ڈاکٹر وزیرعلی آغا....عملی زندگی کی جہت

مئی کا مہینہ ڈاکٹر وزیر آغا کی پیدائش کا مہینہ ہے۔ آغا صاحب زندہ تھے تو یہ مہینہ معمول کے مطابق آتا اور ان کے یوم پیدائش18 مئی(1922)کو عبور کرتا ہوا گزر جاتا۔ انہیں یاد دلایا جاتا کہ آج ان کی سالگرہ ہے، تو ایک دھیمی سی مسکراہٹ ان کے ہونٹوں پر بیدار ہوتی اور کہتے ”زندگی کا ایک سال کم ہونے پر خوشی کیسی؟“ اس سادہ سے جواب سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وزیر آغا زندگی کو نعمت خداوندی شمار کرتے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ انسان کو دنیا کی امتحان گاہ میں وقت گزارنے کی صرف ایک میعاد (Term) ملتی ہے اور اس کے بعد عالم آخرت کی حیات دائمی ہے جو ارضی دنیا میں سانس لینے والے انسان کے تجربے سے باہر ہے۔
 وزیر آغا کو اپنے گاﺅں کی فضا سے موانست کا زیادہ عرصہ نصیب ہوا۔ اور یہیں انہوں نے اپنے والد گرامی آغا وسعت علی خان سے جو تصوف کی باطنی گہرائیوں کا مطالعہ کرنے والے انسان تھے۔ زندگی کی معنویت کا درس لیا‘ دکھ اور مسرت کی ماہیت کو سمجھ اور پھر ایم اے اقتصادیات کرنے کے باوجود کاشتکاری کو زندگی گزارنے کا وسیلہ بنایا۔ انہوں نے اسرار حیات کی دانش کے لئے مختلف علوم کا مطالعہ کیا اور ادب کو جس میں شاعری، تنقید و تحقیق اور انشائیہ کو فوقیت حاصل ہے۔ اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا۔ اردو ادب میں طنز و مزاح ”مسرت کی تلاش“.... نظم جدید کی کروٹیں.... اردو شاعری کا مزاج.... تصورات عشق و خرد.... اقبال کی نظر میں.... ”خیال پارے“ ”تخلیقی عمل“.... ”انشائیہ کے خدوخال“.... تنقیدی تھیوری کے سو سال“ جیسی نثر کی فکری کتابوں اور شاعری میں ”شام اور سناٹے“ ”دن زرد پہاڑ“.... ”نرد بان“.... ”غزلیں“ ....اک کتھا انوکھی“ .... اور کلیات ”چہک اٹھی لفظوں کی چھاگل“ وغیرہ کتابوں کے مصنف کی حیثیت سے انہیں ایک ایسا ادبی دانشور تسلیم کیا گیا جس نے آزادی کے بعد پاکستان میں اردو ادب کو سب سے زیادہ متاثر کیا اور نئی نسل کی تربیت اپنی تنقیدی و تخلیقی کتابوں کے علاوہ رسالہ ”اوراق“ سے کی۔
ادب ڈاکٹر وزیر علی آغا کی زندگی کی اہم ترین سرگرمی تھی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے معاشرتی سرگرمیوں کو کبھی نظر انداز نہیں کیا اور وہ نام و نمود کی خواہش کے بغیر ملک و قوم کی تعمیری ترقی میں اپنا کردار خوش اسلوبی سے ادا کرتے رہے۔ ان کے اسلاف گھوڑوں کے سوداگر تھے۔ جنگ عظیم میں انگریز سرکار کو گھوڑوںکی ضرورت سامان حرب کی نقل و حرکت کےلئے پڑی تو نہری نظام کے دو آبوں میں زمینداروں کو گھوڑے پالنے کے لئے زمینیں الاٹ کی گئیں تھی۔ فیض احمد فیض کے والد محترم اور ڈاکٹر وزیر آغا کے دادا کو ضلع سرگودھا میں زمین دی گئی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد انگریز سرکار کو گھوڑوں کی ضرورت نہ رہی تو یہ گھوڑے پال مربعے اجناس کی کاشت کےلئے استعمال ہونے لگے۔ وزیر آغا کے والد آغا وسعت علی خان انہیں گھوڑوں کا سوداگر بنانا چاہتے تھے۔ ان کی دوسری خواہش یہ بھی تھی کہ وزیر آغا فوج میں کمشن حاصل کریں۔ لیکن انہوں نے کاشتکاری کو ترجیح دی اور فوج میں انگریزی سرکار کی غلامی کو یکسر مسترد کر دیا۔ سماجی سطح پر وزیر آغا کی پہلی نمایاں خدمت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے گاﺅں کی بے آباد زمینوں کو زراعت کے جدید اصولوں کے مطابق قابل کاشت بنایا۔ وزیر آغا نے اپنی خود نوشت سوانح ”شام کی منڈیر سے“ میں لکھا ہے:”میرے لئے یہ سارا ماحول جنگلی گلاب کی ان جھاڑیوں پر مشتمل تھا جن کی کبھی تراش خراش نہ کی گئی ہو مگر 1954 کے طلوع ہوتے ہی زمین سے میرے تعلق خاطر میں ایک نئے بُعد کا اضافہ ہوا“۔
چنانچہ وزیر آغا نے کاشت کی جانے والی زمین کے ایک خاص پیٹرن کو ملحوظ رکھ کر کچی سڑکیں بنانی شروع کیں پھر پانی کے کھالوں کی طرف متوجہ ہوئے کہ پانی تو زراعت کے لئے خون گرم کا درجہ رکھتا ہے۔ انہوں نے بل کھاتے کھالوں کے برعکس سیدھے کھال بنائے اور پھر انہیں تنگ کر کے پانی کی رفتار کو تیز کر دیا۔ اچھی زراعت کےلئے انہوں نے کھیتوں کا سائز برابر کیا اور ان کی ناہمواری رفع کر دی۔ وزیر آغا نے لکھا ہے:
”میں صبح پانچ بجے اٹھتا۔ جلدی جلدی ناشتہ کر کے اور فل بوٹ پہن کر کھیتوں میں نکل جاتا۔ وہاں لوگ پہلے سے موجود ہوتے۔ میں فیتہ ہاتھ میں لئے کھیتوں، سڑکوں اور کھالوں کے بل نکال نکال کر انہیں سیدھا کرنے کے عمل میں جتا رہتا.... اور شدید گرمی میں بھی سر پر سولا ہیٹ رکھے سارا سارا دن کھیتوں میں کام کرتا رہتا“۔
وزیرآغا کی یہ محنت رنگ لائی اور انکی زمینیں جو پہلے صرف انگریز سرکار کے گھوڑوں کےلئے چارہ اگاتی تھیں، سو نا اگلنے لگیں اور انہیں اس علاقے کے نمایاں ترین کاشتکار قرار دیا گیا جس پر اپنی اراضی کے مناسب حصے کو کار آمد فصلوں کیلئے وقف کیا اور معتدبہ زمین کو پھل دار درختوں کی کاشت کیلئے مختص کر دیا۔ وزیر آغا نے یہاں اپنے زراعتی مطالعے اور تجربے کی اساس پر آم، مالٹا اور کینو کے تجربات کئے۔ جنہیں بعد میں بے شمار زمینداروں نے قبول کیا۔ اہم بات یہ ہے کہ امریکہ سے ایک زرا عتی وفد آیا تو حکومت پاکستان نے اس وفد کے ایک امریکی نوجوان کو وزیرآغا کے فارم پر دو ہفتے کے قیام کیلئے بھیجا اور اس نے نہ صرف وزیر کوٹ کی زراعت کا مطالعہ کیا بلکہ معاشرتی مزاج کی پرکھ پڑچول بھی کی۔ وزیر آغا اس امریکی نوجوان کو ایک جاگیردار جی ایم ننگیانہ کی عالی شان کوٹھی پر لے گئے۔ صبح اٹھے تو دیکھا کہ امریکی نوجوان کوٹھی کے پورچ میں زمین پر بیٹھا ہوا تھا۔امریکی نوجوان کہنے لگا۔”میں اس بات پر غور کر رہا ہوں کہ انسان کو رہنے کے لئے کل کتنی جگہ در کار ہے مثلاً دیکھو مسٹر ننگیانہ کو اتنے بڑے محل کی کیا ضرورت ہے جبکہ اسے اپنی رہائش کےلئے دو کمروں سے زیادہ جگہ درکار نہیں ہے“۔
