یادش بخیر! بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خاں، ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بننے والے 9 ستاروں کے درخشاں ستارے تھے لیکن جب ضیا الحق کا مارشل لاء لگا تو ایم آر ڈی بنا کر محترمہ بےنظیر بھٹو کے شانہ بشانہ آگئے۔ محترمہ وزیراعظم بنیں تو نوابزادہ نصراللہ صاحب پھر مخالف سمت میں چلنے لگے۔ کچھ عرصہ تو محترمہ تحمل کا مظاہرہ کرتی رہیں لیکن جب دیکھا کہ: ”صبر کا پودا تو نہ پھولا نہ پھلا ہے“ تو زور دار بیان داغ دیا کہ نوابزادہ نصراللہ مارشل لاءمیں بحالی جمہوریت اور جمہوریت میں بحالی مارشل لاءکی جدوجہد کرتے ہیں۔
یاد سے یاد کے دیپ جلتے ہیں .... یہ باتیں یاد آئیں تو ذہن میں ایک لطیفہ بھی آدھمکا: ”ایک شخص کا بہت پیارا بلکہ لاڈلا گھوڑا (جو مارشل لاءمیں جمہوریت اور جمہوریت میں مارشل لاءکی بحالی کی بالکل بھی جدوجہد میں نامزد نہیں تھا اور نہ ہی کسی بھی قسم کے فارموں کی تبدیلی میں مورد الزام ٹھہرایا گیا تھا)، بیمار ہو گیا۔ گھوڑے کا مالک بہت پریشان ہوا۔ بھاگا بھاگا اور گھوڑے کو بھی اپنے ساتھ بھگاتا جانوروں کے ڈاکٹر کے پاس جا پہنچا۔ مدعا بیان کیا تو ڈاکٹر نے ایک عدد پھکی دے ڈالی (ڈاکٹر غالباً فرصت کے اوقات میں انسانوں کا حکیم بھی تھا) اور گھوڑے کے مالک سے بولا کہ یہ پھکی جاتے ہی گھوڑے کے منہ میں ڈال دینا۔ گھوڑے کے مالک نے طریقہ استعمال پوچھا تو ڈاکٹر صاحب نے فرمایا: ایک پائپ لینا اس کے اندر دوا (پھکی) رکھ کر ایک سرا گھوڑے کے منہ میں ڈال کر دوسرا اپنے منہ میں لے کر زور سے پھونک مار دینا، بس کام ہو جائے گا“۔ تھوڑی دیر بعد گھوڑے کا مالک پہلے سے بھی کہیں زیادہ پریشان ہو کر لوٹا اور حکیم نما ڈاکٹر کو بتایا کہ ”اس سے پہلے کہ میں پھونک مارتا گھوڑے نے مار دی“ اور دوا (پھکی) مجھے کھلا دی۔ بس ہماری سیاسی جماعتوں کا احوال بھی کچھ اس سے مختلف نہیں۔ وہ ہر وقت عوام الناس (بقول مشتاق احمد یوسفی جن کا ستیاناس مار دیا گیا ہے) کو جمہوریت کی پھکی کھلاتی نظر آتی ہیں۔ اداروں کو بھی جمہوری قاعدہ پڑھاتی ہیں۔ غرض سارا دن آمریت کا پتھر چاٹتی رہتی ہیں اور یاجوج ماجوج کی طرح جب بات اپنے اوپر آتی ہے تو شام کا بہانہ بنا کر آرام کرنے چلی جاتی ہیں پتھر وہیں کا وہیں رہتا ہے اور اگر کوئی جمہوریت کی یہ پھکی انہیں کھلانے کی کوشش کرتا ہے تو گھوڑے کی طرح اس طرح ہنہناتی ہیں جیسے کسی شجر ممنوعہ کا پھل منہ میں ڈال دیا گیا ہو۔
انسانی تاریخ میں سیاسیات پر لکھنے والے بڑے بڑے فلسفی گزرے ہیں۔ افلاطون ہو یا ارسطو، بیشتر نے اخلاقیات کا سبق گھوٹ گھوٹ کر پلایا۔ لیکن دو دانشور ایسے بھی ہیں جنہوں نے ایسا کچھ لکھ دیا کہ جسے بہت متنازعہ بھی قرار دیا گیا لیکن اس کو جھٹلایا نہیں جا سکا۔ ان میں سے ایک میکاولی ہیں جنہوں نے شہرہ آفاق کتاب ”دی پرنس“ لکھی اور اس میں صاف صاف درس دے دیا کہ: ”اقتدار حاصل کرنے کےلئے جو غلط سلط طریقہ بھی ہو اسے اختیار کر لینا چاہئے۔ اور جب اقتدار مل جائے تو اچھا بن جانا چاہئے کیونکہ لوگ نتائج کو ہمیشہ سامنے رکھتے ہیں اور طریقہ کار بھول جاتے ہیں“۔ دوسرے صاحب تھامس ہابز ہیں جنہوں نے اپنی یادگار کتاب ”لیویاتھن“ میں کہا کہ: ”انسان فطرتاً ”ت±ھڑ دل“ ہے۔ وہ وسائل کے حصول کےلئے ایک دوسرے سے لڑتا ہے، ایک دوسرے کو تباہ کر دیتا ہے یا ان وسائل کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا ہے جن کےلئے لڑ رہا ہوتا ہے۔
اللہ کے فضل سے ہمارے کرم فرماو¿ں میں یہ دونوں خوبیاں بدرجہ ا±تم پائی جاتی ہیں۔ بلکہ وہ تو مستقل بنیادوں پر اچھا بننے کی کوشش بھی نہیں کرتے اور باتوں کی کھٹی کھانے پر ہی اکتفا کر لیتے ہیں۔
