دو ٹوک حکومتی فیصلے: بلا تفریق سیاسی تائید کی ضرورت

Mar 26, 2024

عترت جعفری
وفاق اور صوبوں میں  جمہوری  حکومتوں نے کام کرنا شروع کر دیا ہے، 2اپریل کو سینٹ کے الیکشن ہوں گے، اس وقت  سینٹ غیر فعال  ہے، چیئرمین سینٹ  بلوچستان اسمبلی کے رکن بن گئے  جبکہ ڈپٹی چیئرمین کی معیاد پوری ہو گئی تھی۔ اب سینٹ کی خالی ہونیوالی 48 نشستوںکے لیے پولنگ 2 اپریل کو ہونی ہے جس کے لیے انتظامات کر لیے گئے ہیں۔ یہ  پولنگ  قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں ہوگی، جس کے بعد چیئرمین سینٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کا انتخاب عمل  میں لایا جائے گا، چئیر مین سینٹ کے لیے پاکستان  پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا نام لیا جا رہا ہے،  ایوان بالا کے فعال  ہونے کے بعد ملک کے اندر جمہوری سیٹ اپ مکمل ہو جائے گا۔  وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومتیں ان کے سامنے چیلنجز بہت بڑے ہیں، جمود کا شکار معیشت ، امن و امان کی صورتحال،  انتخابات کے انعقاد کے بعد ایک طرح کی سیاسی بے چینی کے  اس ماحول میں کسی بھی حکومت کے لیے پالیسیوں پر عملدرآمد آسان کام نہیں ہوگا۔ بے روزگاری کے مسائل الگ سے موجود ہیں،  صورتحال  کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے  کہ رمضان المبارک کے دوران مہنگائی کی صورتحال دگرگوں ہو چکی ہے،  افواہ سازی کا عمل  بنا روک ٹوک جاری ہے  جس نے لوگوں کی نفسیات پر برا اثر مرتب کیا ہے ،، اس ماحول کے اندر حکومتوں کو اب  فیصلہ کن طور پر آگے بڑھنا ہوگا،تساہل کی گنجائش باقی نہیں رہی،مسائل اور ایشوز کے حل کی جانب  کام کرنا پڑے گا ،اسلام ااباد میں اب تیزی آ رہی ہے ،وفاقی کابینہ کے اجلاس شروع ہو چکے ہیں،وزیراعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا۔وزیراعظم کا کابینہ سمیت تنخواہ اور مراعات نہ لینے کا فیصلہ کیا جو بہت اچھا پیغام بنے گا ،وزیراعظم شہباز شریف نے کابینہ میں اظہار خیال میں کہا کہ سر حد پار سے دہشتگردی اب برداشت نہیں کریں گے، پاکستان کی سرحدیں دہشت گردی کے خلاف ریڈلائن ہیں۔خطے میں امن کے لیے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں، دہشتگردی کے خاتمے کے لیے قوم نے عظیم قربانیاں دی ہیں۔ ہمیں آئی ایم ایف کے نئے پروگرام کی ضرورت ہے کیونکہ قرضوں کے بغیر ہمارا گزارا نہیں، معیشت کو پاؤں پر کھڑا کر کے ملک کو قرضوں سے نجات دلانی ہے۔ کوشش کریں گے کم سے کم قرض لیں، پچھلی حکومت میں ہم نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا۔
اس وقت کی معاشی صورت حال میں ایک اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ سٹینڈ بائی اریجمنٹ کے معاہدہ کو مکمل کر لیا ہے اور نئے آئی ایم ایف پرو گرام کو لینے کا اعلان کیا ہے۔آئی ایم ایف کے بیان  میں کہا گیا اس سال ترقی معمولی رہنے کی توقع اور افراطِ زر ہدف سے کافی زیادہ ہے، اقتصادی کمزوریوں سے نمٹنے کے لیے جاری پالیسی اور اصلاحات کی ضرورت ہے۔آئی ایم ایف کے اعلامیے میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور نگراں حکومت کے حالیہ مہینوں میں  اقدامات کو سراہا گیا ہے۔آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان نے نئے قرض پروگرام کے حصول میں دلچسپی ظاہر کی ہے، جس کیلئے میڈیم ٹرم فنڈ سپورٹڈ پروگرام پر مذاکرات ہوںگے۔
اس دوران عام انتخابات کے نتائج کے آڈٹ کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ہے ۔یہ درخواست سابق وزیراعظم اور بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے دائر کی ہے ۔اس درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ کے غیر جانب دار حاضر سروس ججز پر مشتمل جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے، جو عام انتخابات کا آڈٹ اور اس کے بعد جاری ہونے والے نتائج کا آڈٹ کرے۔اس وقت سابق وزیر اعظم کے  خلاف مقدمات میں سزاوں کے خلاف اپیلیں  بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہیں ،ان کا فیصلہ بھی جلد متوقع ہے ۔
گیس کی قیمت میں حالیہ اضافے پر وزیرِ اعظم شہباز شریف نے اظہارِ برہمی کیا ہے اوروزارتِ توانائی کو 1 سے 3 ماہ میں 16 ٹاسک مکمل کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔
ملک کے مختلف شعبہ جات میں مجموعی طور پر 5 ہزار 800 سوارب روپے کی ٹیکس چوری کا انکشاف بھی لمحہ فکریہ ہے، ایف بی ار نے ٹیکس چوری روکنے کیلئے جامع حکمت عملی متعارف کروادی۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر)حکام کا کہنا ہے کہ صرف سیلز ٹیکس کی مد میں سالانہ تقریباً دوہزار 900 ارب روپے کی چوری ہورہی ہے، اسی طرح اسمگلنگ کے باعث پٹرولیم سیکٹر میں 996 ارب روپے کی ٹیکس چوری، ریٹیل سیکٹر میں 888 ارب اور ٹرانسپورٹ کے شعبے میں 562 ارب کا ریونیو گیپ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں سے بھی 498 ارب روپے کم ٹیکس وصولی کا انکشاف ہوا ہے اور برآمدی شعبے میں 342 ارب کی ٹیکس چوری جبکہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں بھی سالانہ ایک سو اڑتالیس ارب کم ٹیکس وصول ہورہا ہے جبکہ دیگر مختلف شعبوں میں مجموعی طور پر 1600 ارب سے زائد کے ٹیکس گیپ کا تخمینہ ہے وفاق اور صوبوں کے اخراجات کا حجم جی ڈی پی کے 19فیصد کے مساوی، تاہم ٹیکس وصولی گیارہ اعشاریہ چار فیصد ہے۔حکومت بلا شبہ ان اہم سیاسی وانتظامی امور کو نمٹانے کی ذمہ دار ہے۔ ٹیکس چوری کے تدارک کے لیے اگرچہ ایف بی آر نے جامع حکمت عملی وضع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت ریونیو جنریشن پلان پر عمل درآمد تیز کیا جائے گا اور آٹومیشن کو فروغ دیا جائے گا۔ مگر اصل امتحان ہماری سیاسی قیادت کا ہے جو محض اپنے  اپنے  قابل قبول حل کے بجائے مشترکہ حکمت عملی کے تحت  انتظامی سطح پر  فیصلوں کی  بلا تفریق  قوت نافذہ بن کر  عمل کرے ۔

مزیدخبریں