کالاباغ ڈیم کے حوالے سے خادم اعلیٰ پنجاب کا ایک بیان اس کالم کا باعث بنا۔ 11 اپریل کو نوائے وقت میں میرا کالم بعنوان ’’شہباز شریف صاحب! کوئی کام کرکے دکھائیں ‘‘چھپا۔ یہ کالاباغ ڈیم کے حوالے سے ہی تھا۔ 9 بجے کے قریب فاروق عالم انصاری کا فون ملا بہت خوش تھے جب بھی ان سے ملاقات ہوئی وہ مجھے قلم اٹھانے کی اس انداز سے تلقین کرتے ہیں کہ میں شرمسار ہوکر رہ جاتا۔ کہنے لگے کالم بڑا جاندار ہے یوں لگا جیسے مردہ زندہ نہیں ہوا دوڑ پڑا ہے۔ 10 بجے کے قریب شعیب بن عزیز کا فون آگیا۔ کالم کا ذکر خیر کیا اور مجھ سے میرے موبائل نمبر وغیرہ لئے۔ میں نے اسکے باوجود احتیاطاً کالم کی ایک ایک کاپی رائے ونڈ کے ایڈریس پر دونوں بھائیوں کو بھی ارسال کردی مجھے یقین تھا کہ یہ چبھتے سے عنوان والا کالم ضرور شہباز شریف کی نظروں سے گزرچکا ہوگا مگر شہباز شریف کے مورخہ 5 مئی کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ میاں صاحب کو اسے دیکھنے کی فرصت نہیں ملی‘ ورنہ کالاباغ ڈیم کے حوالے سے وہ ایسا Un-Patriotic قسم کا بیان ہرگز نہ داغتے۔ کالم میں انکے اعتراضات کا جواب موجود تھا اور یہ بیان پنجاب کے کسی حکمران کے شایان شان نہ تھا‘ یوں مایوسی ہوئی جیسے کسی مؤکل کا وکیل فریق مخالف سے مل گیا ہو!
ہم میاں شہباز شریف سے مخاطب ہونے سے پہلے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے ایک بیان کا بھی جائزہ لیتے ہیں جو 20 اپریل کو اخبارات کی زینت بنا۔ شہ سرخی تھی ’’کالاباغ ڈیم صوبوںکے اتفاق رائے کے بغیر نہیں بنائیں گے‘‘۔ پاکستان کے بااختیار وزیراعظم کا یہ بیان اس لحاظ سے بڑا غنیمت تھا کہ آصف علی زرداری نے صدارت کا حلف اٹھاتے ہی اپنے والد بزرگوار سردار حاکم علی زرداری کے خان عبدالغفار خاں کے خانوادے کیساتھ تعلقات کو پانی دینا شروع کردیا۔
اے این پی والوں کو پہلا تحفہ ’’پختوانخوا‘‘ کی صورت میں عنایت کیا۔ دوسرا اپنے وفاقی وزیر لوڈشیڈنگ سے یہ اعلان کرادیا کہ چونکہ کالاباغ ڈیم صوبوں میں متنازع ہے اسے ہمیشہ کیلئے خیرباد کہہ دیا گیا ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان کے عوام کو شاید ہی اتنے بڑے صدمے سے دوچار ہونا پڑا ہو حالانکہ اگر آصف علی زرداری کوئی بڑے مدبر نہ سہی معمول سوجھ بوجھ کے سیاست دان بھی ہوتے اور پاکستان کے بنیادی مسائل کا ادراک رکھتے تو اس معزز خاندان سے تعلقات کا فائدہ اٹھاکر انہیں قائل کرتے‘ انہیں بھی فائدہ پہنچاتے‘ ظاہر ہے یہ ڈیم انکے بھی مفاد میں ہے اور چاروں صوبوں کے 17 کروڑ عوام کو بجلی اور پانی کے ذخائر سے نہال کردیتے۔ سستی بجلی سے اس ملک کے کارخانے چلتے اور پانی سے لاکھوں کروڑوں ایکڑ کھیت سیراب ہوتے۔ فیلڈ مارشل ایوب خاں کے مارشل لاء دور کے شاہسوار جناب جسٹس محمد رستم کیانی نے فرمایا تھا کہ بعض انسانی حقوق اتنے بنیادی ہوتے ہیں کہ ان پر پابندی لگانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح ملکوں کے بعض مسائل اور قومی منصوبے اتنے بنیادی ہوتے ہیں کہ اپنی کم ہمتی سے بیشک آپ انہیں حل نہ کرسکیں انہیں پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکیں مگر آپ کو انہیں ترک کرنے یاخیرباد کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
لیکن وزیراعظم کے اس خوش آئند بیان کی سیاہی بھی ابھی خشک نہیں ہوئی کہ وفاقی وزیر برائے لوڈشیڈنگ نے دوسرے ہی دن مورخہ 21اپریل کو وزیراعظم کے بیان کے مضر اثرات ختم کرنے کیلئے یہ بیان داغ دیا کہ ’’کالاباغ ڈیم نہیں بنائیں گے سندھ میں چھوٹے ڈیم بنائیں گے‘‘۔ یہ آقا کے اشارے پر تھا۔ یا آقا کو خوش کرنے کیلئے! ایک یہودی مرنے لگا تو اس نے اپنی وصیت تحریر کرتے وقت بیگم صاحبہ کو بھی بلوالیا مگر یہودی جو بھی تجویز کرے بیوی اسکی مخالفت کرکے متبادل تجویز پر اصرار کرے وہ کہے فلاں فیکٹری بڑے لڑکے کو دیتا ہوں۔ بیوی کہے یہ فیکٹری چھوٹے کو دیں۔ جیولری میں بھی یہودی جو تحفہ چھوٹی بہو کو دینے کا متمنی تھا بیوی کہنے لگی اسے دفع کرو اور وہ ہار بڑی بہو کو دلانے پر مصر رہی۔ یہودی تنگ آگیا اس نے قلم چھوڑ دیا کہنے لگا پہلے یہ فیصلہ کرلیں کہ مرنے کا پروگرام میرا ہے یا آپ کا؟
ہمارے ہاں بھی یہ فیصلہ ہوجانا چاہئے کہ اس ملک کا چیف ایگزیکٹو یوسف رضا گیلانی ہے یا وہ کیا نام ہے۔ ایک ڈکٹیٹر کے نام سے ملتے جلتے نام والا وفاقی وزیر برائے لوڈشیڈنگ؟میں نے گیارہ اپریل کے آرٹیکل میں میاں شہباز شریف سے گزارش کی تھی کہ تین صوبوں کے تحفظات کاپراپیگنڈہ بے بنیاد ہے اس سلسلے میں وہ 1991ء کے واٹر ایکارڈ کے حوالے سے سردار ذوالفقار علی کھوسہ سے معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ہمارے ضلع میں ملک محمد حنیف اعوان مسلم لیگ ن کے سربراہ ہیں ان کا گائوں نہر کے کنارے ہے ایک دفعہ سوئے اتفاق سے انکے خاندان کے دو پھول نہر میں گر کر اور دو سری دفعہ دو جوان بیٹے سڑک کے حادثہ میں جاں بحق ہوئے۔ ایسی ہی ایک تعزیت میں مَیں گڑھا جٹاں میں موجود تھا کہ سردار ذوالفقار علی کھوسہ اور خواجہ سعد رفیق سے ملاقات ہوگئی۔ میں نے زندگی میں جو چند محبتیں پالی ہیں کالاباغ ڈیم ان میں سے ایک ہے۔ یہ میری زندگی کا مشن سا بن گیا ہے۔ میں نے ن لیگ کے ان لیڈروں سے کالاباغ ڈیم کے حوالے سے گفتگو کی۔ ان دنوں صدر پرویزمشرف اسکے بنانے کیلئے بڑے مستعد تھے۔ مگر کوئی مطلوبہ سیاسی سپورٹ نہیں مل رہی تھی۔ ق لیگ بمشکل اپنا وقت پاس کررہی تھی اسکے پاس فالتو انرجی نہیں تھی کہ اس مخمصے میں چھلانگ لگا دیتی۔ چودھری شجاعت حسین اپنے دھیمے انداز میں پرویزمشرف کو ضرور یاد دلاتے رہے کہ یہ کارنامہ آپ وردی کے اندر ہی سرانجام دے سکتے ہیں مگر شاید یہ جرنیل کے مقدر میں نہیں تھا۔ انہوں نے جامعہ حفصہ کے پھولوں اور کلیوں کو تو مسلنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی۔ ڈرنے لگے تو چند نام نہاد قوم پرستوں کی گیدڑ بھبکیوں سے ڈرگئے۔ مسلم لیگ (ن) کے منشور میں کالاباغ ڈیم کے منصوبہ کو بلاشبہ اہم ترین مقام حاصل ہے۔ مگر وہ کب چاہتی تھی کہ جنرل پرویزمشرف یہ کریڈٹ لے جائیں۔ پیپلزپارٹی کا بھی یہی موقف تھا۔ تاہم مسلم لیگ ن کے دونوں لیڈروں نے کالاباغ ڈیم کے موضوع پر گہری دلچسپی لی۔ خواجہ سعد رفیق تو کالاباغ ڈیم کے حوالے سے اتنے پرجوش تھے کہ میں نے محسوس کیا کہ اگر اس وقت انکے ہاتھ میں تلوار ہو اور کوئی کالاباغ ڈیم مخالف انکے سامنے آجائے تو اس کی جان بچانا مشکل ہوجائے۔
سردار ذوالفقار علی کھوسہ سے مجھے پہلی دفعہ علم ہوا کہ یہ جو پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ تین صوبوں کے تحفظات ہیں یہ بالکل جھوٹ اور بکواس ہے انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ ہمارے دور میں چاروں صوبوں کے مابین پانی کی تقسیم کے حوالے سے 1991ء میں ایک تاریخی واٹرایکارڈیا آبی معاہدہ ہوا۔ اس میں چاروں صوبوں نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے مکمل اتفاق رائے کیا اسے بخوشی قبول کیا اور اسکے بدلے میں پنجاب سے دوسرے صوبوں بالخصوص سندھ کو پانی کے حوالے سے زبردست مراعات دی گئیں۔ اس آبی معاہدہ کی روشنی میں پانی کی نئی تقسیم سے پنجاب کو اتنا خسارہ برداشت کرنا پڑا کہ اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں نے معاہدہ پر دستخط کرنے سے انکار کردیا ان کو کالاباغ ڈیم کا واسطہ دیکر بڑی مشکل سے راضی کیا گیا تب کہیں جاکر انہوں نے بچشم نم اس معاہدہ پر دستخط کئے۔ ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ پاکستان میں پانی کی تقسیم تو اسی معاہدہ 1991ء کے تحت ہورہی ہے اور گزشتہ اٹھارہ سال سے پنجاب کے حصے کا کروڑوں اربوں ڈالر کا پانی سندھ اور دوسرے صوبے غصب کررہے ہیں لیکن پنجاب کا خادم اعلیٰ بڑی شان سے فرماتا ہے کہ کالاباغ ڈیم معاشی لحاظ سے پاکستان کیلئے سود مند ہے لیکن متنازعہ ہونے کی وجہ سے یہ ملکی مفاد میں بہتر نہیں مزید فرماتے ہیں کالاباغ ڈیم سیاست کی نذر ہوگیا ہے اور جب تک چاروں صوبوں میں اتفاق نہیں ہوتا یہ نہیں بن سکتا۔’’سبحان اللہ‘‘۔
اس لاوارث صوبے کا خدا ہی حافظ ہے!
