اورینٹل کالج کی طلسماتی شخصیت محترم معین نظامی     

                            آواز خلق 
                                  فاطمہ ردا غوری

ہر زبان کا ایک خاص وطن اور علاقہ ہوتا جہاں وہ جنم لیتی ہے اور نشوونما پاتی ہے مثلا اردو زبان فاتح مسلمانوں اور یہاں کی مقامی آبادی کے اختلاط سے معرض وجود میں آئی اور برصغیر پاک و ہند میں پھیل گئی گویا برصغیر پاک و ہند ہماری قومی زبان اردو کا وطن اور علاقہ ہے اسی طرح پنجابی ہماری ماں بولی ہے اور اس کی اہمیت بہر طور موجود ہے اس اہمیت پر گذشتہ دنوں پنجاب ثقافت دیہاڑ میں نومنتخب وزیر اعلٰی مریم نواز شریف ،وزیر اطلاعات و ثقافت عظمی بخاری اور ڈی جی پلاک بینش فاطمہ ساہی کی" اچیچی رلت " اور عوام کی کثیر تعداد میں شرکت نے مہر ثبت کر دی ہے 
چونکہ اردو زبان میں فارسی الفاظ کی بھرمار ہے اس اعتبار سے فارسی زبان سے بھی بے نیاز نہیں ہوا جا سکتا جہاں زبان شناسی کی اہمیت کے متعلق بات کی جائے تو ہمارا ماڈرن طبقہ سوال اٹھاتا ہے کہ اس کا
” سکوپ “کیا ہے؟ حالانکہ اپنی ابتداءاور تاریخ سے آگاہی کا شوق ہماری گھٹی میں ہونا چاہیے مفادات کے متلاشی اس ماڈرن طبقے کو اندازہ ہونا چاہیے کہ ہمارے قومی شاعر علامہ اقبال نے جب اپنے افکاروخیالات کو شاعری کے قالب میں ڈھالنا چاہا تو فارسی زبان کا انتخاب کیا اور جب ان سے اس انتخاب کی وجہ دریافت کی گئی تو شاعر مشرق نے کیا خوبصورت جواب دیا تھا کہ " it comes to me in persian "
 اورینٹل کالج بجا طور پر اس تعریف کا مستحق ہے کہ اس ادارے نے ہمیشہ مشرقی زبانوں کو زندہ رکھنے کے لئے اہم کام کیا ہے اورینٹل کالج نے نہ صرف زبان شناسی کی اہمیت کو اجاگر رکھا بلکہ ہر آن اس شعبہ میں نمایاں حیثیت بھی برقرار رکھی یہی وجہ ہے کہ یہ ادارہ آج تک زبانوں سے آگاہی کا بیڑہ خوش اسلوبی سے اٹھائے ہوئے ہے 
اورینٹل کالج ایک ایسا طلسماتی ادارہ ہے کہ جو ایک دفعہ اس کا حصہ بن جائے وہ خود کو اس ادارے کے طلسم سے رہا نہیں کر پاتا اس ادارے سے نتھی ہو جانے والے ہرفرد کو یہاں موجود لوگوں سے تو لگاﺅ محسوس ہوتا ہی ہے لیکن نہ جانے کیوں اس کالج کے درودیوار، طلسماتی راہداریوں، پراسرار لان، رنگ برنگے پھول پودوں اور پرندوں سے بھی محبت ہونے لگتی ہے اور یہاں سے جدا ہوتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہر پھول افسردہ ہے ہر پرندہ آہ وفغاں کر رہا ہے ہر راہداری کے پاﺅں تلے سے زمین سرک رہی ہے اگرچہ یہ سب باتیں حقیقت سے پرے ہیں لیکن یقین جانئیے کہ ایسا ہی ہے !!!
مولانا مودودی نے ایک دفعہ جماعت اسلامی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے بہت کمال جملہ کہا تھا کہ آدمی جماعت اسلامی سے نکل جاتا ہے لیکن جماعت اسلامی اس میں سے نہیں نکلتی اسی انداز میں نہ جانے کیوں کہنے کو جی چاہ رہا ہے کہ بندہ اورینٹل سے نکل جاتا ہے لیکن اورینٹل اس میں سے نہیں نکلتا ۔
اس طلسماتی ادارے میں موجود ہر نمایاں شخصیت اپنی ذات میں ایک سحر ،طلسم ،اور معجزاتی عناصر رکھتی ہے جو سامنے والے پر ہر صورت اثر انداز ہوتے ہیں انہیں میں سے ایک طلسماتی شخصیت نہایت نفیس،صاحب علم، شائستہ ،خوبصورت، کم گو لیکن خوش گو انسان جناب محترم معین نظامی ہیں جنہوں نے گذشتہ دنوں قبل از وقت ریٹائرمنٹ نما چھٹی لیکر ہم جیسے کئی کمزور دلوں کو افسردہ کر دیا ہے کہ ان کی اورینٹل میں موجودگی ایک ایسے شجرسایہ دار کے مانند تھی کہ جس کی چھاﺅں میں ہر روز بیٹھنا میسر نہ بھی ہو پھر بھی اس کا چاروں اوڑ ھ پھیلا ہوا سایہ دور سے دیکھ کر ہی طمانیت کا احساس گھیر لیتا تھا
