اچھا پڑوسی ےقےنا اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بڑی نعمت ہوتا ہے۔ چےن کا اےک اچھا پڑوسی ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کےا ہوگا کہ بھارت جو عملی طور پر چےن کا حلےف کے بجائے حرےف کے کردار مےں ا سکے سامنے رہتا ہے۔ اسکے ساتھ بھی چےن کی تجارت کا تخمےنہ 66 ارب ڈالرز کے قرےب پہنچ چکا ہے۔ ہماری حکومتےں اےک اچھے پڑوسی سے فائدہ حاصل کرنے کی کتنی صلاحےت رکھتی ہےں اس بات کا اندازہ آپ اس سے بخوبی لگا سکتے ہےں کہ 60 برس پر محےط دوستی مےں پاکستان اور چےن کی تجارت کا حجم صرف12 ارب ڈالرز تک پہنچ پاےا ہے۔ اچھے پڑوسی کی نعمت کے ثمرات بھی وہی حاصل کر سکتا ہے جو اسکی اہلےت رکھتا ہے۔
قارئےن!جنگ لڑتے ہوئے جہاں آپ کو دشمن کی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے وہیں جنگ آپ کو اپنے دوستوں کو پرکھنے کا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔ 1950 مےں جب پاکستان نے تائےوان کی حکومت کو تسلےم کرنے سے انکار کردےاتھا۔ تو دوسری جانب اسی انکار سے پاک چےن دوستی کا اقرار نامہ بھی تشکےل پا رہا تھا۔ 1962 مےں بھارت کی چےن کے ساتھ جنگ بھی چےن کو پاکستان کے اور زےادہ قرےب لانے کا سبب بنی۔
1971 مےں چےن نے بےن الاقوامی سےاسی اُفق پر ےہ ثابت کردےا کہ وہ پاکستان کا اچھا پڑوسی بھی ہے اور قرےبی دوست بھی۔1971 کی جنگ مےں 90 ہزار سے بھی زےادہ پاکستانی انڈےا کی قےد مےں چلے گئے تھے۔ ان قےدےوں کو رہاکےے بغےر اور سرحدی علاقوں کا تصفےہ کےے بنا بھارتی حکومت کی ےہ کوشش تھی کہ بنگلہ دےش کو اقوام متحدہ کا رُکن بنادےا جائے۔ تاکہ پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کے بعد اسے مزےد دباﺅ مےں رکھا جاسکے۔ مگر چےن نے سلامتی کونسل مےں بنگلہ دےش کی درخواست کو وےٹو کردےاتھا۔ اس طرح بھارت کو مجبوراََ پاکستانی قےدےوں کو چھوڑنا پڑا اور پاکستان کے کئی علاقوں پر اپنا تسلط ختم کرنے کیلئے مذاکرات کی مےز پر بےٹھنا پڑاتھا۔
چےن دوسرے ممالک کے ساتھ اپنے روابط کے لےے پاکستان کو پُل کا درجہ دےتا ہے۔ 1971 مےں اس وقت کا امرےکی سےکرےٹری آف سٹےٹ ہنری کسنجر جب براستہ پاکستان ،بےجنگ کی قےادت سے ملنے کے شوق مےں چےن گےا۔ تو وہاں ماﺅزے تنگ سے اس کی ملاقات ہوئی ۔ پےپلزہال سے واپسی پر ماﺅزے تنگ نے امرےکی سےکرےٹری سے کہا ”جس پُل سے گزر کے تم چےن آئے ہو، اُسے بھولنا مت“۔
ماﺅزے تنگ کا ےہ ےادگار جملہ جو 1971 مےں پاکستان کے بارے کہا گےا تھا اس جملے کے پےچھے بھی اےک تارےخ ہے جو سفر کرتے ہوئے ےہاں تک پہنچی ۔ وہ تارےخ ہمےں بتاتی ہے کہ 1960 کے عشرے مےں پاکستان نے اپنی فضائی سروس کا آغاز اسلام آباد بےجنگ کے روٹ پرکےاتھا۔ اب 60برس گزرنے کے بعد پاکستانی فضائی سروس تو خستہ حالی کی تصوےر بن چکی ہے لےکن پاک چےن دوستی کا پُل پہلے کی طرح مضبوط اور مستحکم ہے۔
