پوری دنیا میں پانی کا عالمی دن ہر سال 22 مارچ کو منایا جاتا ہے۔ پانی کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور آبی مسائل سے نبٹنے کےلئے زور دیا جاتا ہے۔ One World کا بھی پرچار کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس یہ دیکھا گیا ہے کہ دنیا میں درجہ حرارت بڑھنے کا سہرہ ترقی یافتہ ممالک کے سر ہے جس کی وجہ سے نہ صرف بارشوں کے گراف میں تبدیلی آئی بلکہ درجہ حرارت بڑھنے سے گلیشیئرز کے پگھلنے کا عمل بھی شروع ہو گیا۔ ماحولیات کی بہتری اور درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے کےلئے عالمی سطح پر درجنوں کانفرنسز ہو چکی ہیں لیکن اس کا کوئی عملی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ گذشتہ سال عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے نتیجہ میں برملا اظہار کیا گیا کہ پاکستان اور دیگر ممالک میں موسم کی تبدیلی کی وجہ سے جو نقصان ہوا، اس کے ذمہ دار دراصل ترقی یافتہ ممالک ہیں۔ عالمی اداروں کے مطابق پاکستان کو حالیہ سیلاب اور شدید بارشوں کی وجہ سے 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا۔ متاثر ممالک کےلئے 100 ارب ڈالر کی امداد کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔ یہ عالمی اداروں کی بے حسی ہی کہلائی جا سکتی ہے کہ ابھی تک پاکستان سمیت دیگر متاثرہ ممالک کےلئے کوئی امدادی پیکیج دور دور تک نظر نہیں آتا۔
ہمیں اپنے تئیں سوچنا ہوگا کیا ہماری حمیت غیروں کی امداد کی متلاشی ہے؟ کیا ہمارے ادارے اتنے کمزور ہیں کہ اپنے مسائل حل کرنے کےلئے بھی غیروں کے محتاج ہیں۔ نہیں! ہمیں اپنے مسائل کو سمجھنا ہوگا، اپنے وسائل کو جانچنا ہوگا اور ان کی مدد سے اپنے مسائل کے حل کےلئے راہ بھی تلاش کرنا ہوگی۔ پاکستان کے موسمی حالات کے مطابق برسات کے تین ماہ میں بڑی مقدار میں سیلابی پانی کی آمد ہوتی ہے جو ڈیم نہ ہونے کے باعث سمندر میں گر کر ضائع ہو جاتا ہے۔ اس سال موسم برسات میں 40 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر کی نذر ہوا لیکن30 ستمبر کو ارسا کی طرف سے ربیع میں 18% شارٹ فال کی خبر سنائی گئی۔ ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ جب پانی بہتات سے آتا ہے تو اسے سٹور کرنے کےلئے ڈیم چاہیے ہوتے ہیں اور جب پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو اسی پانی کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے دریاو¿ں میں پانی کتنا آتا ہے اور اس کے استعمال کےلئے ہماری منصوبہ بندی کیا ہے؟ صرف دریائے سندھ میں کل سیلابی پانی کا 60% سے زائد پانی آتا ہے۔ جہلم اور چناب کا پانی تو پوری طرح تصرف میں ہے جبکہ سندھ دریا میں آنے والا سیلابی پانی ان کنٹرولڈ ہوتا ہے۔ پھر سیلابی پانی کا سارا پریشر تربیلا سے نیچے ہے۔ اسے کنٹرول کرنے والا واحد مقام کالاباغ ہے۔ انجینئر شمس الملک برملا اظہار کرتے ہیں کہ ہمیں چاہیے تھا کہ تمام سیلابی پانی کو کنٹرول کرنے کےلئے پوری پلاننگ کی جاتی۔ اس کےلئے دریائے سندھ پر تمام مقامات کی نشاندہی کرنے کے بعد اتفاق رائے سے مرحلہ وار ان کی تعمیر ہوتی تو آج ہم سیلاب کی آفت سے دوچار نہ ہوتے۔ گذشتہ شدید بارشوں نے سندھ اور بلوچستان میں تباہی مچائی۔ دریائے سندھ سے آنے والے پانی کو کنٹرول کرنے کےلئے اگر کالاباغ ڈیم بنا ہوتا تو 4/5 لاکھ کیوسک روزانہ کا پانی کالاباغ ڈیم روک لیتا۔ اس طرح ڈیرہ اسماعیل خان، ڈیرہ غازیخان، راجن پور سمیت سندھ اور بلوچستان میں طوفانی بارشوں کا حجم دریائے سندھ کے ذریعے بآسانی کنٹرول کرکے سیلابی کیفیت سے بچا جا سکتا تھا۔ اربوں ڈالر کا نقصان بھی نہ ہوتا بلکہ ربیع کے سیزن کےلئے بھی ارسا کو پانی کی کمی کا اعلان نہ کرنا پڑتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے مسائل کے حل کےلئے مکمل جامع پلان بنائیں۔ ہمارے شارٹ ٹرم پلان بھی لانگ ٹرم پلان کا حصہ ہونے چاہئیں۔ محض ڈنگ ٹپاو¿ کاموں اور غیروں کی امداد کے منتظر رہ کر کبھی بھی اپنے مسائل حل نہیں کر سکتے۔
قدرت نے پاکستان کو آبی وسائل سمیت دیگر قدرتی وسائل سے مالامال کیا ہے۔ موسم برسات میں سیلاب تو آتے ہیں۔ اس کے علاوہ میدانی علاقوں میں بھی بارشیں ہوتی ہیں۔ اگر Rain Water Harvesting کی طرف توجہ دی جائے تو سیلاب کی شدت کو کم ہی نہیں کیا جا سکتا بلکہ آبی وسائل کی فراہمی کےلئے بھی مثبت اقدامات کئے جا سکتے ہیں۔ ذرائع آب اور اس سے تعلق رکھنے والے تمام شعبوں اور اداروں کے درمیان مکمل رابطہ ہونا چاہیے۔
اس طرح پانی کے وسائل پوری طرح بروئے کار لائے جا سکتے ہیں ورنہ یاد رکھیں! عالمی ماہرین خطرے کی گھنٹی بجا چکے ہیں اور اس بات کا اظہار بھی کر چکے ہیں کہ 2050 تک ہمالیہ کے گلیشیئرز بڑی تعداد میں پگھل چکے ہوں گے۔ پھر برسات کے دوران شدید سیلاب آئیں گے۔ اگر ہم نے ابھی سے بندوبست نہ کیا تو یاد رکھیں! پاکستان کو ہر دوسرے تیسرے سال 30/40 ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا اور آئندہ نسلیں بھی ہمیں کبھی معاف نہ کریں گی۔
٭....٭....٭