وزیر آغا اس بات سے اتنے متاثر ہوئے کہ اپنے زرعی فارم پر کام کرنے والوں کو انکے کنبے کی ضرورت کے مطابق مکان بنانے کےلئے بلاقیمت زمین دے دی اور مکان کی تعمیر کےلئے سرمایہ بھی فراہم کیا۔ میرا ذاتی مشاہدہ یہ ہے کہ وزیر کوٹ فارم پر آجر اور اجیر‘ زمیندار اور مزارع کا امتیاز مفقود تھا۔ وزیر آغا نے کاشتکاروں کے بچوں کی تعلیم کےلئے گاﺅں میں سکول کھولا اور تعلیم کا ایسا ذوق پیدا کیا کہ کئی نوجوان کالج کی تعلیم کےلئے سرگودھا، فیصل آباد اور لاہور کے کالجوں تک پہنچے اور اب اعلیٰ ملازمتوں پر بھی فائز ہیں۔ وزیرآغا اپنے ایام جوانی میں گاﺅں میں کھیلوں کا خصوصی انتظام کرتے تھے۔ سال میں ایک مرتبہ دوسرے دیہاتوں کے ساتھ ٹورنامنٹ منعقد کراتے اور انعام تقسیم کرتے۔ مجھے جب کبھی شام وزیر کوٹ میں گزارنے کا موقع ملتا تو میں دیکھتا کہ وزیر آغا والی بال کے کھیل میں گاﺅں کے نوجوانوں کے ساتھ شامل ہیں اور رات کے وقت انکے ساتھ چارپائیوں پر بیٹھ کر انکی باتیں سنتے اور اپنے تجربات بیان کرتے تھے۔ ان کا پورا گاﺅں ایک کنبہ تھا جس کے باشندے امارت اور غربت کے تاثر سے ناآشنا تھے۔
”ون یونٹ“ کے بعد میں پورے مغربی پاکستان کے لئے بیس بائیں ممبروں پر مشتمل ایک زرعی مشاورتی کمیٹی کا اعلان کیا گیا تو گورنر امیر محمد خان نے وزیر آغا کو بھی اس میں شامل کیا۔ آغا صاحب نے اپنے ادبی رہنما مولانا صلاح الدین احمد سے کہا کہ وہ اصولاً اور مزاجاً اس میں شرکت کے خلاف ہیں لیکن مولانا نے جواب دیا ”یہ کوئی سیاسی ادارہ نہیں، محض ایک مشاورتی کونسل ہے۔ آپ اسکے اجلاس میں شریک ہو کر اب زراعت، تعلیم اور ادب کے سلسلے میں مشورے دے سکتے ہیں چنانچہ انہوں نے متعدد مفید تجاویز کے علاوہ ایک یہ تجویز بھی منظور کرائی کہ دیہاتی مدرسوں میں زرعی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے‘ انہیں دکھ یہ تھا کہ اس مشاورتی کونسل کی بے حد مفید تجاویز پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ڈاکٹر وزیرآغا کا زمین سے ناتہ بے حد مضبوط تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور حکومت میں زرعی اصلاحات نافذ کیں تو انہوں نے اراضی کی منظور شدہ حدود پر قناعت کی اور قانون کی تعمیل میں زائد اراضی، حکومت کی نذر کر دی۔ 7 ستمبر2010ءکو انہوں نے لاہور میں وفات پائی لیکن ان کا جسد خاکی وزیر کوٹ لے جایا گیا اور اس مٹی میں دفن کیا گیا جس نے انکی پرورش کی تھی۔ ”ادبی دنیا“ وزیر آغا کی زندگی کے اس عملی پہلو سے ناآشنا ہے اور بے پر کی اڑائی جاتی ہے‘ انکی 91ویں سالگرہ کے مہینے میں یہ جہت سامنے لا رہا ہوں۔

ای پیپر دی نیشن