گلوبل ویلج
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
اشتیاق اے چوہدر ی ایڈووکیٹ سے پرانی واقفیت ہے۔ زیادہ قربت اس وقت ہوئی جب میں ڈاکٹر طاہر القادری کا پولیٹیکل سیکرٹری تعینات ہوا۔ اشتیاق اے چوہدری ایڈووکیٹ پاکستان عوامی تحریک میں سرگرم لیڈروں میں سے شمار ہوتے تھے۔ انہوں نے اپنی جوانی منہاج القرآن اور اس کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری کی سیاسی جماعت ”پاکستان عوامی تحریک“ کے لیے واقف کر دی۔ وہ اس پارٹی کے یوتھ کے صدر رہے، لیبر لیڈر رہے، انسانی حقوق کی تنظیم کے سربراہ رہے، کسانوں کی تنظیم کی بھی یہ سربراہی کرتے رہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ اشتیاق اے چوہدری ایڈووکیٹ کا تعلق یک جان اور دو قالب کا تھا لیکن پھر یہ ہوا کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے عوامی تحریک کو سیاست سے باہر کر لیا۔ سیاست دان کے لیے سیاست سے باہر ہونا ایسے ہی ہے جیسے مچھلی پانی سے باہر ہو۔ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی تو دیگر مصروفیات کچھ ہو سکتی تھیں،دنیا بھر میں ان کا دینی سلسلہ جاری ہے۔ان کے پیروکاروں کی اندرون اور بیرون ممالک تعداد لاکھوں میں ہے، ہزاروں کتابیں لکھ چکے ہیں، بہت سے تعلیمی اور اصلاحی ادارے بھی ان کے نام پہ چل رہے ہیں لہٰذا ان کے پاس مصروفیات کی کمی نہیں ہے لیکن جو لوگ ان کی سیاست سے وابستہ تھے ان کے لیے سیاست سے کنارہ کشی کرنا ناممکن ہو گیا۔ پاکستان عوامی تحریک چونکہ سیاست سے کنارہ کش ہو چکی تھی اس لیے سیاست میں رہنے کے لیے اشتیاق اے چوہدری ایڈووکیٹ کی طرف سے 2017ءمیں اپنی ایک پارٹی ”پاکستان عوامی محاذ“تخلیق کی گئی اور اسی پارٹی کے پلیٹ فارم سے اشتیاق اے چوہدری نے این اے130سے میاں محمد نوازشریف کے خلاف اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروائے جو پہلے تو کوئی وجہ بتائے بغیر مسترد کر دیئے گئے۔ انہوں نے ٹربیونل اور اس کے بعد ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تو ان کو میاں نوازشریف کے خلاف الیکشن لڑنے کی اجازت مل گئی۔ اشتیاق اے چوہدری وکلا لیڈر بھی رہے اور مرحوم ایس ایم ظفر کہا کرتے تھے کہ اشتیاق چوہدری میری قانونی صلاحیتوں کے حقیقی وارث ہیں۔ان کے ساتھی وکلاءکی طرف سے ان کی انتخابی مہم بھرپور طریقے سے چلائی گئی لیکن انتخابات سے قبل ان سے رابطے ہوئے تو یاسمین راشد کے حق میں دستبردار ہو گئے اور انہوں نے یاسمین راشد کی مہم اسی طرح سے چلائی جیسے اپنی پارٹی کے کسی لیڈر یا ساتھی کی چلائی جاتی ہے اور پھر جو نتیجہ آیا وہ پوری دنیا کے سامنے ہے۔فارم 45 اور 47 کا یہاں پہ تذکرہ لا حاصل ہوگا۔
اشتیاق اے چوہدری کی اپنی پارٹی پاکستان عوامی محاذ موجود تھی لیکن اس پلیٹ فارم کو انہوں نے محدود سمجھتے ہوئے تحریک انصاف میں اپنی پارٹی کو ضم کرنے کا فیصلہ کیا۔ 15مارچ پاکستان کی ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے ،عمران خان کی کوششوں سے اس دن کو اقوام متحدہ کی طرف سے اسلامو فوبیا کے خلاف دن منانے کا فیصلہ کیا گیا اور 15مارچ2024ءکو جس روز یہ پوری دنیا میں اسلامو فوبیا کے خلاف دن منایا جا رہا تھاعین اس روز لاہور میں ایک بڑی پریس کانفرنس ہوتی ہے جس سے اشتیاق اے چوہدری، حامد خان اور تحریک انصاف کے ایک اور بڑے لیڈر آصف سعید خان کھوسہ خطاب کرتے ہیں۔اس کانفرنس کے دوران اسلاموفوبیا کے خلاف دن منانے کا بھی تذکرہ کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر اشتیاق اے چوہدری کی طرف سے اپنی پارٹی کو تحریک انصاف میں ضم کرنے کا اعلان کیا گیا۔
