بجلی بحران سب سے اہم قومی مسئلہ

بجلی بحران سب سے اہم قومی مسئلہ

May 26, 2013

پروفیسر نعیم قاسم

یوں تو گذشتہ دور حکومت سے پاکستانی عوام کو کثیرالجماعتی معاشی، سیاسی ، انتظامی اور دہشت گردی کے اذیت ناک مسائل کا سامنا ہے مگر سرفہرست بجلی کا بحران پاکستانی عوام کیلئے سوہان روح بن چکا ہے۔ مشرف حکومت اور اسکے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت کو عوام نے جس اہم وجہ سے اقتدار سے محروم کیا وہ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ ہے۔ عوام سخت ترین گرمی اورچلچلاتی دھوپ اور راتوں کو کئی کئی گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔ شہروں میں 16سے 18گھنٹے اور دیہاتوں میں 20 سے 22 گھنٹوں کی طویل ترین بجلی کی بندش نے پاکستانی عوام کیلئے زندہ رہنا دوبھر کر دیا۔
نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں پاکستان کے پاس سرپلس بجلی تھی اور پاکستان اس کو بھارت اور افغانستان کو فروخت کرنا چاہتا تھا مگرمشرف کے دور حکومت میں جب الیکٹرانکس کی مارکیٹ میں الیکٹرک مصنوعات کولرز ائرکنڈیشنڈ، فریج اور ٹی وی اور گاڑیاں بنکوں سے کنزیومر فنانسنگ پر آسان اقساط میں ملنا شروع ہوئیں تو اس سے بجلی اور گیس کی طلب میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا چونکہ مشرف کے دور میں سستی بجلی پیدا کرنے کے کوئی بھی ہائیڈل پراجیکٹ کا آغاز نہ کیا گیا چنانچہ توانائی کا بحران اس وقت شروع ہوا جب آبادی بڑھنے سے نئے تئے خاندانی یونٹس وجود میں آئے اور وہ گھر جہاں صرف ایک ائرکنڈیشنڈ، ایک فریج اور ایک ٹی وی ہوتا تھا وہاں اب اوسطاً ہر گھر کے الگ الگ کمرے میں 3 سے 4 سپلٹ ائرکنڈیشنڈ، کمرے میں الگ فریج، الگ ٹی وی ،الگ استری، اوون، موبائل فونز اور کمپیوٹرز کا بے تحاشا استعمال بڑھ گیا جب متوسط طبقے کے لوگ شوکت عزیز کی کنزیومر فنانسنگ کی وجہ سے الیکٹرک مصنوعات کے عادی ہو گئے تو انہوں نے حکومت سے سستی بجلی کا مطالبہ کرنے کی بجائے کسی بھی قیمت پر بجلی فراہم کرنے کا مطالبہ شروع کر دیا جس پر حکومت نے نئے ہائیڈل پراجیکٹس شروع کرنے کی بجائے زیادہ سے زیادہ مقدارمیں تھرمل بجلی بنانا شروع کر دی جس کی وجہ سے پاکستان میں پٹرولیم امپورٹ کا بل 12سے 15بلین ڈالرز تک جا پہنچا اور اسکے ساتھ ہی بجلی چوری میں بے تحاشا اضافہ ہو گیا ۔
گذشتہ 7 سالوں سے طویل لوڈشیڈنگ کی وجہ ہزاروں فیکٹریاں اور کارخانے بند ہو چکے ہیں اور اس وقت بجلی کا شارٹ فال 5 ہزار میگاواٹ سے بڑھ چکا ہے لہٰذا اب یہ حالت ہے کہ انرجی بحران کے خاتمے کا فوری حل صرف اور صرف یہ ہے کہ تھرمل بجلی پیدا کرنے کیلئے جو کمپنیاں آئل اور گیس فراہم کرتی ہیں انکو سرکلر ڈیٹ کی فوری ادائیگیاں کی جائیں جس سے آئی پی پیز اپنی بھرپور استعداد سے بجلی پیدا کریں گے تو 3 سے 4 ہزار میگاواٹ بجلی فوراً سسٹم میں آ جائیگی تاہم اسکی قیمت 14سے 15روپے فی یونٹ بڑھے گی اگر کالا باغ ڈیم کا منصوبہ اپنے وقت میں مکمل ہو جاتا تو اس سے سارے ملک کو سستی بجلی حاصل ہوتی یہ ڈیم ہماری بنجر زمینوں کو سیراب کرتا اور ملک کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بھی محفوظ رکھا اور سالانہ پاکستان کی معیشت کو اربوں ڈالرز کا فائدہ ہوتا 1953-54میں جب کالا باغ ڈیم کا منصوبہ تیار کیا گیا تو اس وقت اس کی کل لاگت محض 5700 امریکی ڈالرز تھی اور 2000 تک اس منصوبے پر 1216.5 ملین کے اخراجات کئے گئے مگر اسکے بعد ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انکو ختم کر دیا گیا اور آج ہم توانائی بحران کے ایک ایسے منحوس چکرمیں پھنسے ہوئے ہیں جس کے شکنجے سے نکلنے کیلئے 500 سے 800 ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ ختم کرنا ہے۔