نوائے وقت نے ایک ادارتی نوٹ میں میاں شہباز شریف کی بروقت خبر لی ہے اور یاد دلایا ہے کہ ان کا موقف پارٹی منشور کیخلاف ہے۔ بلکہ یہ چٹکی بھی لی ہے کہ اگر میاں شہباز شریف نے کسی غلط فہمی یا وفاقی حکمرانوں کو خوش کرنے کیلئے یہ بیان دیا ہے تو قومی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے انہیں کالاباغ ڈیم کے بارے میں اپنے نئے موقف سے فی الفور رجوع کرلینا چاہئے کیونکہ یہ مسلم لیگ کا ہرگز موقف نہیں ہے۔ میاں صاحب بادشاہ ہیں ان کو اپنے دل پر بڑا اختیار ہے کبھی یہ موم ہوتا ہے اور کبھی آہن بلکہ سٹیل بن جاتا ہے۔ کوئی فیصلہ عدالت سے خلاف آجائے تو شامت زرداری بے چارے کی۔ اسے صدارت سے ہی نہیں انسانیت کے درجے سے بھی گرانے میں دریغ نہیں کرتے اور فیصلہ فاضل عدالت سے حق میں آجائے تو زرداری کے صدقے واری۔ کالے بکرے ہی نہیں۔ ان کیلئے کالے باغ بھی ذبح کردیتے ہیں اور انکے ساتھ 17 کروڑ عوام کے گیل پر چھری پھیرنے سے بھی گریز نہیںکرتے!۔
نوائے وقت نے تو خیر ہر قومی کاز کی حمایت کا ٹھیکہ لے ہی رکھا ہے۔ آج 6 مئی کو اتفاق سے ایک اور معاصر اخبار کے مڈویک میگزین میں زراعت کے موضوع پر راجہ جاوید علی بھٹی کا آرٹیکل نظر سے گزرا، چند سطور ملاحظہ ہوں۔ ’’بھارت، دریائے سندھ، چناب اور جہلم پر 62 سے زیادہ آبی ذخائر تعمیر کرچکا ہے جس سے ان دریائوں کا پانی 50 فیصد کم رہ گیا ہے۔ بگلیہار ڈیم بننے سے ملتان اور اوکاڑہ زون کی 80 لاکھ ایکڑ سے زائد اراضی بنجر ہوکر رہ گئی ہے جبکہ دس اضلاع میں زیرزمین پانی کی سطح خوفناک حد تک گرچکی ہے۔ کشن گنگا ڈیم بننے سے دریائے جہلم کا 27 فیصد پانی کم ہوجائیگا۔ ایک اہم اور خطرناک بات یہ ہے کہ سندھ پر بھارت ایک سرنگ بناکر پانی کو رخ موڑ رہا ہے ظاہر ہے بھارت نے یہ ڈیم دنوں میں نہیں بنائے مختلف ادوار میں بتدریج بنائے۔ پاکستان کے حکمران تماشا دیکھتے رہے ماضی قریب کے دو عشروں میں تو اس سنگین مسئلے کو مسئلہ سمجھا ہی نہیں گیا 20 مارچ 2009ء کی ایک مصدقہ اطلاع کیمطابق دریائے سندھ میں پانی کی کمی کے باعث تربیلا ڈیم میں نصب 14 پاور یونٹ میں سے 10 بند ہوگئے ہیں اور صرف چار یونٹ کام کررہے ہیں‘ منگلا ڈیم کا بھی یہی حال ہے‘‘۔
5مئی کو جس دن پنجاب کے خادم اعلیٰ کا زیربحث بیان اخبارات کی زینت بنا اسی دن رکن پنجاب اسمبلی ڈاکٹر زمرد یاسمین رانا کی طرف سے توانائی کے بحران پر مسلم لیگ ن کا حقائق نامہ بھی نظر سے گزرا جس میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کے دعوے کیمطابق دسمبر 2009ء تک لوڈشیڈنگ ختم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ توانائی کے بے شمار قدرتی وسائل ہونے کے باوجود پاکستان ابھی تک توانائی کے شعبہ میں خسارے میں جارہا ہے۔ حقائق نامہ میں اس یقین کا اظہار کیا گیا کہ ہائیڈل پاور کے منصوبے شروع کئے بغیر بجلی بحران پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ اس سال جولائی اگست کے درمیان بجلی کا شارٹ فال 3500 میگاواٹ سے تجاوز کرجائیگا۔ جس سے بدترین لوڈشیڈنگ ہوگی اور بجلی برائے نام دستیاب ہوگی بجلی کا بحران 2010ء میں بھی جاری رہے گا حکومت کا یہ دعویٰ سفید جھوٹ اور لغو ہے کہ رواں سال کے اختتام تک بجلی کے بحران کا بھی خاتمہ ہوجائیگا‘‘۔
گزشتہ سال وفاقی وزیرلوڈشیڈنگ یہی یقین دلاتے رہے کہ دسمبر 2008ء تک لوڈشیڈنگ ختم ہوجائیگی مگر دسمبر تک یہ نہ ہو سکی تو نئے سال کے 12 مہینے پڑے تھے کہہ دیتے مارچ تک ہوجائیگی مئی تک ہوجائیگی مگر نہیں۔ فرمایا دسمبر 2009ء تک حتمی طور پر ختم ہوجائیگی ظاہر ہے کہ جب 2009ء گزرنے لگے تو موصوف دسمبر 2010ء کی خوشخبری سنا دیں گے پھر دسمبر 2011ئ، پھر دسمبر 2012ئ، دسمبر 2013ء علی ہذا القیاس۔