ازقلم : رقیہ غزل
خیال تو تھا کہ میں بھی لکھوں کہ ہم نے 23 مارچ 1940کو جو عہدکیا تھا‘ اس کی تجدید کرتے تراسی برس ہوگئے اور ہم اس عہدکو نبھاتے چلے آرہے ہیں‘ مگر کیسے لکھوں کہ چھہتر برسوں میں برسر اقتدار آنے والے حکمرانوں کی ناقص حکمت عملیوں کی بھینٹ چڑھے عوام الناس کی چیخیں یوں فضا?ں میں گونج رہی ہیں کہ اب ہوائیں بھی بین کرتی ہیں۔کہیں چند کلو آٹے کے حصول کے لیے بھوک و پیاس سے نڈھال خستہ حال‘ چھینا جھپٹی میں مصروف ہیں‘ تو کہیں آفت زدہ بدحال فرش پر مردہ پڑے ہیں۔کہیں میڈیکل سٹوروں پر دوائی نہ ملنے یا مہنگی ہونے کیوجہ سے‘ افلاس زدہ بوڑھے ہاتھ جوڑے کھڑے ہیں‘ تو کہیں فروٹ کی دوکان پر غریب باپ بچوں کے لیے بھا? کرتے ہوئے‘ حسرت ویاس کی تصویر بنے کھڑے ہیں۔کہیں لٹنے والا تھانے کے باہر سسک رہا ہے‘ تو کہیں تھانے کی چھت سے تاوان کے لیے اغوا شدہ افراد برآمد ہو رہے ہیں۔ کہیں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے‘لاوارث خاندان سسک رہے ہیں‘ تو کہیں سیلاب متاثرین اپنے خوابوں کی گھٹڑیاں ڈھونڈ رہے ہیں ،کہیں بچے کھلونوں کے لیے ماں کا دامن پکڑے رو رہے ہیں اور دلگرفتہ ماں سوچ رہی ہے کہ اب تو آلو دال بھی اتنے مہنگے ہیں‘ روزہ کیسے افطار ہوگا اور کہیں مزدوری نہ ملنے پر‘ غریب باپ سر کے بال نوچ رہا ہے کہ کیا آج پھر بچے بھوکے سوئیں گے۔۔؟راہبر راہزن بنے بیٹھے ہیں اور علمائے کرام کی اکثریت نے دین کو پیٹ کا دھندہ بنانے کی کوشش میں فرقہ واریت کا ایسا زہر پھیلایا ہے‘ جس نے آج تک ہمیں ایک قوم نہیں بننے دیا ،نوکر شاہی اور افسر شاہی نے نسل در نسل غلامی کرنے والوں کو اتنا مجبور کر دیا ہے کہ و ہ اپنی ہر سانس کو با اختیاروں کا احسان سمجھتے ہیں اور یہ اتنے بے حس ہیں کہ انھی کی لاشوں پر سیاسی دوکان چمکاتے ہیں اور برسر اقتدار آتے ہی سب بھول جاتے ہیں۔۔صاحب رائے پوچھتے پھرتے ہیں کہ عالم پناہ !کبھی نوحہ کناں پتھرائی آنکھیں دیکھی ہیں‘ چیخ چیخ کر کہہ رہی ہوتی ہیں کہ آئیے بھوکی میتوں پر گل فشانی کیجیے ، خدارا! اب تومسیحائی کا ڈرامہ بند کریں کیونکہ
یہ لازم ہے کہ غریبوں کے حقوق ان کو دیے جائیں
فقط خیرات سے تو دور ناداری نہیں ہوتی۔۔
عوام کو بھی یقین ہوگیا ہے کہ گیہوں دیکر گاجریں خرید لی ہیں کیونکہ تجربہ کاروں کا ہر اقدام عوام کو پہلے سے زیادہ پریشان کر دیتا ہے۔ٹیکس پر ٹیکس لگائے جاتے ہیں ‘ مہنگائی بے قابو ہے ،‘جینے کے لالے پڑے ہیں ‘مگر ہمارے طرز حیات میں کوئی فرق نہیں آیا‘ بلکہ پہلے سے زیادہ پیسے میلوں ٹھیلوں اور راستوں کو سجانے میں اڑائے گئے ہیں‘جبکہ ہم مقروض ہیں اور مزید قرضے کے لیے کشکول لیے بیٹھے ہیں۔۔کیا قائد اعظم ?ایسا ہی وطن چاہتے تھے۔۔۔؟ راہبروکہاں لے آئے ہو ؟کیا ہماری ترجیحات ہمیں اقوام عالم میں سر اٹھا کرجینے کے قابل بنا سکتی ہیں ؟
قرض کی پیتے تھے مے اور سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہمای فاقہ مستی ایک دن
یقینا اسی خوف سے کہ اب عوام باشعور ہیں اور وقت ٹپا? پالیسیوں کو خوب سمجھتے ہیں‘ انتخابات ملتوی کر دیے گئے ہیں۔ حالانکہ اگر ن لیگ اپنی ساری توانائیاں خان صاحب پر مقدمات بنانے اور عوام کی نظروں میں گرانے میں صرف نہ کرتی اور عوام کو ریلیف فراہم کرتی توحالات کچھ اور ہوتے کیونکہ عوام تبدیلی سرکار کے چار سالہ دور حکومت سے بدظن ہوچکے تھے مگر موجودہ حالات میں عمران خان کی مقبولیت کا آفتاب لب بام آتا نظر نہیں آتا حالانکہ بیانیہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہے ‘ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی خاص منصوبہ بندی سے میاں شہباز شریف کو نا اہل ثابت کیا جا رہا ہے۔۔