علامہ احسان الٰہی ظہیر: ختمِ نبوت کی چوکھٹ کا چوکیدار 


ڈاکٹر سبیل اکرام 
 برصغیر وہ خطہ ہے جس پر مسلمانوں نے 800سال حکومت کی ہے لیکن پھر ایک وقت ایسا آیا کہ مسلمانوں کا اقبال زوال میں ڈھلنے لگا۔ ایک طرف مرہٹے طوفان کی طرح اٹھے وہ مسلمانوں کو خش وخاشاک کی طرح بہالے جانا چاہتے تھے۔دوسری طرف انگریز مسلمانوں کو ہڑپ کرنے کے لیے کوشاں تھے۔ تیسری طرف کشمیر ، پنجاب اور ہزارہ میں سکھ مسلمانوں کو ذبح کررہے تھے۔ ان حالات میں اسلامیانِ برصغیر کی غیرت ایمانی نے جوش مارا۔ 1857ءمیں مسلمانوں نے انگریز کے خلاف جہاد شروع کیا جو بوجوہ ناکام ہوگیا۔ پھر سید احمد اور شاہ اسماعیل شہید نے جہادی تحریک شروع کی۔ اس تحریک کے جانثاروں اور وفاداروں نے بارہادفعہ انگریز فوجوں کو شکست فاش سے دوچار کیا اور میدان کارزار میں ایسی پٹخنیاں دیں کہ انگریز چاروں شانے چت گرتے چلے گیے۔ تب انگریز نے چاہا کہ مسلمانوں کے دلوں سے حب ِ محمد اور ودماغوں سے روح ِ جہاد کو نکال دیا جائے۔ اب چونکہ ایک نبی کے حکم میں ترمیم و تنسیخ دوسرے نبی کے ذریعے سے ہی ہوتی ہے۔ چنانچہ حکومت برطانیہ کی سرپرستی اور لالچ پر سیالکوٹ کی ضلع کچہری کے ایک منشی مرزاقادیانی ملعون نے مسیلمہ کذاب کی جانشینی اور اسود عنسی کی معنوی ذریت کا ثبوت دیتے ہوئے نبی اور رسول ہونے کا دعوی کیا۔ آنجہانی مرزا ملعون نے پہلے خود کو عیسائیت اور ہندو مخالف مناظر کی حیثیت سے متعارف کروایا۔ اس طرح سے مسلمانوں کی جذباتی، نفسیاتی ہمدردیاں اور قبولیت حاصل کی پھرہذیان ، ہفوات اور لغویات بکتے ہوئے کبھی مجدد، کبھی محدث ، کبھی ظلی نبی ، کبھی بروزی نبی ، کبھی مہدی ، کبھی مثل مسیح اور کبھی مسیح موعود ہونے کے دعوے کرتا رہا اور آخر کار ایک صاحب شریعت نبی ہونے کا دعویٰ کربیٹھا اور اعلان کیا کہ وہ خود محمد رسول ہے ( نعوذباللہ )۔
مرزا ملعون قادیانی اور اس کی ذریت کو چونکہ انگریز کی سرپرستی حاصل تھی اس لیے وہ کھل کر اسلام اور پیغمبر اسلام پر کی شان اقدس میں گستاخیاں کرنے لگے تاہم مسلمانوں نے علمی میدان میں مرزا قادیانی اور اس کی ذریت کا خوب مقابلہ کیا۔ سب سے پہلے شیخ الکل فی الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی اور ان شاگرد خاص ابو سعید مولانا محمد حسین بٹالوی نے مرزا قادیانی اور اسے نبی ماننے والے کے خلاف کفر کا فتوی دیا لیکن جس شخصیت نے مرزا قادیانی اوراس کی معنوی ذریت کو چاروں شانے چت گرایا وہ شیخ الاسلام مولانا ثناءاللہ امرتسری تھے۔ اسی طرح دیگر مسالک کے علماءجن میں ہزاروں نام شامل ہیں سب نے رسول مقبول کے ساتھ محبت کا حق ادا کرتے ہوئے مرزا قادیانی کا تعاقب جاری رکھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد جب بعض وجوہ کی بنا پر قادیانیت نے زیادہ ہی پرپرزے نکالنے شروع کردیے توعلما ئے اور شیوخ عظام نے بھی اس کا تعاقب شروع کردیا۔ یہاں تک کہ وہ تاریخی دن آیا جب قادیانی اور قادیانیوں کا لاہوری فرقہ غیر مسلم اقلیت قرار پائے۔ قادیانیت کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے میں جن علماءو زعماءاور شخصیات نے تاریخ ساز کردار ادا کیا ان میں میرے نانا علامہ احسان الٰہی ظہیر سرفہرست تھے۔ 
