سیّد روح الامین
بانیان پاکستان کی حیثیت سے علامہ اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کے لیے انتہائی واجب الاحترام شخصیات ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنی زندگی آموز شاعری سے اسلامیان ہند کے خون کو گرمایا، نظریہ وطن کی نفی کر کے ’’اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے‘‘ کا سبق دیا اور اس کی اساس پر سیاست ہند میں دو قومی نظریہ کا شعورپختہ کیا اور آخر کار مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے ایک علیحدہ اسلامی مملکت کا مطالبہ پیش کردیا۔جو بعد میں نظریہ پاکستان کے نام سے موسوم ہوا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی ولولہ انگیز قیادت میں ایک حوصلہ ہاری ہوئی قوم کو منظم کیا ، اپنی بے مثال جدوجہد سے دو قومی نظریہ کو انگریزوں اور ہندو?ں سے منوایا اور دنیا کے نقشے پر پاکستان کے نام سے ایک نئی اسلامی مملکت کی داغ بیل ڈالی۔
اہل پاکستان پر ان شخصیات کے وہ بے پناہ احسانات ہیں۔ جن کا احساس اور اعتراف ہر سچے پاکستانی پر واجب ہے۔ بانیان پاکستان کے فرامین کا اتباع ہر محبت وطن پاکستانی کا فریضہ ہے۔
کیا یہ ظلم عظیم اور ناانصافی نہیں ہے کہ وطن عزیز جسے بانیاں پاکستان علامہ محمد اقبال اور قائداعظم نے اپنی انتھک کوششوں سے حاصل کیا۔ ان کے پاکستان میں آج ایک’’غیرملکی زبان،،کو تقویت دی جارہی ہے۔ حالانکہ بانیان پاکستان نے اپنی زندگی میں ہی پاکستان کی قومی زبان کے بارے میں وضاحت فرما دی تھی انہیں اس بات کا پورا احساس تھا کہ قومی اتحاد کے لیے قومی زبان ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ لہٰذابانیان پاکستان نے قیام پاکستان کے وقت پاکستان کی قومی زبان اردوکے متعلق جو ارشادات فرمائے تھے وہ روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ ان سے روگردانی کم ازکم ہم پاکستانیوں کو تو زیب نہیں دیتی تھی، علامہ اقبال اور قائداعظم کے پاکستان میں ان کی دی ہوئی زبان کو عملا نافذ نہ کرنا یا اس سے انحراف کرنا یقینا اس عظیم جذبے کی نفی ہوگی جو کہ حصول پاکستان کے وقت بانیان پاکستان کے پیش نظر تھے۔
بانیان پاکستان کے فرامین کو پس پشت ڈال کر ان کے پاکستان میں اپنے ’’مخصوص،،اور ’’ذاتی فیصلے ٹھونسنے والے یقینا غاصب کہلائیں گے تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
اسلامی ثقافت سے اقبال کی محبت کے کئی پہلو ہیں۔ وحدت الوجودی تصوف کے خلاف اجتہاد فکر جمودکی شکست کے لیے اجتہاد کی علم برادری ،معیشت کی خالص مادی تعبیروں سے بیزاری،اس محبت کے ایوان ہیں۔ لیکن اس دل بستگی کا لسانی پہلو کسی طرح بھی کم قابل اعتنا نہیں۔ مذہب اورثقافت علامہ اقبال کو کس قدر عزیزتھے۔ اس کی وضاحت علامہ اقبال نے آل انڈیا مسلم کانفرنس کے سالانہ اجلاس 1932ئ منعقدہ لاہورمیں اس طرح کی
’’حب الوطنی کلیتا ایک فطری وصف ہے جس کا انسان کی اخلاقی زندگی میں ایک مقام ہے
علامہ محمد اقبال کے دل میں اردوزبان کی کیا قدرومنزلت تھی اور جس طرح انہوں نے اردو کے دامن کو اپنے افکار اورحسین و جمیل اسالیب اظہارکے موتیوں سے بھرا۔ اس کی تفصیل یہاں بیان کرنا ممکن نہیں لیکن علامہ اقبال کی نظرمیں اردو کی ثقافتی اہمیت ان خطوط سے واضح ہوتی ہے جوانہوں نے اپنی زندگی کے آخری دور میں بابائے اردو مولوی عبدالحق مرحوم کو لکھے تھے۔ ان خطوط سے علامہ اقبال کی محبت اردو کابھی پتہ چلتا ہے اور یہ واضح ہوتا ہے کہ علامہ اقبال برصغیر پاک و ہندکے مسلمانوں کے لیے اردوزبان کو ایک مستحکم وسیلہ بقااورقومی اتحاد وملت سمجھتے تھے۔
یہ خطوط دو مختلف کتابوں میں شا ئع ہوئے ہیں۔ایک اقبال نامہ (مکاتیب اقبال) مرتبہ شیخ عطا اللہ حصہ دوم میں۔ دوسری ممتاز حسن صاحب کی کتاب اقبال اور عبدالحق مطبوعہ مجلس ترقی ادب لاہورمیں۔ مکتوبات علامہ اقبال بنام بابائے اردو مولوی عبدالحق مرتبہ ممتاز حسن سے لیے گئے ہیں۔
اقبال لکھتے ہیں
’’اردوکانفرنس کی تاریخوں تک میں سفر کے قابل ہوگیا تو انشائ اللہ ضرور حاضر ہوں گے۔ لیکن اگر حاضر نہ بھی ہوسکا تو یقین جانیے کہ اس معاملے میں کلیتاآپ کے ساتھ ہوں۔ اگرچہ میں اردو زبان کی بحیثیت زبان خدمت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا‘ تاہم لسانی عصبیت میری دینی عصبیت سے کسی طرح کم نہیں ہے۔‘‘
لاہور‘ ۲۱ اکتوبر ۱۹۳۶ئ
’’آپ کی تحریک سے ہندوستان کے مسلمانوں کا مستقبل وابستہ ہے۔ کئی اعتبارسے یہ تحریک اس تحریک سے کسی طرح کم نہیں جس کی ابتداسرسیدنے کی تھی……..