ان کشیدہ حالات میں جماعت اسلامی نے الگ ہی نعرہ لگا رکھا ہے کہ سارے مسائل کا حل صرف جماعت اسلامی کے پاس ہے اور وہ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم دونوں کا احتساب کریں گے جبکہ سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ’’ شوربا حلال بوٹی حرام ‘‘کے مصداق اقتدار کے لالچ میں یزیدیت کاساتھ دینے میں بھی نہیں ہچکچاتے اور مثالیں خانوادہ رسول کی قربانیوں کی دیتے ہیں۔۔یہی وجہ ہے کہ عوام نے مذہبی جماعتوں کو عام انتخابات میں بھی بٹھا دیاتھا پھر بھی مبصرین جماعت کی دور اندیشی کے مقائل ہیںلیکن خان صاحب بالکل دور اندیش نہیں اوربروقت قوت فیصلہ کی صلاحیت سے بھی محروم ہیں جبکہ سیاست وہ کھیل ہے جس میں جیت اسی کی ہوتی ہے جو دور اندیش ہوتا ہے۔تبھی سیاست میں آخری اننگ بھی کوئی اور کھیلتا ہے اور جیتتا بھی کوئی اور ہے کیونکہ عوام بھی کار کردگی دیکھ کر نہیں بلکہ ماحول دیکھ کر ووٹ دیتے ہیں جوکہ سیاسی ٹاک شوز کرنے والے بناتے ہیںاور ایسی ہی ہوشیاریوں اور شعبدہ بازیو ں کا نام ہم نے سیاست رکھا ہوا ہے۔یہاں ایک دلچسپ واقعہ یاد آگیا۔۔ ایک سیاسیات کے پروفیسر نے اپنے کسی شاگرد سے کہاکہ’’ آج تمہاری دانشمندی کا امتحان ہوگا ،کیا تم تیار ہو ؟‘‘شاگرد نے ہاں میں سر ہلایا تو استاد نے پوچھا کہ ’’مرغوں کی لڑائی کے ٹورنامنٹ میں یہ کیسے پتہ چلے گا کہ کون پیپلز پارٹی کا جیالا ہے ؟‘‘شاگرد فوراً بولا ’’جو لڑانے کے لیے بطخ لایا ہو ‘‘۔تحریک انصاف کے سپوٹر کا کیسے پتہ چلے گا ‘‘؟ شاگرد :’’جو بطخ کی جیت پر شرط لگائے گا ‘‘۔استاد :’’اور ن لیگ کے حامی کا کیسے پتہ چلے گا ‘‘؟شاگرد : ’’وہ بطخ پر شرط لگائے گا اور بطخ جیت جائے گی ‘‘۔عجب گورکھ دھندا بنا رکھا ہے سیاست کے نام پر سبھی نے ایک الگ سے کاروبار چمکا رکھا ہے جس میں عوام کے لیے دلکش نعروں اور ڈراموں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
بہر حال اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ تاریخ پاکستان ایسی المناکیوں اور حوادث سے بھری پڑی ہے‘ جب زندگی و موت کا رقص سر عام دیکھا گیا اور جارحیت و بربریت کو وقت ٹپا? ’’ نوٹس ‘‘ اور ’’جے آئی ٹی ‘‘ سے نپٹا دیا گیا ‘کیونکہ روز اول سے ہی پاکستان کو جاگیر دارانہ نظام نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور گزرتے وقت کے ساتھ یہ طبقاتی اختلافات بڑھتے چلے گئے اور فرقہ وارانہ سوچ کو بھی ہوا مل گئی نتیجتاً ہر سرمایہ دار اپنے دائرے میں فرعون بنا بیٹھا ہے‘ جس کاجہاں جو بس چلتا ہے وہ کرتاہے‘ جبکہ غریب ہر جگہ کچلا جاتا ہے‘ چنانچہ اب اس سوچ کو اتنی تقویت مل چکی ہے‘ کہ کہا جاتا ہے کہ سرمایہ دارانہ افراد کے خاتمے سے ہی محنت کش طبقے کی نجات ممکن ہے ‘جو کہ نا ممکن ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام کی تفریق جب سے دنیا ہے تب سے موجود ہے‘ بس کچھ اقوام میں حکمرانوں کی ناقص حکمت عملیوں کی وجہ سے تقسیم ٹھیک نہیں رہی ‘یعنی طاقت اور سرمایہ جس کے بھی پاس آجاتا ہے وہ شخص با اثر(زمینی خدا) بن جاتا ہے اور با اثر افراد ہر قسم کے آئین و قانون سے آزاد ہوتے ہیں۔ جس کی کھلی مثالیں موجود ہیں درحقیقت یہی طبقاتی اختلافات جب کشمکش کی صورت میں بڑھتے ہیں تو انقلاب رونما ہوتے ہیں‘ اب بھی انقلاب نا گزیر ہوچکا ہے کیونکہ عوام سمجھ چکے ہیں کہ اچھی حکمرانی اس وقت تک ناممکن ہے جب تک اقتدار کی منتقلی عوامی سطح پر نہ ہواسلیے عوامی صبر کا مزید امتحان نہ لیں ‘سمجھ جائیں ‘ اللہ سے ڈریں اور ایسی دور رس حکمت عملیاں اپنائیں جن سے حصول پاکستان کے کماحقہ مقاصد حاصل ہو سکیں ورنہ تخت و تاج کھونے میں دیر کتنی لگتی ہے۔۔