماعتی حلقوں میں بیچینی اور ووٹ بنک میں واضح طور پر واقع ہونے والی کمی کا اندیشہ ہے. دیگر عوامل میں عدالتی فیصلوں پر مایوسی، پی ٹی آئی کے جارہانہ اور تابڑ توڑ حملے، خارجہ تعلقات میں طاری جمود کی فضا اور غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے فیصلہ سازی میں ہچکچاہٹ شامل ہیں.
دوسری طرف مختلف آڈیو اسکینڈلز، عمران خان کے جلوس پر وزیر آباد میں وقوع پذیر ہونے والا فائرنگ کا واقعہ اور مستقبل میں کسی نئے ممکنہ حملے کے انجانے خوف سے عمران خان بھی سخت ذہنی دباو¿ کا نہ صرف شکار دکھائی دیتے ہیں بلکہ اس کا کھلے بندوں اور واضح لفظوں میں اظہار بھی کرتے ہیں. مقدمات کی بھرمار، فوری انتخابات کرانے کی شدید تر خواہش کے راستے میں حکومتی اقدامات، نااہلی کے متوقع خدشات، گرفتار ہونے کا خوف اور 2018 جیسی باجواہی سلسلے سے فیض یابی حاصل نہ ہو سکنا تحریکِ انصاف کے لئے روح فرسا عوامل ٹھہرے. قمر جاوید باجوہ سے ایک پیج پر رہنے والی یادیں اور جنرل فیض حمید سے خوشگوار ورکنگ ریلیشن شپ خان صاحب کے ذہن سے کیسے محو ہو سکتی ہیں.
جنرل باجوہ اگر چاہیں تو وہ اپنی خود نوشت لکھ کر سب سے حساب کتاب برابر کر سکتے ہیں. اپنی خود نوشت میں، ظاہر ہے، مصنف خود ہی ہیرو ہوتا ہے اور باقی کرداروں کو حسبِ منشا کوئی مقام و مرتبہ، گر چاہے تو، عطا کرتا ہے۔
٭....٭....٭
چومکھی لڑائیاں
Mar 26, 2023