’’اردو کی اشاعت اور ترقی کے لیے آپ کا دلی میں نقل مکانی کرنا بہت ضروری ہے معلوم نہیں کہ آپ کے حالات ایسا کرنے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں۔ کاش میں اپنی زندگی کے باقی دن آپ کے ساتھ رہ کر اردو کی خدمت کرسکتا۔ لیکن افسوس کہ ایک تو علالت پیچھا نہیں چھوڑتی‘ دوسرے بچوں کی خبر گیری اور ان کی تعلیم و تربیت کے افکار دامن گیرہیں۔ امیدہے کہ آپ کا مزاج بخیرہوگا۔‘‘
لاہور ۹ ستمبر ۱۹۳۷ئ
………………
’’اردو زبان کے تحفظ کے لیے جو کوشش آپ کررہے ہیں۔ ان کے لیے مسلمانوں کی آئندہ نسلیں آپ کی شکرگزارہوں گی‘ مگرآپ سے زیادہ اس بات کوکون سمجھ سکتا ہے کہ زبان کے بارے میں سرکاری امداد پر کوئی اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ زبانیں اپنی اندرونی قوتوں سے نشوونما پاتی ہیں اورنئے نئے خیالات و جذبات کے ادا کر سکنے پر ان کی بقا کا انحصارہے۔‘‘
آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس اکتوبر ۱۹۳۷ء میں لکھنو میں ہونا طے پایا تھا ۲۳ ستمبر ۱۹۳۷ء کوایک خط کے ذریعے سے قائداعظم نے بابائے اردو کواس جلسے میں شمولیت کی بطور خاص دعوت دی۔ علامہ اقبال کو معلوم ہوا توا نہوں نے ۷ اکتوبر ۱۹۳۷ئ کومولوی عبدالحق صاحب کو تاکیدی خط لکھااور فرمایا:
’’میں نے سنا ہے کہ لیگ کی طرف سے آپ کو بھی لکھنو آنے کی دعوت دی گئی ہے براہ عنایت اس سفرکی زحمت ضرورگوارہ فرمائیے۔ اردو کے متعلق اگرلیگ کے کھلے سیشن میں کوئی مناسب قرارداد منظور ہوجائے تومجھے یقین ہے کہ اس کا اثر بہت اچھا ہوگا۔‘‘
۱۲ اپریل ۱۹۵۳ئ کو علامہ اقبال کی برسی کے موقع پر بابائے اردونے ریڈیو پاکستان پر ایک تقریرمیں انہوں نے علامہ اقبال سے اپنی ایک اہم گفتگو کا انکشاف کیا۔ مولوی صاحب نے فرمایا کہ ایک دفعہ علامہ اقبال سے ایک ملاقات کے آخرمیں‘ میں نے کہا کہ ’’میں چاہتا ہوں سارے ہندوستان میں اردوکی اشاعت کا جال پھیلا دوں۔ یہ سن کر علامہ اقبال نے فرمایا:
’’ صرف ہندوستان میں۔‘‘ ؟
مولوی صاحب نے ان الفاظ پر اپنی تقریر میں یوں تبصرہ کیا:
’’یہ تین لفظوں کا انتہائی مختصرجملہ بہت پرمعنی تھا۔ یہ ایک حکیم شاعر کے دل کی آواز تھی یعنی وہ اردو کو نہ صرف برصغیر پاک وہند ہی کی نہیں‘ سارے ایشیا کی ممتاز زبان دیکھنا چاہتے تھے۔‘‘قائداعظم کی ذات گرامی کسی بھی ثنا خوانی اوررسمی اظہار عقیدت سے بہت ارفع اور بے نیاز ہے۔ مملکت پاکستان اورقائداعظم محمد علی جناح ایک ہی تحریک کے دو نام ہیں۔ پاکستان اور پاکستانی قوم کا وجود اللہ کے فضل و کرم کے بعد صرف اس ایک مرد مومن کی شبانہ روز محنت‘ خلوص‘ قابلیت اور فراست کا نتیجہ ہے۔ آپ نے جس کامیابی کے ساتھ پاکستان کو حاصل کیا۔ وہ ایک بے مثال تاریخی کارنامہ ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ قائداعظم کا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فرض شناس اوراحسان مند پاکستانیوں کے دلوں کی دھڑکن بنا رہے گا۔
قائداعظم کے قومی زبان اردو کے بارے میں ارشادات روزروشن کی طرح عیاں ہیں اور وہ صرف اور صرف اس وقت پاکستان کے حکمرانوں سے عملانفاذ کے متقاضی ہیں۔ آپ کے چند ارشادات درج کئے جاتے ہیں۔ جن سے پاکستان کی قومی زبان اردو کی اہمیت از بر ہوتی ہے۔