قارئےن! اس سوال کا جواب مشکل نہےں ہے کہ”چےن کی ترقی کا راز کےا ہے؟ ہرکوئی اس کا اےک ہی جواب دیگا“کہ چےن کے لوگ محنتی ہےں بلکہ بہت زےادہ محنتی ہےں اس لےے انکی ترقی کا راز محنت مےں پوشےدہ ہے۔ چےن کے عوام کی بے مثال محنت کے پےچھے وہاں کی مضبوط حکومتوں کا کردار بھی بڑی اہمےت کا حامل ہے۔ ہمارے ہاں بننے والی مخلوط حکومتوں مےں محنت کے کارنامے کچھ اس طرح کے ہوتے ہےں کہ گزشتہ دورِ حکومت کے آخری وزےراعظم نے اپنی حکومت کے آخری دن خصوصی اختےارات استعمال کرتے ہوئے بنکوں سے 48 ارب روپے کے ترقےاتی فےڈز جاری کےے اور اس رقم کو ادھر اُدھر کےا اور گھر چلے گئے اوراب عدالت مےں کےس زےرِ سماعت ہے۔ اور تو اور ہمارے ہاں تو نگران حکومتےں بھی عوام کی محنتی کی کمائی مےں اپنا حصہ ڈالنا فرض سمجھتی ہےں حالانکہ ےہ ان کے اختےار کے دائرے مےں نہےں آتا۔ اےک خبر کے مطابق نگران حکومت نے گندم کے بدلے اےران سے بجلی لےنے کا معاہدہ کےا ہے۔ بتاےا جارہا ہے کہ عالمی مارکےٹ سے 70 ڈالر فی مےٹرک ٹن کم قےمت پر گندم فروخت کی گئی ہے۔
قارئےن !محنت تو ہماری قوم بھی بہت کرتی ہے لےکن جس حکمتِ عملی کے تحت چےن کی قوم محنت کرتی ہے اسے اپنانے مےں ہمےں اور کتنا وقت درکار ہوگا۔ کےونکہ پوری دنےا مےں پاکستان واحد اےسا ملک ہے جو اےٹمی طاقت ہونے کے باوجود توانائی کے بحران کا شکار ہے۔ ہمارے ملک مےں آبی ذخائر ناپےد ہےں۔ عوام بجلی اورپانی کو ترس رہے ہےں جبکہ ہم نے اپنے اچھے پڑوسی اور مخلص دوست چےن سے سبق نہےں سےکھا کہ اس نے 18000 ڈےم بنا کر دنےا مےں عالمی رےکارڈ قائم کرلےا۔ چاہےے تو ےہ تھا کہ ہم چےن کی مدد سے اپنے ملک مےں رےکارڈ نہ سہی صرف چند سو ڈےم لگانے مےں ہی کامےاب ہو جاتے لےکن اس کے لےے مخلص قےادت کی ضرورت پڑتی ہے جو اب تک ہماری قوم کو دستےاب نہےں ہو سکی۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمےں چےن جےسے عظےم دوست سے دوباتےں سےکھنی چاہےں۔ اےک تو ےہ کہ محنت کرنے کی عادت کےسے ڈالی جائے اور دوسرے ےہ کہ مستحکم اورمضبوط حکومتےں کےسے پروان چڑھ سکتی ہےں۔ اس سلسلے مےں اور بہت سے شعبوں کے ساتھ ساتھ تعلےم کے شعبے مےں بھی چےن کا تعاون حاصل کرنا ہوگا۔ اسکے علاوہ تمام اےسے ادارے جو خسارے مےں جارہے ہےں مثلاََ پی آئی اے ، رےلوے، ان مےں بھی چےن کی معاونت سے بہت انقلابی قسم کی بہتری لائی جاسکتی ہے۔ اےک اور شعبہ جس کی طرف بہت توجہ دےنے کی ضرورت ہے وہ ہے زراعت کا شعبہ ۔ اس وقت ہمارا کاشتکار بھائی مہنگی بجلی، اور مہنگا ڈےزل ےا پٹرول استعمال کرکے فصلےں کاشت کرتا ہے اس وجہ سے اس کی اصل لاگت بھی اسے واپس نہےں ملتی۔ آنیوالی حکومت کیلئے ضروری ہے کہ اسے زراعت کے شعبے مےں بھی چےن کی معاونت کو اہمےت دےنی چاہےے۔
چےن کے وزےراعظم سے ملاقات مےں مےاں نوازشرےف نے بڑی بنےادی بات کردی ہے ۔ انھوں نے کہا ہے ”چےن اپنے طرز پر کی جانیوالی انفراسٹرکچر کی ترقی سے پاکستان کو بھی بارآور کرے“۔
اچھا پڑوسی بڑی نعمت ہوتا ہے
اچھا پڑوسی بڑی نعمت ہوتا ہے
May 26, 2013