بات یہ نہیں کہ سیاسی جماعتوں نے جمہوریت کے لئے جدوجہد نہیں کی، جیلیں کاٹیں اور جانوں کے نذرانے تک پیش کئے ہیں۔ یہ سب سر آنکھوں پر اور دل سے تسلیم لیکن عرضِ مدعا یہ ہے کہ اس سب کے باوجود سیاسی جماعتوں کا احوال طلسم ہوشربا کے افراسیاب کی سلطنت جیسا ہی رہا ہے جس میں دریائے خون کے ایک طرف ہم جیسے حقیر فقیر عوام بسیرا کرتے تھے اور دوسری طرف خواص ہوتے تھے۔ عوام اپنے خون کا نذرانہ دیکر بھی دریائے خون کی یہ سرحد پار نہیں کرسکتے تھے۔
اپنے ملک کے عوام بھی برسوں ان سیاسی جماعتوں کا حصہ رہتے ہیں لیکن کبھی اوپر کبھی نیچے سے من پسند لوگ بادشاہتوں کے لئے چ±ن لئے جاتے ہیں اور اقتدار کے دریائے خون کے دوسری طرف کھڑے عوام جارج آر ویل کے ناول ”اینیمل فارم“ کی طرح دور کھڑے حسرت سے دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتوں کو یہ ادراک ہونا چاہئے کہ جب تک وہ اپنے اندر موجود شفاف، منصفانہ اور ایماندارانہ جمہوریت کے پودے کو توانا درخت میں تبدیل نہیں کرتیں اور بلدیاتی اداروں کو اپنے فروغ کا ”بیس کیمپ“ نہیں بناتیں۔ نہ تو ملک میں شفاف، منصفانہ اور توانا جمہوریت کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے اور نہ ہی ملک کو صحیح معنوں میں جمہوری اعتبار سے آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ شاید چرچل نے کہا تھا کہ: ”جمہوریت کمزور ہو اور بظاہر کام نہ کر رہی ہو تو اس کا علاج مزید جمہوریت ہے“ لیکن یہ ”مزید جمہوریت“ صرف عام انتخابات تک محدود نہیں رہنی چاہئے بلکہ سیاسی جماعتوں کے اندر سے چھلک چھلک پڑنی چاہئے۔
ہمارے ہاں سیاسی رہنماو¿ں اور عوام دونوں میں اللہ کی مہربانی سے کچھ قدریں اور پسند نا پسند کی کیفیتیں ابھی تک مشترک بھی ہیں۔ جی ہاں میرا اشارہ ترکیہ کے صدر اردگان صاحب کی طرف ہے۔ بہت سے پاکستانی سیاستدان اور عوام انہیں پسند کرتے ہیں اور ایک رول ماڈل کے طور پر پیش کرتے ہیں لیکن یہ جاننے کا تردد گوارہ نہیں کرتے کہ وہ بھی بلدیاتی اداروں سے ہی برآمد ہوئے ہیں۔ قانون قدرت ہے کہ توانا اور مضبوط بننے کے لئے ارتقائی عمل سے گزرنا ضروری ہے۔ ایک پودے کو شروع ہی سے بڑھنے پھولنے سے روک دیا جائے تووہ توانا اور مضبوط درخت نہیں بن سکتا۔ اسی طرح ہماری سیاسی جماعتوں کو بھی توانا اور مضبوط ہونے کے لئے ارتقائی عمل سے گزرنا ہوگا ورنہ: ”شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں“
آخر میں آپا بانو قدسیہ کا لکھا ہوا ایک قصہ یاد آگیا۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ ”سودا سلف کے لئے گھر کی ملازمہ کو قریبی دکان پر بھیجا گیا تووہ ایک گھنٹے بعد واپس آئی جبکہ اصولاً اسے دس سے پندرہ منٹ تک واپس آ جانا چاہئے تھا، خیر مالکن نے دیر سے آنے کی وجہ دریافت کی تو ملازمہ بڑی معصومیت سے بولی: کیا بتاو¿ں آپا ایک غنڈہ موالی پیچھے لگ گیا تھا۔ کمبخت جان ہی نہیں چھوڑ رہا تھا۔ اس پر مالکن نے کہا کہ پھر تو تمہیں جلدی جلدی قدم اٹھاتے دس منٹ میں ہی واپس آ جانا چاہئے تھا تاکہ اس سے جان چھوٹ جاتی“۔
اس پر ملازمہ کا انداز پہلے سے بھی زیادہ معصومانہ ہو گیا اور بڑے بھولے لہجے میں جواب دیا کہ: ”باجی میں تو جلدی جلدی قدم ا±ٹھاتی تھی پر وہ موا بہت آرام آرام سے چل رہا تھا۔“
اب یہ ہماری سیاسی جماعتوں پر منحصر ہے کہ وہ جلد جلد قدم اٹھانا چاہتی ہیں یا آہستہ آہستہ پاو¿ں دھرنا چاہتی ہیں۔وہ انڈے دیں یا بچے انکی مرضی۔ لیکن یہ ضورت یاد رکھیں کہ آمر وردی اور غیر جمہوری ہتھکنڈوں کو اقتدار اور طاقت کا ذریعہ بناتے ہیں جبکہ سیاسی جماعتوں کی وردی اور ”ہتھکنڈے“ عوامی حمایت ا ور سیاسی عمل میں عوام کی زیادہ سے زیادہ شمولیت کے ہوا کرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