ڈھاکہ میں جب چند نوجوانوں نے بنگلا کے حق میں مظاہرے کئے یہ ایک ابتدائی چنگاری تھی جس کی تپش کو سب سے زیادہ بانی پاکستان نے محسوس کیا اور اس کو ابتدا ہی میں روکنے کے لیے اپنی علالت کے باوجود ایک پرانے ڈیکوٹہ طیارے میں سوار ہوکرسیدھے ڈھاکہ پہنچے اور وہاں انہوں نے اپنی دو تقریروں میں پاکستان کی قومی زبان کے بارے میں دو ٹوک بات کی اورشرانگیزوں کی فتنہ پردازیوں کو وقتی طور پر روک دیا۔
قائداعظم نے۲۱ مارچ ۱۹۴۷ء کو ڈھاکہ کے جلسہ عام میں تقریر کے دوران فرمایا:
’’میں آپ کو صاف صاف بتا دوں کہ جہاں تک آپ کی بنگالی زبان کاتعلق ہے‘ اس افواہ میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ آپ کی زندگی پرکوئی غلط یا پریشان کن اثر پڑنے والا ہے۔ بالاخر اس صوبے کے لوگوں کو ہی حق پہنچتا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ اس صوبے کی زبان کیا ہوگی۔ لیکن یہ میں آپ کو واضح طورپربتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری ز بان اردوہوگی اورصرف اردواور اردو کے سوا اور کوئی زبان نہیں۔ جوکوئی آپ کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے‘ وہ پاکستان کا دشمن ہے۔ ایک مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحد نہیں ہوسکتی اور نہ کوئی کام کرسکتی ہے۔ دوسرے ملکوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ پس جہاں تک پاکستان کی سرکاری زبان کا تعلق ہے وہ اردو ہی ہوگی۔‘‘
تین روز بعد ڈھاکہ یونیورسٹی کے جلسہ تقسیم اسناد کے موقع پرتقریر کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا:
’’اس صوبے میں دفتری استعمال کے لیے‘ اس صوبے کے لوگ جونسی زبان بھی چاہیں منتخب کر سکتے ہیں۔ یہ مسئلہ خالصتا صرف اس صوبے کے لوگوں کی خواہشات کے مطابق حل ہوگا۔ البتہ پاکستان کی سرکاری زبان جو مملکت کے مختلف صوبوں کے درمیان افہام و تفہیم کا ذریعہ ہو‘ صرف ایک ہی ہوسکتی ہے اور وہ اردو ہے اردوکے سوا اورکوئی زبان نہیں۔‘‘
’’اردووہ زبان ہے جسے برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں نے پرورش کیا ہے۔ اسے پاکستان کے ایک سرے سے دوسرے تک سمجھا جاتا ہے۔ یہ وہ زبان ہے جو دوسری صوبائی اور علاقا ئی زبانوں سے کہیں زیادہ اسلامی ثقافت اور اسلامی روایات کے بہترین سرمائے پرمشتمل ہے اوردوسرے اسلامی ملکوں کی زبانوں سے قریب ترین ہے۔ یہ بات بھی اردو کے حق میں جاتی ہے اوریہ بہت اہم بات ہے کہ بھارت نے اردو کو دیس نکالا دے دیا ہے۔ حتیٰ کہ اردو رسم الخط کو ممنوع قرار دے دیا ہے۔‘‘
’’اگرپاکستان کے مختلف حصوں کو باہم متحد ہوکر ترقی کی شاہراہ پرگامزن ہونا ہے تواس کی سرکاری زبان ایک ہی ہوسکتی ہے اور وہ میری ذاتی رائے میں اردواور صرف اردو ہے۔
