ٹیکس چوری 5.8 ٹریلین، سیاست کے باعث ایف بی آر اصلاحات 2 دہائیوں سے بے نتیجہ

اسلام آباد  (عترت جعفری  ) ملک کی ٹیکس میں مشنری میں  فور ی  اصلاحات جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ، ٹیکس کی چوری کی روک تھام، ملک کو ڈیٹ ٹریپ سے نکالنے کا  واحد راستہ ہے، ملک میں 5.8 ٹریلین روپے کی ٹیکس کی چوری کی اطلاعات موجود ہیں ، اب یہ تمام معاملات ہیں ائی ایم ایف کے جاری پروگرام، اور نئے پروگرام کے حصول کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، آئی ایم ایف سے نیا پروگرام لینے کے لیے ممکنہ کے طور پر یہ پیشگی اقدامات کے زمرے آئیں گے ،  پاکستان کی ٹیکس مشینری پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے ایف بی ار کی اصلاحات گزشتہ دو دہائیوں سے جاری ہیں، 2000 ء  ملک میں معیشت کی ڈاکومنٹیشن کی ایک ملک گیر کوشش کی گئی تھی، تا ہم اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا، عالمی بینک کے اصلاحاتی پروگرام  سے بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ برامد نہیں ہوا، گزشتہ برسوں میں ایف بی آر کی اصلاحات کی کوششیں سیاسی عزم میں کمی کی وجہ سے ناکام ہوئیں، پی ٹی ائی کی حکومت کے دور میں ہرخریداری پر شناختی کارڈ کی شرط لگائی گئی، بعد ازاں واپس لینا پڑا، 2014 میں مسعود نقوی کی سربراہی میں کمیشن بنا، ، پی ڈی ایم کی گزشتہ حکومت میں اشفاق تولہ کے سربراہی میں ایک کمیٹی بنی، ان کمیشن کی رپورٹس سرد خانے میں چلی گئی،  ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے نیا آئی ایم ایف پروگرام لینا ہے، تو شرائط میں یقینی طور پر جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرحوں کو بڑھانا لازمی ہوگا، ماہرین نے تجویز کیا ہے کہ کوئی نئی کمیٹی یا کمیشن بنانے کی بجائے پہلے سے موجود رپورٹس قابل عمل حصوں کو فوری نافذ کر دیا جائے، ماہرین کا کہنا تھا کہ ایف بی ار میں مکمل اٹومیشن کی جائے پرال کے پاس اس کا پورا منصوبہ موجود ہے، ان کا موقف ری ٹیلرز سے ٹیکس لینے کی موجودہ تجویز بھی قابل عمل نہیں ہے، دوسری قابل عمل تجاویزمیں کسٹم کے ڈیپارٹمنٹ کو بارڈر کنٹرول کے ایک مکمل ادارے میں تبدیل کرنا، ایف پی آر میں آڈٹ اور ایچ آر کے شعبوں کو مکمل با اختیار بنانا شامل ہیں۔ ایف بی آر میں آٹومیشن اور ڈیجیٹلائزیشن کو فوری مکمل کرنا ہوگا، تاکہ ادارے اور ٹیکس پیئرز کے درمیان کسی قسم کی فزیکل کنٹیکٹ کی گنجائش باقی نہ رہے۔

ای پیپر دی نیشن