ڈاکٹرعارفہ صبح خان
بہت سُن چکے کہ حکیم لقمان نے یہ کہا اور افلاطون نے یہ کہا اور ارسطو نے یہ کہا۔ نیلسن منڈیلا کا یہ قول ہے او ر باراک او بامہ اتنا شاندار صدر تھا۔ مہا تیر محمد نے یہ کہا اور حسینہ واجد نے بنگلہ دیش کا مقدر ایسے بدلا۔ ترکی نے آئی ایم ایف کے منہ پر سارا قرضہ دے مارا اور سری لنکا نے آئی ایم ایف کو دو ٹوک جواب دے دیا کہ تڑیاں کسی اور کو لگانا۔ ہمیں ڈیفالٹ قرار دینا ہے تو دے دو۔ ہم ڈرتے نہیں کہ تمھارے اشاروں پر ناچیں۔ ماﺅزی تنگ نے اپنی چرسی افیمی نشئی قوم کو ایک شاندار قوم بنا دیا اور شی جن پنگ جیسی عظیم شخصیت نے چین کو ایشیا کا سپر پاور بنا دیا۔ امریکہ نے یو کرائن کے حوالے سے رُوس کا ٹینٹوا دبانے کی ہر طرح کوشش کی۔ یورپی یونین، اسرائیل اور دیگر ممالک کے ذریعے ہر طرح روس کودبانے کی کوشش کی۔ اُن سے اقتصادی ، سیاسی، سفارتی، سماجی رابطے ختم کرنے کی دھمکیاں دیں لیکن ولا دیمر پیوٹن نے تنِ تنہا مقابلہ کیا اور الٹا ان سب کا تیل اور گندم بند کر دی جس سے سب کی چیخیں نکل گئیں۔ دنیا نے دیکھا کہ پیوٹن کو اپنے ملک میں انتہائی درجے کی پذیرائی ، محبت اور طاقت ملی۔ وہ اس وقت دنیا کا طا قتور ترین صدر مانا جاتا ہے۔ بعد ازاں چین جاپان ترکی ایران سعودی عرب بھارت اور پاکستان نے بھی روس کی تائید و حمایت کی۔ حد تو یہ ہے کہ روس کا دیرنہ دشمن افغا نستان بھی روس کا ہموا نکلا۔ پیوٹن گزشتہ دو دہا ہیوں سے رُوس کے کامیاب صدر کے طور پر اُبھرے ہیں۔ رُوس ایک کامیاب، ذرخیز، ترقی یا فتہ اور خو شحال ترین ملک ہے جس کا کریڈٹ صدر پیوٹن کو جاتا ہے۔ وہ اب پھر بھاری اکثریت سے صدر بنے ہیں۔ صدر پیوٹن کی ذہانت، حب الوطنی، کارکردگی اور فےصلے ضر ب المثل بن چکے ہیں۔ دوسری طرف چینی صدر شی جن پنگ کی مثبت اور توانا شخصیت نے چین کو ایشیا کا سپر پاور ڈ کلئیر کر دیا ہے۔ وہ بھی مسلسل چین کے بِلا مقابلہ صدر چلے آ رہے ہیں۔ترکی کے صدر طیب اردگان ایک بہت بڑی مثال ہیں جنھوں نے آئی ایم ایف کے منہ پر قرضہ دے مارا۔طیب اردگا ن نے فلسطین پر جرئا ت مندانہ اقدامات کےے اور اسرائیل کو للکارا۔ مہا تیر محمد کی مثال ایک اعلیٰ درجے کی مثا ل ہے۔ ایک انتہائی بوڑھے آدمی نے ملا یلئشیا کو عظمتوں رفعتوں بلندیوں اور ترقیوں سے ہمکنار کیا۔ سب مثا لیں چھوڑیں۔ نریندر مودی ایک انتہائی متعصب ہندو اور جاہل ان پڑھ چائے والا تھا لیکن اُس کی حب الوطنی، قا بلیت اور کارکردگی کا اعتراف دشمن بھی کرتا ہے۔ مودی نے انڈیا کو ایک کامیاب اور خو شحال ترین ملک بنا دیا ہے۔ اُن کے ہاں تین سو یو نٹ بجلی فری ملتی ہے۔ تعلیم صحت آئی ٹی فری ہے۔ انڈیا میں اس وقت سینکڑوں عا لیشان ہسپتال اور ہزاروں کلینکس کام کر رہے ہیںجن میں نہایت قا بل ڈا کٹرز دن رات مریضوں کی خدمت پر متعین ہیں ۔ انکی پرفارمینس انٹر نیشنل لیول کی ہے۔ جب کینیڈا اور امریکہ نے سکھوں کے معاملے پر انڈیا کو وا رننگ دی تو انڈیا نے ترکی بہ ترکی جواب دیا اور ہر قسم کی ڈ کٹیشن کو مسترد کر دیا۔ انڈیا میں اس وقت ہزار سے زیادہ یو نیورسٹیاں، ہزاروں کالجز اور لاکھوں سکولز ہیں۔شاندار عمارات، ہوٹلز، پلازے، بلڈنگز، ریلوے سٹیشنز، جدید ائیر پورٹس، پارکس، سینماز، پُل، سڑکیں ہیں۔ آج انڈیا یورپ کا کو ئی بڑا ملک دکھائی دیتا ہے۔ بنگلہ دیش میں عورتیں بھی بر سرِ روزگار ہے اور ملک کی ترقی میں اُنکا آدھا حصہ ہے۔2024 ءکا بنگلہ دیش 1974ءکے بنگلہ دیش سے یکسر مختلف ہے۔ اسکا کریڈٹ حسینہ واجد کو جاتا ہے جو مسلسل تےسری بار وزیر اعظم بنی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ افغا نستان جیسا لُٹا پٹا، پسماندہ اور لڑنے مرنے والا ملک بھی آج محض دو سال میں اپنے پاﺅں پر کھڑا ہے۔ جن ملکو ں نے ترقی کرنی ہوتی ہے۔ وہ چندوں، خیراتوں، امدادوں، قرضوں اور بھیک پر نہیں چلتے۔ ہما رے ملک میں تو آئی ایم ایف سے پوچھ کر سانس لیا جاتا ہے۔ سب پالیسیاں آئی ایم ایف بناتا ہے۔ وزیر اعظم سے لیکر وزیر خزانہ، وزیر خارجہ، دا خلہ، گورنر سٹیٹ بینک، سفیر مشیر تک آئی ایم ایف کی مرضی سے لگائے جاتے ہیں۔ ایران سے گیس کی پائپ لائن ہو ، روس سے گندم اورآئل ہو، افغانستان سے سمگل شدہ سامان ہو۔ چین سے سی پیک معاہدہ ہو، امریکہ سے ایف 16 میزا ئل ہوں۔ ریکوڈک معا ہدہ ہو یا دیگر ممالک سے تجارتی روابط ہوں۔ آجتک دو دہائیاں گزر جانے کے با وجود کو ئی معا ہدہ پورا نہیں ہوا۔ ایران افغا نستان بھارت روس چین اور مختلف ممالک سے بذرےعہ سڑک آنیوالے کنٹینرز میں سامان سڑ گل جاتا ہے۔ بحری جہازوں اور مال بردار گاڑیوںمیں سارا سامان تباہ برباد ہو جاتا ہے۔ نہ یہ وقت پر اُتا را جاتا اورنہ منڈیوں میں پہنچایا جاتا۔ حد تو یہ ہے کہ انڈیا سے منگوائی گئی پیاز لہسن ٹما ٹر آلو سب تباہ بربادہو جاتا ہے لیکن وقت لوگوں کو میسر نہیں ہوتا۔ نہ لوگوں کے استعمال میں آتا بلکہ تلف کر دیا جاتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ شرمناک بات یہ ہے کہ ہمارے پسماندہ صوبے بلوچستان کے حالات انتہا ئی مخدوش ہیں ۔ لوگ سا را سال جان ما ر کر کھیتی باڑی کرتے ہیں جب اُنکی فصلیں تیا ر ہو جاتی ہیں مگر نہ تو سڑکوں کی سہو لیات ہیں نہ ہی ٹرانسپورٹ کا صحیح انتظام ہے اور نہ بلوچوں کی منڈیوں تک رسائی ہے۔ بلوچستان میں ایکسپورٹ امپورٹ دونوں شدید خسارے میں ہیں۔ بلوچیوں کے پاس نہ ڈھنگ کا روزگار ہے نہ اُن کے پاس فیکڑیاں کارخانے ملیں ہیںاور سمندری نباتات سے خا طر خواہ فا ئدہ اٹھا تے بلکہ بلوچستان جہاں معدنیات کے خزانے ہیں۔ وہ بھی اُنکی بھوک اور افلاس مٹا نے سے قا صر ہیں کیونکہ یہاں ناقص پالیسیاں اور جہالت ہے۔ افسوس کہ پاکستان میں لنگر خانے، پاگل خانے، جیل خانے، یتیم خانے، دار لامان، اولڈ ہوم بنانے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ لوگوں کی اصلاح نہیں کی جاتی۔ انھیں روزگار نہیں دئےے جاتے۔ انھیں پاﺅں پر کھڑا نہیں کیا جاتا۔ ایک آٹے کا تھیلا دینے سے ضروریات زندگی پوری نہیں ہوتیں۔ لنگر خانے پر ایک وقت کھانا کھلانے سے ازلی بھوک کا مدا وا نہیں ہو سکتا۔ لوگوں کو لیپ ٹاپ، مو ٹر سا ئیکلوں، لنگر خانوں، چندوں نذرانوں، قرضوں اور وظائف کی نہیں، روزگار کی ضرورت ہے۔ عزت کی کمائی سے خود انحصاری پےدا ہو تی ہے۔ ہماری حکومتیں کب تک آئی ایم ایف کے ترلے مِنتیں کر تی رہیں گی۔ کب تک اپنے اللّے تللّوں کی بھیک مانگتی رہیں گی۔ لوگوں کی مثا لیں د ینا اور اُنکے اقوالِ زریں سنانا بند کریں اور اس مرتبہ کو شش کریں کہ یا تو آئی ایم ایف کو ہمیشہ کے لیے خدا حا فظ کہہ دیں یا اسے کہیں کہ ہمیں ڈیفا لٹ کر دے جنھوں نے قرضے کھائے ہیں، فرق صرف انھیں پڑے گا جو محنت ایمانداری سے کما کر کھا رہے ہیں۔ انھیں فرق نہیں پڑے گا۔ محض یہ نہ کہیں کہ جی ہم اور ہماری کابینہ تنخواہیں نہیں لیں گے (جبکہ دےگر مرا عات اور پرو ٹوکول کے ماہانہ اخرا جات لاکھوں میں بنتے ہیں)۔ یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے ۔ یہ نہ ہو کہ کوئی من چلا قومی خزانے سے تنخواہوں اور بیش بہا مرا عات کی تفصیلات اور وڈیوزجاری کر دے اور عوامی انقلاب آ جائے۔