قارئین وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی ڈاکٹر مصدق ملک کا کہنا ہے کہ فنڈز کی قلت کی وجہ سے پاور پلانٹس اور پی ایس او کو ادائیگی نہیں ہو رہی ہے جسکی وجہ سے بجلی کا شارٹ فال 5500 میگاواٹ ہو گیا ہے اس کے علاوہ واپڈا کے کرپٹ ملازمین کے ساتھ ملی بھگت سے سالانہ 210 ارب روپے کی بجلی چوری ہو رہی ہے اس وقت عوام کے بلوں سے حاصل کردہ وصولیوں سے 10 ہزار 400 میگاواٹ کی بجلی کی پیداوار حاصل ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی کیلئے وزارت خزانہ کو 22 ارب روپے فوراً ریلیز کرنے کا حکم دیا تھا مگر ابھی تک صرف پانچ ارب روپے دیئے گئے ہیں ۔ اس وقت میاں نواز شریف نے اس بحران سے نمٹنے کیلئے جنگی بنیادوں پر حکمت عملی طے کرنے پر زور دیا ہے اور لوڈشیڈنگ کے مسئلے کے حل کو اپنی حکومت کی اولین ترجیح قرار دیا ہے ۔ مسلم لیگ (ن) اس سلسلے میں مندرجہ ذیل اقدامات پر غور کررہی ہے
(1) سرکلر ڈیٹ کے فوری خاتمے کیلئے 500 ارب روپے کے ٹی بلز کا اجراءکریگی اور ایک ہی دفعہ پرائیویٹ پاور کمپنیوں کو ادائیگی کر دی جائیگی۔
(2) تھرمل پاور پلانٹس کے مالکان کو پابند کیا جائیگا کہ وہ مکمل استعداد پر بجلی پیدا کریں جس سے 3500 میگاواٹ بجلی کی استعداد کو بروئے کار لایا جا سکے گا۔ (3) 2200 میگاواٹ بجلی شوگر انڈسٹریز کی مدد سے سسٹم میں داخل کی جائیگی (4) سالانہ 30 کروڑ ڈالرز کے ایندھن کی چوری ختم کی جائے گی جو کراچی پاور کمپنی سے سرکاری جنکوس کو دیئے جانے کے درمیان غائب ہو جاتی ہے (5) ڈسکوز، جنکوز اور پاور کنٹرول سنٹرز میں ایماندار اور پیشہ وارانہ مہارت رکھنے والے چیف ایگزیکٹو کی تعیناتی کی جائیگی
(6) ہو سکتا ہے کہ CNG شعبے کا خاتمہ کر دیا جائے کیونکہ اس میں گیس چوری اور اسکے ضائع ہونے کے نقصانات میں 13 سے 14فیصد تک اضافہ ہو گیا ہے اس گیس کو بجلی بنانے والے پلانٹس اور صنعتی شعبے کو منتقل کر دیا جائیگا۔ (7) بجلی کی سبسڈی کو صرف 100 یونٹ استعمال کرنیوالے صارفین تک محدود کر دیا جائیگا۔ (8) بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے سربراہان کو عہدوں سے ہٹا کر مارکیٹ سے پروفیشنل لوگوں کو ہائر کیا جائے گا۔ (9) صوبوں سے بجی کی مد میں ایک سے دس ارب کے واجبات وصول کرنے کیلئے ایڈجسٹر کا تقرر عمل میں لایا جائیگا۔
(10) بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا آڈٹ کرنا بھی توانائی بحران کو حل کرنے کے منصوبے کا ایک حصہ ہے اس کے علاوہ کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کو فالتو     میگاواٹ بجلی کی فراہمی منقطع کی جائیگی ۔
مندرجہ ذیل مختصر المدت اقدامات کے ساتھ بھارت سے 1000میگاواٹ بجلی کی درآمد پر بھی نواز شریف سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔ اسکے علاوہ پاکستان مستقبل میں وسطی ایشیائی ملکوں سے بھی بجلی درآمد کر سکتا ہے عالمی بنک رپورٹ کیمطابق پاکستان میں لوڈشیڈنگ کی وجہ سے 4 لاکھ صنعتی مزدوروں کی بیروزگاری کا خاتمہ کرنے کیلئے پاکستان اور بھارت کے درمیان بجلی کی تجارت ناگزیر ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بہتر انتظامی اصلاحات سے پاکستان میں بجلی کے بحران پر کسی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے اور 200 سے 300 ارب روپے کی سالانہ کرپشن اس شعبے سے ختم کی جا سکتی ہے پاور ہاﺅسز تکنیکی خرابیاں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں اگر ان تکنیکی خرابیوں کو بہتر مہارت سے دور کر لیا جائے تو بحران میں اس شدت کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اسکے علاوہ 100ارب کے سالانہ بجلی چوری اور لائن لاسز پر بھی قابو پانا ہو گا۔

مزیدخبریں