ان کی تحریک انصاف میں شمولیت میں تحریک انصاف کو بھی تقویت ملے گی اورخود یہ ایک وسیع تر پلیٹ فارم پر اپنی سیاست کر سکیں گے۔ اشتیاق اے چوہدری انسانی حقوق کے لیے اپنے آپ کو گویا وقف کر چکے ہیں۔ مظلوموں کے مقدمات ان کی طرف سے بالکل فری لڑے جاتے ہیں۔ پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے اشتیاق اے چوہدری کی طرف سے کہا گیا کہ 75سال سے پاکستان کو لوٹا گیا ہے اور ایک بار پھر پاکستان پر انہی لوگوں کو مسلط کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا ان کے خلاف جدوجہد لازم ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح سے وہ پہلے ایک چھوٹے پلیٹ فارم پر اپنی پارٹی ہی کو سب کچھ سمجھتے تھے اس کو اب کنویں سے تعبیر کر سکتے ہیں۔تو ان کا یہ سفر کنویں سے سمندر تک کا سفر ہے۔ اور پوری دنیا جانتی ہے کہ جو پارٹی اقتدار میں ہوتی اس کی طرف چھوٹی پارٹیاں کھینچی چلی آتی ہیں ،آزاد امیدوار بھی اسی پارٹی کو جوائن کرتے ہیں۔پاکستان میں آج کل مسلم لیگ ن کی باقی پارٹیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی گئی ہے۔ اشتیاق اے چوہدری نے بالکل پاکستان کی روایتی سیاست کے ا±لٹ کیا، انہوں نے ایسی پارٹی جو آج کل زیر عتاب ہے، ان کے اکثر لیڈر زیر زمین ہیں ،کچھ جیلوں میں ہیں۔ ایسے موقعے پر اشتیاق اے چوہدری کی طرف سے اس پارٹی کو جوائن کرنا جہاد سے کم نہیں ہے۔ ان کی طرف سے اسی پریس کانفرنس میں اعلان کیا گیا کہ جس طرح سے میں مظلوموں کے انسانی حقوق کے حوالے سے مقدمات بالکل فری لڑتا ہوں ،میری تحریک انصاف کے ان کارکنوں کے لیے خدمات بھی فری ہوں گی جن کو پورے پاکستان میں کہیں بھی غیرقانونی طور گرفتار کیا گیا ہے۔
قارئین!اقتدار اور مصلحت آنی جانی چیزیں ہیں ،انسان کے نصیب میں اگر اقتدار لکھا ہے تو اسے مل ہی جاتا ہے۔ مگر یہی اقتدار کبھی کبھی انسان کو تختہ¿ دار تک بھی پہنچا دیتا ہے۔ جس طرح شہید ذوالفقار علی بھٹو کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات کا اگر تجزیہ کیا جائے تو اس میں ان خاندانوں کو قطعاً فراموش نہیں کیا جا سکتاجنہوں نے سیاست کے نام پر سیاست جیسے مقدس شعبے کو وراثت سے منسلک کر دیا ہے۔ہم خاص طور پر اوورسیز میں رہنے والے پاکستانی جب پاکستان کے حالات کو دنیا بھر سے کمپیئر کرتے ہیں تو ہمیں دلی دکھ اور ٹھیس پہنچتی ہے کہ 2024ءکا عیسوی سال چل رہا ہے اور تو اور ہمارا ہمسایہ دشمن بھارت چندرماں پر پہنچ چکا ہے اور ہم آٹے کے تھیلوں پر بنی تصویروں کی سیاست کر رہے ہیں۔اور دراصل پاکستان میں سیاست کو وراثت اور ملوکیت سے تشبیہ دی جاتی ہے یعنی سیاست کو ایک کاروبار سمجھتے ہوئے نئی نسل کو منتقل کرنا اپنی اولادوں اور خاندان کا شرعی و قانونی حق سمجھا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی سیاست اس وقت دنیا کی حقیقی جمہوری سیاست کی نظر میں نچلا ترین مقام رکھتی ہے۔اور آج سیاست کو ایک گندہ پروفیشن سمجھ کر بچوں کو اس سے دور رہنے کی تلقین کی جاتی ہے۔قارئین! یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان میں مستقبل کے امورِ مملکت چلانے کے لیے سیاسی نرسری ناپید ہے۔اور اس کے تدارک کے لیے نوجوان نسل اور ہماری یوتھ کو آگے بڑھنا ہوگا اور پاکستان کے سیاسی پراگندہ ماحول سے ان سیاسی جونکوں کو ہٹانا ہوگا اور اشتیاق چوہدری صاحب کا یہ نیا سفر دراصل کنویں سے سمندر تک کا سفر ہے، جس کی تعبیر انہیں حاصل کرنی ہو گی۔