قائداعظم کے یہ ارشادات کس قدر ٹھوس اور وزنی دلائل کے حامل ہیں مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم نے بانیان پاکستان کے دیگر فرامین کی طرح ان فرامین کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی۔ کیا یہ احسان فراموشی نہیں ہے؟ کیا یہ ضمیر مردہ ہونے کی علامت نہیں ہے۔ آئیے آج سے ہی اپنی ثقافت کی بقا کا عہد کریں۔ احساس کمتری سے نکل کر اپنی قومی زبان اردو کی حفاظت کے سامان پیدا کریں۔ اردو بولیں‘ اردو لکھیں۔ اردو زبان کو اپنا کر ایک محب وطن اور فرض شناس پاکستانی ہونے کا ثبوت دیں۔ آج اردو زبان حال سے پوچھ رہی ہے کہ اقبال اور قائداعظم کے پاکستان میں اب تک اسے پس منظر کی جھلملیوں سے جھانک کر دیکھنا ہو گا۔کہ وطن عزیز میں ایک غیر ملکی زبان اس کی مسند پر جلوہ آرا ہے۔ اردو کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اس غاصب زبان کو دیس نکالا دیا جائے وہ تو صرف اپنا جائز قومی حق مانگتی ہے۔
اردو زبان خوبیوں کے لحاظ سے کسی بھی زبان سے کم اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ مولوی عبدالحق کے یہ الفاظ مبنی برحقیقت ہیں۔
’’زبان کا نہ کوئی مذہب ہوتا ہے نہ اس کی کوئی ذات اور قوم ہوتی ہے اور نہ کوئی وطن ہوتا ہے جو کوئی اس کی تحصیل میں محنت کرتا ہے اسے بولتا اور صحت اور فصاحت سے لکھتاہے اس کی زبان ہے اور وہی زبان دان اور اہل زبان ہے۔‘‘
دیکھئے ذیل کے اقتباسات ہمارے کتنے حسب حال ہیں۔
ایک اطالوی مصنف Speroniلکھتا ہے:
± ±زبانیں قدرتی پیداوار نہیں ہوتیں۔ ان کی تشکیل انسان کی اپنی ضروریات اور منشا کے مطابق ہوتی ہے۔ زبانیں درختوں کی طرح نہیں ہوتیں‘ کچھ کمزور اور دوسری توانا جو انسانی افکار کے بوجھ کی متحمل نہیں ہوسکیں۔ بلکہ ان سب کی صلاحیتیں انہیں استعمال کرنے والوں کی کاوشوں سے صورت پذیر ہوتی ہیں۔ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں جس میں اظہار خیال کی طاقت خودبخود پیدا ہو جائے۔ اس کا دارومدار اس کے استعمال کرنے والوں کی قوت ارادی اور سعی پیہم پر ہوتا ہے۔‘‘
اور انگلستان کا مصنف Richard Muleasterلکھتا ہے:
± ±’’کوئی زبان فی نفسہ کسی دوسری زبان سے بہتر نہیں ہوتی۔ اس کی فوقیت کا انحصار اس کے بولنے والوں کی ہمت اور محنت پر ہوتا ہے جو اسے فصیح بناتے ہیں اور مختلف علوم سے مالامال کرتے ہیں لہٰذا یورپ کی عملی زبانیں اپنی قوم کے ان افراد کی مرہون منت ہیں جنہوں نے انھیں گھر میں سنوارا اور باہر ان کی مقبولیت کا سبب بنے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ان کے وہ ادبی کارنامے ‘ جن کی خوبیوں پر آج ہمیں حیرت ہوتی ہے کبھی مرتب نہ ہوتے۔
کیا یہ قابل تاسف غلامی نہیں کہ محض علوم کی خاطر ہم ایک دوسری زبان کے غلام بن جائیں اور سارا وقت اس کی تحصیل پر ضائع کر دیں۔ درآں حالانکہ اس زبان کے تمام خزانے ہم اپنی زبان میں منتقل کر سکتے ہیں۔
مجھے روما سے محبت ہے لیکن لندن مجھے اس سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ میں اٹلی کی حمایت میں ہوں لیکن مجھے انگلستان سے اس سے بھی زیادہ دل بستگی ہے۔ مجھے لاطینی کا احترام ہے‘ لیکن مجھے انگریزی سے عشق ہے۔‘‘
ایسامعلوم ہوتا ہے کہ ان خیالات کا اظہار ہماری موجودہ ضروریات کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ پاکستان میں عملی جامہ پہنانا ہوگا۔ اسی میں ہماری آبرو اور محفوظ و تابناک مستقبل کا راز مضمرہے۔