سوئی ناردرن گیس نے ایک ہی سال میں گیس کی قیمت میں تیسرا اضافہ مانگ لیا۔ ذرائع کے مطابق اوگرا نے گذشتہ روز 25 مارچ کو گیس کی قیمتوں 145 فیصد اضافے کے لیئے سوئی ناردرن گیس کمپنی کی درخواست کی سماعت کی۔سوئی ناردرن نے 4489 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو قیمت تجویز کی ہے۔دوسری جانب صوبائی دارالحکومت کے بیشتر علاقوں میں 13ویں روزے کو بھی کھلے عام سبزیوں اور پھلوں کی گراں فروشی جاری رہی۔ صارفین کا کہنا ہے کہ سرکاری نرخنامے میں ایک کلو آلو نیا درجہ اول کی سرکاری قیمت 53روپے کلو مقرر تھی جبکہ دکاندار70 سے 75روپے تک فروخت کررہے ہیں۔ تاجکستانی پیاز 140کی بجائے 170، پیاز درجہ اول 180روپے کی بجائے 250 سے 260 روپے کلو فروخت کی جا رہی ہے۔ اسی طرح دوسری سبزیوں پر بھی من مانی قیمت وصول کی جا رہی ہے۔
تمام تر حکومتی دعوﺅں اور اقدامات کے باوجود عام بازاروں اور مارکیٹ سمیت رمضان بازاروں میں گرانی عروج پر نظر آرہی ہے۔ اشیائے غیرمعیاری ہونے کی شکایات بھی سامنے آرہی ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز عوام کو حقیقی ریلیف دینے کیلئے کوشاں ہیں اور رمضان بازاروں کے دورے بھی کر رہی ہیں ‘ اسکے باوجود اشیاءخوردونوش کے نرخ بڑھتے ہی جا رہے ہیں جس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ منافع خور طاقتور مافیا نہ صرف حکومتی رٹ کو چیلنج کررہا ہے بلکہ ماہ رمضان میں دونوں ہاتھوں سے ناجائز منافع خوری بھی کررہا ہے۔ پرائس کنٹرول کمیٹیاں کہیں ہیں کہیں نہیں ہیں‘ انکی تھوڑی بہت فعالیت بھی بے سود نظر آرہی ہے۔ دکانوں پر سرکاری نرخنامے آویزاں ہیں مگردکاندار گاہکوں سے من مانی قیمتیں وصول کر رہے ہیں جو حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہونی چاہئیں بالخصوص یہ ساری صورتحال وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی توجہ کی متقاضی ہے جو عوام کو ریلیف دینے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔ دوسری جانب سوئی ناردرن گیس نے ایک ہی سال میں تیسری بار گیس کی قیمت بڑھانے کیلئے حکومت سے اجازت مانگ لی ہے۔ اول تو عوام کو ماہ رمضان میں بھی بدترین گیس لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے‘ اگر کسی علاقے میں گیس میسر ہے تو اسکے نرخ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ اتحادی حکومت کو اجازت دینے سے پہلے یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ وہ اقتدار میں عوام کو ریلیف دینے کے وعدے کرکے آئی ہے۔ اگر اس نے اپنے وعدوں کی پاسداری نہ کی تو اتحادیوں کو ایک بار پھر سخت عوامی ردعمل کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ بے شک ملکی اقتصادی صورتحال انتہائی سنگین ہے اور دوسری جانب آئی ایم ایف کی تلوار بھی اسکے سر پر لٹک رہی ہے۔ اس لئے حکومت کیلئے سخت فیصلے کرنا ناگزیر ہیں۔ اتحادی حکومت کیلئے یہی کڑا امتحان ہے کہ وہ آئی ایم ایف کو کس طرح مطمئن کرتی ہے اور مشکلات کے بھنور سے عوام کو کس طرح باہر نکالتی ہے۔