عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے کہا ہے کہ بیرونی شراکت داروں کی بروقت مالی امداد پاکستان کے ساتھ نویں جائزے کی کامیابی یقینی بنانے میں اہم ہوگی اور مالیاتی یقین دہانیوں کے بعد پاکستان کے ساتھ اگلا قدم اٹھا سکیں گے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو سست شرح نمو، بلند افراط زر اور بڑی مالیاتی ضروریات جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ دوسری جانب امریکی خاتون سینیٹر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بڑھتا سیاسی تشدد اور سیاسی تناﺅ پریشان کن ہے‘ پاکستانی رہنماﺅں کو جمہوری اور آئینی اصولوں کا احترام کرنا چاہیے جبکہ ادارہ¿ شماریات کے مطابق رواں ہفتے مہنگائی میں 1.80 فیصد اضافہ ہوا۔
حکومت پاکستان پیشگی اقدامات کے تحت آئی ایم ایف کو مطمئن کر چکی ہے تاکہ ورچوئل معاہدے کی راہ ہموار ہو سکے۔ پیشگی اقدامات پر حکومت کو نہ صرف اپوزیشن کی جانب سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا بلکہ مہنگائی کے نئے اٹھتے طوفانوں کے باعث اسے سخت عوامی ردعمل بھی برداشت کرنا پڑا۔ اسکے باوجود اب آئی ایم ایف کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ بیرونی مالیاتی یقین دہانیوں کے بعد ہی قرض کی نئی قسط کی جانب قدم اٹھایا جائیگا جس سے یہ تاثر پختہ ہوچکا ہے کہ آئی ایم ایف کو پاکستان کے بدخوا اسکے بعض رکن ممالک کی جانب سے باقاعدہ ڈکٹیشن دی جا رہی ہے جس کے تحت پاکستان کا گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ پاکستان کے مطمئن کرنے کے بعد آئی ایم ایف کے پاس اب کوئی جواز باقی نہیں رہتا کہ وہ پاکستان کے ساتھ معاہدہ کرنے سے گریز کرے۔ اگر آئی ایم ایف مزید شرائط کے بغیر قسط جاری کرنے پر آمادہ ہوتا ہے تو بہتر ہے‘ ورنہ اسے ”انف از انف“ کہتے ہوئے ہمیں بھی اسکے ساتھ رجوع کرنیوالی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ اقتصادی ماہرین کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے تاکہ اسکے شکنجے سے نکلنے کی کوئی سبیل نکالی جائے۔ ملک میں بدترین مہنگائی کے طوفان آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے باعث ہی اٹھ رہے ہیں۔ گزشتہ روز ادارہ ¿ شماریات کی رپورٹ کے مطابق رواں ہفتے مہنگائی میں 1.80 فیصد اضافہ ہوا جبکہ 26 اشیاءضروریہ مہنگی ہوئیں۔ اسکے علاوہ ملک میں سیاسی عدم استحکام بھی آئی ایم ایف کیلئے من مانی کرنے کی راہ ہموار کرر ہا ہے جس کا اشارہ گزشتہ روز امریکی سینیٹر خاتون بھی دے چکی ہیں۔ اس غیریقینی کی صورتحال سے فائدہ اٹھا کر ہی آئی ایم ایف مخصوص ایجنڈے کے تحت اپنی من مانیوں پر اترا نظر آتا ہے۔ موجودہ بدترین مہنگائی نے عوام کا پہلے ہی جینا محال کیا ہوا ہے‘ حکومت کوآئی ایم ایف کے ساتھ کسی بھی معاہدے پر عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کرنے سے بہرصورت گریز کرنا چاہیے۔