 نہ جانے پس پردہ کیا حکمت عملی تھی کہ انہوں نے اس جگہ کو ایک سال قبل ہی اپنے سحر سے محروم کردیا جہاں ان کے عقیدت مندوں کا ایک دن بھی ان کے بغیر بوجھل تھا خیر ہمارا ماننا ہے کہ معین نظامی صاحب کے اس فیصلے کے پیچھے بھی ضرور کوئی نہ کوئی حکمت پنہا ں ہے دل کو یہی تسلی دیتے ہوئے ہم ان کے آئندہ زندگی میں ان کی صحت و تندرستی اورعلم و فضیلت میں مزید فصاحت و بلاغت کے خواہاں ہیں اور ان کے سوشل میڈیا پیج پر " اپ ڈیٹ " ہوتیں ون سونی حکایات، کہانیاں اور علم کے گہرے سمندر میں غوطہ زن ہوتے الفاظ باقاعدگی سے پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس وقت جہاں موجود ہیں ماشاءاللہ بہت مزے میں ہیں اور قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے ان دنوں میں بھی ان کے ذہن و دل شدت سے سرگرم عمل ہیں مزیدعلم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ دیانتداری سے سب کے درمیان منتقل کرنے کا عمل بھی بخوبی انجام دیا جا رہا ہے خدا انہیں اس نیک شعبے اور نیک کام میں مزید سرخرو فرمائے آمین ثم آمین۔
طلسماتی ادارے اور طلسماتی شخصیت کا ذکر تو ہو گیا اب رہ گیا ہے طلسماتی تقریبات کا موضوع!
 وہ تقریبات جو شرکت کرنے والے کو اگلے کئی دن تک اپنے سحر میں مبتلا کئے رکھتی ہیں اور کچھ ہم جیسے شرکت نہ بھی کر پائیںتو اپنی تخیلاتی دنیا میں وہاں کا طلسم چرا کر تانے بانے بن کر ہی ازخود سحر طاری کر بیٹھتے ہیں! بیش بہا تقریبات میں سے سب کا ذکر کرنے بیٹھیں تو یہ تحریر طوالت اختیار کر جائے اور کئی اقساط پر مشتمل ہو جائے اس لئے فی الحال ایک تازہ ترین طلسماتی تقریب کا ذکر کرتے ہیں جو چند ماہ قبل ہی لاکھوں شخصیات کو اپنے سحر میں مبتلا کرنے میں کامیاب رہی ہے اس تقریب کا عنوان " ایلومینائی میٹ اپ " رکھا گیا اورساتھ ہی ساتھ اسے منیر نیازی ادبی میلے کا نام بھی دیا گیا اس میٹ اپ نے گویا اگلے پچھلے سارے ریکارڈ " بیٹ" کر دیئے اس تقریب میں تقریبانصف صدی کے بعد اورینٹل سے تعلق رکھنے والے کئی لاکھ لوگوں کو باردگر ایک دوسرے سے ملنے کا ،بھولی بسری یادیں اور باتیں ےازہ کرنے کا موقع فراہم کیا گیاجو کہ بلاشبہ خوش آئند امر ہے اس ادبی میلے میں بین الکلیاتی مقابلہ جات، کتاب میلہ ادبی سیشنز اور مشاعرہ کا اہتمام بھی کیا گیا جس میں پاکستان بھر سے کئی علمی، ادبی شخصیات اور کئی نئے اور پرانے قلم کار اکھٹے ہوئے اس میٹ اپ کا ایک اور عمدہ کارنامہ اورینٹل کالج سے وابستہ شعراءاور افسانہ نگاروں کی شاعری اور افسانوں کو ایک کتابی شکل دینا بھی ہے شاعروں کا تعارف مع کلام بعنوان
” ریت اس نگر کی“جبکہ افسانہ نگاروں کا تعارف مع” افسانہ نقش پائے خامہ“ اور انجمن اردو کے پہلے رجسٹر (1948 ءتا 1952 ء)کی اشاعت بھی ایک شاندار کارنامہ ہے ان تینوں کتب کی اشاعت اپنے آپ میں ایک شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے اور ان کتب کے ذریعے اورینٹل کالج کی علمی و ادبی روایات کو سمجھنے میں بلاشبہ بہت مدد ملے گی اس کامیاب تقریب کا سہرا بھی پروفیسر ڈاکٹر معین نظامی کے سر رہا کہ انہوں نے جانے سے قبل اپنے دور میں اس خوبصورت روایت کا آغاز کیا خدا کرے کہ ان کے بعد آنے والی شخصیات بھی اسی ذمہ داری اور محبت سے اورینٹل کالج کی باگ ڈور سنبھال سکیں اور ایسی طلسماتی تقریبات کا سلسلہ ہمیشہ جاری و ساری رہ سکے ۔آمین
               (وما علینا الاالبلاغ)

ای پیپر دی نیشن