حقیقت یہ ہے کہ جس طرح ایک صحیح العقیدہ مسلمان کے خون میں اسلام کی محبت دوڑتی ہے ایسے ہی مرزا قادیانی اور اس کی گندی ذریت سے نفرت میرے نانا کے خون میں شامل تھی۔ جس تحریک جس میں قادیانی غیر مسلم اقلیت قرار پائے وہ 1974ءمیں چلی تھی جبکہ میرے نانا علامہ احسان الٰہی ظہیر 60ءکی دہائی میں مدینہ یونیورسٹی میں تعلیم کے لیے گئے تو انھوں نے مشاہدہ کیا کہ عالمِ عرب اور بالخصوص آپ کے اساتذہ کرام فتنہ¿ قادیانیت کے بارے میں زیادہ آگاہی نہیں رکھتے، لہٰذا انھوںنے دورِ طالب علمی میں اپنی پہلی معرکہ الآراءتصنیف ’القادیانیہ‘ عربی زبان میں تالیف فرمائی۔ اساتذہ کرام کو کتاب کا مسودہ دکھایا گیا توسب نے اسے بے حد پسند کیا۔اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس ایک واقعہ سے کیا جاسکتا ہے کہ ایک مسلمان مبلغ جنھیں سعودی عرب نے دین ِ حنیف کی تبلیغ اور مرزائیت کے تعاقب واستیصال کے لیے افریقی ملک نائیجریا بھیجا تھا۔ اس نے وہاں جا کر ایک خط میرے نانا کے نام لکھا اس خط میں وہ مبلغ یوں رقمطراز ہیں، ’آپ کی عربی زبان میں لکھی ہوئی کتاب ’القادیانیت‘ قادیانیوں کے لیے ضرب کلیمی کی حیثیت رکھتی ہے اور یہاں خاصی بڑی تعداد میں تقسیم کی گئی ہے۔اس کتاب کودیکھتے ہی پاکستان سے واردشدہ قادیانی مبلغوں کے چہرے اس قدر تاریک ہوجاتے ہیں کہ انھیں الفاظ میں بیان نہیں کیاجاسکتا۔‘
یہ تو تھا کتاب کی مقبولیت کا واقعہ، اب ایک واقعہ کتاب کی قبولیت کا بھی ملاحظہ فرمالیں۔ میرے نانا کہتے ہیں:’جب 1967ءکے رمضان المباک کی ستائیسویں شب مسجد نبوی کے پڑوس میں اپنی کتاب ’القادیانیت ‘ کو مکمل کر کے سویا تو کیا دیکھتا ہوں کہ سحرگاہ دعائے نیم شبی لبوں پر لیے بابِ جبرئیل کے راستے (کہ جب دیارِ حبیب میں میرا مکان اسی جانب تھا) مسجد نبوی کے اندر داخل ہوتا ہوں، لیکن روضہ¿ اطہر کے سامنے پہنچ کر ٹھٹک جاتا ہوں کہ آج خلاف معمول روضہ معلی کے دروازے وا ہیں اور پہرے دار خندہ رو استقبالیہ انداز میں منتظر ہیں۔ میں اندر بڑھاجاتا ہوں کہ سامنے سرور کونین رحمت عالم حضرت محمد رعنائیوں اور زیبائیوں کے جھرمٹ میں صدیق اکبر اور فاروق اعظم رضی اللہ عنھما کی معیت میں نماز ادا کررہے ہیں۔ دل خوشیوں سے معمور اور دماغ مسرتوں سے لبریز ہو جاتا ہے اور جب میں دیر گئے باہر نکلتا ہوں تو دربان سے سوال کرتا ہوں۔ ’یہ دروازے تم روزانہ کیوں نہیں کھولتے؟‘ جواب ملا، ’یہ دروازے روزانہ نہیں کھلا کرتے!‘ آنکھ کھلی تو مسجد نبوی کے میناروں سے یہ دلکش ترانے گونج رہے تھے: اشھدان لاالہ الا اللہ، اشھد ان محمد رسول اللہ ۔ اور صبح جب میں نے مدینہ یونیورسٹی کے چانسلر کو ماجرا سنایا تو انھوں نے فرمایا: ’تمھیں مبارک ہو! ختم نبوت کی چوکھٹ کی چوکیداری میں خاتم النبیین کے رب نے تمھاری کاوش کو پسند فرمایا ہے۔‘
اس کے بعد جب میرے نانا تکمیل تعلیم کے بعد پاکستان آگئے تو انھوں نے اپنی تحریروں ، تقریروں اور خطبات جمعہ میں قادیانیت کی گوشمالی کا سلسلہ شروع کیا۔’ماہنامہ ترجمان الحدیث ‘ کی ابتدا کی تو اس کے اکثر اداریے قادیانیت کے بارے میں ہوتے تھے۔ 1974ءمیں قادیانیت کے خلاف تحریک چلی تو انھوں نے مولانا یوسف بنوری ، آغا شورش کاشمیری ، مولانا مفتی محمود ، نواب زادہ نصراللہ خان اور اس وقت کے بڑے بڑے علماءاور خطباءکے ساتھ پورے ملک کے طوفانی دورے کیے۔ خاص کر اس تحریک کا آخری جلسہ جو1974ءکو 6ستمبر کی رات بادشاہی مسجد میں منعقد ہوا۔ دوران جلسہ بعض وجوہ کی بنا پر بدمزگی اور بدانتظامی پیدا ہوگی یہاں تک ساﺅنڈ سسٹم بھی بند ہوگیا قریب تھا کہ لوگ تتر بتر ہوجاتے اورجلسہ ناکام ہوجاتا تب میرے نانا نے خدادا صلاحیتوں اور گرجدار آواز کے ساتھ جس طرح جلسہ کو کنٹرول کیا۔ اس پر مولانا یوسف بنوری نے میرے نانا کا ماتھا چومتے ہوئے کہا تھا، ’بیٹا ٰ ٰ ! تم اس تحریک کے سالار ہو اور چوکیدار ہو۔ آج تم نے ہماری لاج رکھ لی ہے‘۔ دعا ہے کہ اللہ تحریک ختم نبوت کے شہداءکی قربانیاں قبول فرمائے اور ہم سب کو عقیدہ ختم نبوت کی چوکھٹ کی چوکیداری کی توفیق عطا فرمائے۔

ای پیپر دی نیشن